جذباتی قوم کا معاملہ۔۔محمد اسد شاہ

پاکستانی قوم کی چند خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ محبت اور نفرت، دونو معاملات میں جذباتی ہے۔ہمارے لوگ جس سے محبت کریں، اسے سر پر بٹھا لیتے ہیں، اور جس سے ناراض ہوں، اس کی خوبیوں کو بھی نظرانداز کر دیتے ہیں۔ ایسا کئی بار ہوا کہ ان کے پسندیدہ سیاسی راہ نماؤں، افسروں، ججز، علماء اور کھلاڑیوں نے ان کے دل توڑے، ان کے جذبات مجروح کیے۔ میں کھیل کے میدان سے ایک مثال دوں گا۔ 1975سے 2019تک ہونے والے مقابلوں میں ویسٹ انڈیز اور بھارت نے 2، 2 بار، جب کہ آسٹریلیا نے 5 بار ورلڈ کپ جیتا۔ اسی طرح ویسٹ انڈین کپتان کلائیو لائیڈ اور آسٹریلوی کپتان رکی پونٹنگ نے 2، 2 بار اپنے ممالک کے لیے یہ اعزاز جیتا۔ پاکستان نے یہ کپ صرف ایک بار جیتا۔ دیگر جیتنے والے کپتانوں کے برعکس، 1992کے پورے ٹورنامنٹ میں پاکستانی کپتان کی ذاتی کارکردگی قابل تعریف یا نمایاں نہیں تھی۔ جن کھلاڑیوں نے پاکستان کی جیت کو یقینی بنایا ان میں انضمام الحق، سلیم ملک، جاوید میاں داد، وسیم اکرم اور عاقب جاوید نمایاں رہے۔ لیکن پاکستانی قوم نے اس ایک ہی ورلڈ کپ کے بدلے میں ان تمام کھلاڑیوں اور ان کے کپتان کو سر آنکھوں پہ بٹھا لیا۔اس وقت منتخب وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے عمران خان سمیت سب کھلاڑیوں کو قیمتی ترین رہائشی پلاٹس اور انتہائی بھاری نقد انعامات سے نوازا اور ان سب کے اعزاز میں سرکاری تقریب کا اہتمام کیا۔لوگوں نے سڑکوں اور گلیوں میں جلوس نکالے اور بھنگڑے ڈالے۔دوسرے ممالک میں اس قدر پذیرائی ان ٹیموں اور ان کپتانوں کوبھی نہیں ملی جنھوں نے کئی کئی بار ورلڈ کپ جیتے۔لیکن اسی پاکستانی ٹیم نے جب اگلے دو عالمی مقابلوں میں قوم کو شدید مایوس کیا، تو لوگوں کا غصہ بھی بہت شدید تھا۔
کچھ ایسے ہی، بل کہ اس سے زیادہ جذبات یہ قوم تمام علمائے اسلام اور مذہبی جماعتوں کے حوالے سے بھی رکھتی ہے۔ تبلیغی جماعت کے لوگ چوں کہ کسی سیاسی سرگرمی میں شامل نہیں ہوتے، اس وجہ سے ان کوپورے معاشرے میں خصوصی محبت اور عقیدت حاصل ہے۔ان میں سے علامہ طارق جمیل بہت معروف اور مقبول شخصیت ہیں۔ ان کے بیانات تمام طبقات میں بہت پسند کیے جاتے ہیں۔ بعض لوگ ان کی مہنگی گاڑیوں، قیمتی لباس اور حکمرانوں سے ملاقاتوں پر اعترض کرتے رہے ہیں۔ لیکن عام لوگ ان باتوں کو نظرانداز کر کے ان کی تقاریر پر توجہ دیتے ہیں۔ البتہ گزشتہ دنوں علامہ صاحب نے چند ایسے سیاسی بیانات دیئے کہ جن سے بہت لوگوں کو اعتراض اور سخت تنقید کا موقع ملا۔ اگر ہم یہ کہیں کہ لوگوں کی بہت بڑی تعداد نے ناپسندیدگی کا اظہارکیا تو غلط نہ ہو گا۔کرونا کی عالمی وباء کے حوالے سے ایک ٹی وی چینل پر دعائیہ بیان میں علامہ نے حیرت انگیز طور پر موجودہ وزیر اعظم کی تعریفیں شروع کر دیں۔ جس کا کوئی موقع تھا اور نہ ہی ضرورت۔ لیکن بات یہیں نہ رکی، بل کہ علامہ صاحب نے تو موجودہ وزیراعظم کو ایمان داری کا سرٹیفکیٹ تک جاری کر دیا۔وزیراعظم کے مخالفین کو اس پر غصہ آنا فطری بات تھی۔ انھوں نے کئی سالوں سے الیکشن کمیشن میں زیرسماعت فارن فنڈنگ کیس کے حوالے دینا شروع کر دیئے کہ جس میں بار بار طلبی کے باوجود خان صاحب الیکشن کمیشن میں پیش نہیں ہوتے۔ بلکہ اس کیس کی سماعت رکوانے، یا سماعت کو عوام اور میڈیا سے پوشیدہ رکھنے تک کی درخواستیں دی گئیں۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر مخالفین نے خیبرپختون خوا  میں احتساب کا ادارہ ختم کرنے، ہیلی کاپٹرکیس، بلین ٹری سونامی کرپشن کیس، پشاور بی آر ٹی کی خوف ناک لاگت اور پھر حالیہ آٹا اور چینی کرپشن سکینڈل کا بہت ذکر کیا۔لوگوں نے اس بات پر بھی بہت اعتراض کیا کہ اگر وزیراعظم ایمان دار ہیں تو ایک ایسے شخص کو وفاقی کابینہ اور وزراء کے ساتھ کیوں بٹھاتے ہیں جسے سپریم کورٹ کرپشن کے مقدمے میں سزاسنا چکی ہے۔ آٹا چینی سکینڈل کی رپورٹ میں نام زد تمام لوگ ابھی تک ان کی میٹنگزمیں کیوں موجود ہوتے ہیں۔ یہ ہے وہ عوامی ردعمل جو ہم سب نے دیکھا۔ ورنہ ذاتی طور پر ہم موجودہ یا سابق وزرائے اعظم کے ایمان کے حوالے سے کچھ بھی کہنا مناسب نہیں سمجھتے، کیوں کہ یہ اللہ اور اس کے بندوں کے معاملات ہیں۔ دلوں اور نیتوں کے حالات صرف اللہ کو معلوم ہیں۔ پھر ایک اور ٹاک شو میں علامہ صاحب نے پوری قوم کے حوالے سے کچھ ایسے الفاٖظ بولے، کہ جس پر تنقید کا ایک اور طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔اگلے ہی دن علامہ صاحب نے پورے میڈیا کو مکمل طور پر جھوٹا قرار دے دیا۔
میڈیا والی بات پر تو علامہ صاحب نے صحافیوں اور اینکرز سے غیر مشروط معافی مانگ لی۔لیکن پوری قوم کے حوالے سے اپنے الفاظ، یا موجودہ وزیراعظم کے حوالے سے اپنے متنازعہ الفاظ سے رجوع کرنے، کوئی ثبوت پیش کرنے یا وضاحت کی ضرورت علامہ صاحب نے محسوس نہیں کی۔ہم سمجھتے ہیں کہ علامہ صاحب کو اپنے ان متنازعہ بیانات کے حوالے سے جلد از جلد وضاحت کرنا چاہیے۔ یہ ان کی اپنی شخصیت اور وقار کا تقاضا بھی ہے۔

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply