• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پاکستان میں کورونا وائرس سے اب تک اتنی ہلاکتیں کیوں سامنے نہیں آ رہیں؟۔۔ غیور شاہ ترمذی

پاکستان میں کورونا وائرس سے اب تک اتنی ہلاکتیں کیوں سامنے نہیں آ رہیں؟۔۔ غیور شاہ ترمذی

3 مئی بروز اتوار کی نصف شب سے کچھ پہلے یہ کالم تحریر کرتے وقت تک امریکہ میں 68 ہزار سے زیادہ ، اٹلی میں 28 ہزار سے زیادہ، برطانیہ میں 28 ہزار سے زیادہ، سپین میں 25 ہزار سے زیادہ اموات ہوئی ہیں اور پاکستان میں صورتحال اس لحاظ سے بہت بہتر ہے کہ ہمارے یہاں 20 ہزار سے زیادہ کیسوں میں صرف 457 اموات ہی کورونا وائرس سے رپورٹ ہوئی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی یاد رہنا چاہئے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے پہلے 2 کیس 26 فروری کو رپورٹ ہوئے اور ایک مہینے یعنی 25 مارچ تک کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے مریضوں کی تعداد صرف ایک ہزار ہی تھی۔ مگر اس کے بعد وفاقی حکومت کے ’’سمارٹ لاک ڈاؤن‘‘ کے باوجود صرف 28 دن بعد یعنی 22 اپریل تک کیسوں کی تعداد 10 ہزار سے زیادہ ہو چکی تھی اور اسی سمارٹ لاک ڈاؤن میں ہی صرف اگلے 11 دنوں میں یعنی 3 مئی کی نصف شب تک یہ تعداد بڑھ کر 20 ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے۔ مہیا ہونے والے ڈیٹا کے مطابق آج کی تاریخ میں بھی روزانہ رپورٹ ہونے والے کیسوں کی تعداد 1600 سے زیادہ ہو چکی ہے۔ ایک محتاط اندازہ کے مطابق اگلے 25 سے 27 دن ہمارے لئے بہت اہم ہیں۔ اگر ان آنے والے دنوں میں ہم نے کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لئے وفاقی حکومت کے بےمقصد ’’سمارٹ لاک ڈاؤن‘‘ کی بجائے حقیقی لاک ڈاؤن کو نہ اپنایا تو دنیا دیکھے گی کہ کتنی جلدی اور کیسے یہ تعداد 20 ہزار سے بڑھ کر 20 لاکھ تک پہنچنے کے خطرات کو ظاہر کرنا شروع کر دے گی۔ کیونکہ بدقسمتی سے ابھی تک ہم کورونا وائرس کے معاملہ میں درکار سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔ لاک ڈاؤن کے نام پر شٹر ڈاؤن چل رہا ہے اور اس جان لیوا وائرس کا مقابلہ کرنے والے فرنٹ لائن سپاہی یعنی میڈیکل اور پیرا میڈیکل سٹاف مسلسل بتائے جا رہی ہے کہ ہمارے پاس حفاظتی انتظامات کی شدید ترین کمی ہے۔

پاکستان میں کسی بھی مہذب ملک کے مقابلے میں ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف کو 10 فیصد تک بھی حفاظتی سامان دستیاب نہیں ہے۔ وفاقی حکومت کی طرف سے یک مہینے کی مسلسل بیان بازی کے بعد چین سے آیا سامان جب مخصوص اور حاکم طبقوں کے وردی والے ہسپتالوں اور بعد ازاں حکمران جماعت کے ہر کارکن تک پہنچ گیا تو پھر کچھ حفاظتی کٹس اور ماسک ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف کو بھی مہیا کر دئیے گئے۔ کورونا وائرس کی شروعات سے ماہرین کہہ رہے ہیں کہ وفاقی حکومت کو اس کے مقابلہ میں مؤثر حکمت عملی بنانے کی اشد ترین ضرورت ہے اور اگر وفاقی حکومت اس ضمن میں کچھ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی (بحوالہ سپریم کورٹ رولنگ بسلسلہ تعنیاتی ڈاکٹر ظفر مرزا) تو وہ خواہ مخواہ والی سیاسی مخالفت چھوڑ کر صرف کورونا وائرس کے لئے ہی سندھ حکومت کی پیروی کر لے۔ اگر کسی کو اس معاملہ کو مزید سمجھنا ہو تو وہ پنجاب حکومت کی طرف سے ڈاکٹرز کے حفاظتی سامان کی مد میں بنائے گئے انتہائی غیر معیاری ایس او پیز چیک کر لے۔ بلوچستان میں تو ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف کو سڑک پر پولیس تشدد کر کے اپنی جگ ہنسائی کروائی گئی۔ ہلاکت خیز کورونا وائرس کے خلاف اس جنگ میں ہر اول دستے کا کردار اینستھیزیا ، میڈیسن اور پلمونالوجی کے ڈاکٹرز ادا کرتے ہیں جن کے ساتھ نرسز ، پیرا میڈکس، ٹیکنیشنز اور فزیو تھراپسٹ دیتے ہیں۔ حتٰی کہ مریضوں کو کھانا کھلانے اور رفع حاجات کروانے اور صاف کروانے والے وارڈ بوائز اور وارڈ لیڈیز بھی اس جنگ میں اپنا اپنا کام اپنی پوری صلاحیت کے ساتھ سرانجام دیتے ہیں۔ کم و بیش ان سب کے سامنا کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں سے ہو سکتا ہے ۔ حکومت کی طرف سے مگر حفاظتی کٹس صرف کورونا وارڈ میں ڈاکٹروں اور نرسز کو ہی فراہم کی جاتی ہیں جبکہ دوسرے ملازمین منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ اب تک پاکستان کے مختلف ہسپتالوں میں 216 ڈاکٹرز, 67نرسز اور 161 پیرا میڈیکل اسٹاف کورونا وائرس کا شکار ہو چکے ہیں۔ اسے یوں سمجھ لیں کہ اگر کسی ہسپتال میں تین ہزار ڈاکٹرز اور تقریباً دس ہزار سے اوپر طبی عملہ ہوں تو شاید دو سو لوگوں کو بھی یہ حفاظتی کٹس نہیں ملتیں ۔کٹس تو دور کی بات ہے، ان لوگوں کے لئے کورونا وائرس کی ڈیوٹی کے لئے مخصوص ماسک N-95 یا 3M تک بھی دستیاب نہیں ہیں اور اُن کی اکثریت عام طرز کے 3ply سرجیکل ماسک استعمال کر کے کام چلا رہے ہیں۔ اُس پر مزید ظلم یہ ہے کہ پنجاب حکومت نے کورونا وائرس کے آگے پھینکے جانے والے بغیر مکمل ہتھیاروں والے طبی عملہ کے لئے جس پیکج کا اعلان کیا ہے وہ بھی ہر ہسپتال میں صرف ان درجن بھر ڈاکٹرز اور نرسز کو ہی ملے گا جو کورونا وارڈ میں کام کرتے ہیں جبکہ طبی عملہ کے دیگر افراد جو ایمرجنسی میں ،وارڈز میں اور آئی سی یو میں ہر وقت کورونا وائرس کا شکار ہونے کے خطرہ سے دوچار ہیں، اُن کے لئے حکومت کی طرف سے ہمدردی اور تسلی کے دو لفظ بھی مہیا نہیں ہیں ۔

اصلی اور حقیقی لاک ڈاؤںن کے نام پر حکومتوں کی طرف سے کئے جانے والے سمارٹ لاک ڈاؤن والے مذاق کی وجہ سے کورونا وائرس کا شکار ہونے والوں کی تعداد میں اس یکایک تیزی اور طبی عملہ کی اس گوناگوں حالت زار کے باوجود بھی ابھی تک صورتحال قابو میں ہی ہے۔ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ اب اس وبا کے تھمنے کا وقت قریب ہے کیونکہ ایک خاص تعداد پر پہنچ کر کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد میں یکسانیت آتی ہے اور پھر اس میں کمی آنی شروع ہو جاتی ہے۔ دنیا بھر میں بہت سے ممالک اس فیز میں کامیابی سے داخل ہوچکےہیں اور کچھ اس کے قریب ہیں ۔ دوسری طرف کچھ ممالک میں یہ رجحان تیزی سے خطرناک حد تک اوپر جانے والا ہے۔ ابھی تک یہ کنفرم نہیں کہا جا سکتا کہ پاکستان میں یکایک آنے والی اس تیزی میں کب کمی ہو گی لیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہسپتالوں میں کورونا وائرس میں مبتلا سیریس مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جن میں پہلے سے کمزور مدافعت رکھنے والے ، بوڑھے اور مختلف بیماریوں میں مبتلا مریضوں کی تعداد نمایاں ہے۔ چونکہ وائرس ان کو سانس لینے میں رکاوٹ کا باعث بننے میں بہت کم وقت لیتا ہے اس لئے ٹائٹ آکسیجن ماسک کے ذریعے اُن کے جسم کی آکسیجن پوری کی جاتی ہے۔ اگر ایسے مریضوں کی حالت زیادہ خراب ہو تو انہیں بے ہوش کرکے یا پھر پہلے سے بے ہوش ہوئے مریضوں کو منہ کے ذریعے پھیپھڑوں تک ٹیوب ڈال کر مصنوعی سانس کی مشین پر منتقل کردیا جاتا ہے اور ساتھ میں بیماری کی نوعیت کے مطابق مختلف جان بچانے والی ادویات کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ ہمارے پاس ان مشینوں کی شدید کمی ہے اور عین ممکن ہے کہ جیسے جیسے یمارے یہاں مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جائے ہمارے یہاں بھی کورونا وائرس سے متاثر ہونے والا رجحان صورتحال میں بہتری لانے کی خبروں کی بجائے تیزی سے خطرناک حد تک اوپر جانے والےرجحان میں تبدیل ہو جائے۔ اس لئے تمام ہم وطنوں سے دست بدستہ گزارش ہے کہ کوئی بھی اس مرض کو کفار اور یہودیوں وغیرہ کی کوئی سازش یا جھوٹ سمجھنے کی غلطی نہ کرے ۔ اگر یہ وائرس انسانی لیبارٹری میں بھی بنایا گیا ہے اور سازش بھی ہے تو بھی ہمیں اس کا مقابلہ کرنا ہو گا نہ کہ سازش کہہ کر آنکھیں بند کرلینے سے یہ سازش ختم ہو جائے گی ۔ اگر اب تک صرف 20 ہزار سے زیادہ لوگ ہی کورونا وائرس سے متاثر ہیں اور دوسرے کروڑوں کی تعداد میں لوگ صحت مند اور محفوظ ھیں تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ اُن کی لاپرواہی کی سزا پہلے سے بیمار اور کمزور لوگوں کو ملے ۔ اب تک ہمارے یہاں کورونا وائرسکی وجہ سے صرف 20 کے نزدیک اموات ہی ہو رہی ہیں مگر کسی ہسپتال میں ہونے والی ان اموات کے بعد کا احوال وہاں کے ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف سے پوچھ لیجئے کہ اُن کے یہاں روزانہ 3/4 میتوں کو تابوت میں ڈلواتے وقت ان کا آخری دیدار صرف اُن ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف کو ہی نصیب ہوتا ہے۔ اُن کی فیملیز کو اپنے پیاروں کی موت کے بعد جب دیدار بھی نصیب نہ ہوتا ہو تو سوچ ہی بہت تکلیف دینے والی ہے ۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب دنیا میں کورونا وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے تو کچھ ممالک بشمول پاکستان میں ہلاکتوں کی تعداد میں اس قدر کمی کا واضح فرق کیوں دیکھا جا رہا ہے؟۔پاکستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ 20 ہزار سے زیادہ مریضوں میں سے 5,571 کیس ایسے ہیں جن کے نتائج آ چکے ہیں۔ ان میں 5,114 مریض صحت یاب ہو چکے ہیں جبکہ 457 اموات ہوئیں اور کورونا وائرس سے متاثرہ لوگوں میں اموات کا تناسب 2 فیصد سے کچھ زیادہ ہے۔ دیگر ممالک کے اعداد وشمار بتا رہے ہیں کہ اٹلی میں کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد جرمنی کے مقابلے میں دس گنا زیادہ ہے۔ اٹلی یورپ میں کورونا وائرس سے سب سے زیادہ بری طرح متاثر ہونے والا ملک ہے جہاں مارچ کے آخر تک ہلاک ہونے کا تناسب گیارہ فیصد تھا (اپریل میں اس میں واضح کمی آئی ہے) جبکہ جرمنی میں اسی کورونا وائرس سے ہونے والی اموات صرف ایک فیصد ہیں۔ چین میں ہلاکتوں کا تناسب چار فیصد اور اسرائیل میں یہ تناسب دنیا کے باقی تمام ملکوں میں سب سے کم صرف صفر اعشاریہ تین پانچ فیصد ہے۔ بظاہر یہ بات بہت حیران کن لگ رہی ہے کہ مختلف ملکوں میں مرنے والوں کی تعداد میں اس قدر فرق ہو سکتا ہے۔ جو فرق ہم دیکھ رہے ہیں وہ کئی عناصر کی وجہ سے ہے۔ غالباً اس کی سب سے بڑی مگر سادہ سی وجہ یہ ہے کہ ہم متاثرہ افراد کے کتنے ٹیسٹ کر رہے ہیں اور ان کا شمار کیسے کر رہے ہیں؟۔اب تک ہم پاکستان میں 203,025 ٹیسٹ کر چکے ہیں یعنی ہر 10 لاکھ لوگوں میں سے صرف 919 لوگوں کا ہی ٹیسٹ کیا ہے۔ان ٹیسٹوں سے یہ پتہ چلا ہے کہ پاکستان میں ہر دس لاکھ لوگوں میں سے جن 919 لوگوں کا ٹیسٹ ہوا ہے، اُن میں 91 لوگ یعنی تقریبا’’ 10 ٖفیصد لوگ کورونا وائرس سے متاثر ہیں۔

پاکستان میں صرف ان لوگوں کے ٹیسٹ کئے جا رہے ہیں جو اس قدر شدید بیمار ہیں کہ انہیں ہسپتال میں داخل کرنا پڑ رہا ہے اور وہاں نسبتاً کم بیمار یا اُن لوگوں کے ٹیسٹ نہیں کئے جا رہے جن میں مرض کی کوئی علامت ظاہر نہیں ہوئی۔ اگر ہمیں پاکستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے بارے میں درست اعداد و شمار نکالنے ہیں تو اس کے لئے ضروری ہے کہ صرف ان لوگوں کا ہی ٹیسٹ نہ کیا جائے جن میں بیماری کی علامات پائی جاتی ہیں بلکہ ان لوگوں کا بھی ٹیسٹ کیا جائے جن میں وائرس میں مبتلا ہونے کی کوئی علامت نہیں پائی جاتی۔ یہ اعداد و شمار حاصل ہونے کے بعد ہی پاکستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی پوری تصویر ابھر کر سامنے آ سکے گی کہ یہ عالمی وبا کس طرح صرف کورونا وائرس سے بیمار لوگوں کو ہی نہیں بلکہ مختلف آبادیوں کو بھی متاثر کر رہی ہے۔اب بات کو آگے بڑھائیں اور جانتے ہیں کہ اموات کی شرح کو دو طرح سے جانچا جا سکتا ہے۔ اوّل اُن لوگوں کی اموات جن میں کورونا وائرس کی موجودگی کے بارے میں علم ہو چکا ہے اور ان کا ٹیسٹ مثبت آ چکا ہے۔ اس کو کہتے ہیں ’کیس فٹیلٹی ریٹ‘ یا بیماری سے اموات کی شرح۔ دوسری قسم وہ ہوتی ہے جو وائرس میں مبتلا ہونے کے بعد ہوتی ہیں لیکن ان کے بارے میں معلوم نہیں ہوتا کہ مرنے والے اس بیماری مبتلا تھے اور یہ تعداد اندازے سے ہی لگائی جاتی ہے۔ اسے ’انفیکشن فیٹیلٹی ریٹ‘ کہتے ہیں۔ پاکستان میں چونکہ زیادہ تر لوگ آخری وقت تک ہسپتال جانے کی بجائے دیسی حکیموں اور روایتی ٹوٹکوں سے ہی علاج کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمارا ڈیٹا صرف اُن ہی لوگوں کے اعداد و شمار پر مشتمل ہو گا جو ہسپتالوں میں داخل ہوئے۔ یعنی ہمارے یہاں ’کیس فٹیلیٹی ریٹ‘ ہی موجود ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ کتنے لوگ کورونا وائرس سے ہی ہلاک ہوئے ہیں جبکہ اس کے مقابلہ میں گاؤں، دیہاتوں اور پہاڑی علاقوں میں ہونے والی اموات کے اعداد و شمار مہیا نہیں ہیں۔ اس لئے یہ پتہ چلانا مشکل ہے کہ درحقیقت کورونا وائرس سے مجموعی طور پر کتنے لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔

ان تمام باتوں کے باوجود بھی دستیاب اعداد و شمار پر یقین رکھتے ہوئے بلاشبہ یہ بہت اچھی خبر ہے کہ ہلاکت خیز کورونا وائرس اب تک پاکستان میں اتنا جان لیوا نہیں ہو سکا جتنا مہلک یہ امریکہ، سپین، اٹلی، فرانس، برطانیہ اور جرمنی وغیرہ میں ہوا اور اُن ممالک کے نظامِ صحت کو تہس نہس کر کے رکھ چکا ہے۔ بےشک انسانی جانوں کا ضیاع امریکہ اور یورپ میں بھی اُتنا ہی دردناک ہے جتنا ہمارے یہاں ہو سکتا ہے مگر یہ بھی انسانی فطرت ہے کہ انسان کو غم کی شدت کا کرب اپنے قریبی لوگوں کے لئے ہی زیادہ محسوس ہوتا ہے اور دوسروں کے لئے کم۔ خلیفہءدوئم حضرت عمرؓ کو عرب شاعری سے خصوصی لگاؤ تھا اور وہ اکثر بہت رغبت سے شاعری سماعت فرماتے تھے۔ جب انؓ کے بہت عزیز بھائی حضرت زیدؓ بن خطاب جنگِ یمامہ میں مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ میں دادِ شجاعت دیتے ھوئے شہید ہو گئے تو حضرت عمرؓ کو شدید صدمہ ہوا ۔ رشتہ ہی ایسا تھا، چھوٹے بھائی ویسے بھی بہت پیارے ہوتے ہیں۔ لہذٰا آپؓ کو زیدؓ کی شہادت بہت دکھی کر گئی۔ ایک دن مالکؓ بن نویرہ کا بھائی اظہارِ تعزیت کے لئے آیا۔ مالکؓ کی موت پر اس کے بھائی نے بھی ایک بہت دردناک مرثیہ تحریر کیا جو بہت مشہور ہوا۔ جس کا ایک شعر یہ تھا :

’’مالک کی موت کے بعد اب مجھے ہر قبر مالک کی قبر نظر آتی ہے‘‘۔

Advertisements
julia rana solicitors

دورانِ تعزیت مالکؓ بن نویرہ کے بھائی سے حضرت عمرؓ نے فرمائش کر کے یہی مرثیہ سنا اور پھر کہنے لگے کہ میرے بھائی زیدؓ کے لئے بھی ایک مرثیہ مجھے لکھ کر دو۔ مالک کا بھائی عوف بن نویرہ کچھ دن بعد جب حضرت عمرؓ کی فرمائش پر حضرت زیدؓ کے لئے مرثیہ لکھ کر لایا اور سنایا تو حضرت عمرؓ نے سن کر فرمایا ، تم نے زیدؓ پر اچھا مرثیہ لکھا ہے لیکن اس میں وہ درد اور سوز نہیں ہے جو مالک کے مرثیے میں محسوس ہوتاہے۔ مالک کا بھائی کہنے لگا، خلیفتہ المسلمیؓن، یاد کیجئے کہ زیدؓ آپ کا بھائی تھا میرا نہیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ہاں جو درد کسک، صدمہ اور رنج خون کے رشتہ اور قریبیوں پر پر ہوتا ہے وہ کسی دوسرے کو تو نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک فطری امر ہے۔ اسی طرح اگر مغربی ممالک میں ہونے والی اموات پر ہمیں اگر درد اور کرب کم محسوس ہوتا ہے تو یہ فطری ہے مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہاں کے انسانوں کی موت کا درد اُن کے پیاروں کے لئے ہمارے یہاں ہونے والی اموات سے اُن کے پیاروں سے کسی بھی طرح کم ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply