اسلام و علیکم، میری کرسمس اور ہیپی نیو ائیر

پچیس دسمبر کو میری کرسمس لکھا اور پوسٹ کر دیا ظاہر ہے میرے فارنر دوست تو اردو پڑھنے سے رہے سو یہ پوسٹ خالصتاّ فیس بکی مجاہدین کے لہو کو مزید تپانے جلانے اور گرمانے کے لیے لگائی گئی تھی جن کی معلومات کا واحد زریعہ اوریا صاحب کے کالم یا پھر نسیم حجازی کے ناول ہیں، مجاہدین جو غیر مسلم کو سلام کرنے کے بھی روادار نہیں، میرے میری کرسمس کہنے پر ایسے جھپٹے پلٹے اور پھر جھپٹے کہ الامان الحفیظ…

غیر مسلم کو کیا کہنا جائز اور کیا کہنا ناجائز ہے اپنی مختصر تحقیق اور محدود علم کے نتیجے میں بننے والے دونوں مؤقف آپ دوستوں کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں، آپ کے ذہن و دل کو جو بہتر لگے ویسا عمل کر لیں.
تو جناب عرض یہ ہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم پر دو زمانے گزرے ہیں چالیس سال بعث سے پہلے اور تئیس سال بعثت کے بعد، پھر یہ دیکھیں کہ اس تئیس سالہ دور نبوت کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ہجرت مدینہ منورہ سے پہلے اور ہجرت کے بعد. ان ادوار میں حالات و واقعات کے تبدیل ہوتے ہی احکامات بھی تبدیل ہو جاتے اور ان پر عمل درآمد کی نوعیت بھی، مثلاً مکی زندگی میں کسی بھی قسم کی جوابی کارروائی ممنوع تھی، ہر قسم کے ظلم و ستم سہنے کے باوجود ہاتھ باندھ دئیے گئے تھے، مشرکین مکہ کو ہر طرح کی آزادی حاصل تھی کہ وہ مسلمانوں سے جو چاہیں سلوک کریں، مگر ہجرت کے بعد یہ پابندی ہٹا دی گئی، کفار سے جنگیں بھی تب ہوئیں جب مسلط کی گئیں، مگر پھر باقاعدہ لڑائیاں بھی ہوئیں اور صلح نامے بھی تحریر ہوئے. پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ کفار نے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور قرآن نے کھلم کھلا جنگ کا اعلان کردیا اور حکم دیا کہ کافر جہاں نظر آئے مار دیا جائے. ایسا کیوں؟ کیونکہ اگر آپ کمزور ہیں اور تعداد میں کم ہیں تو طاقتور سے لڑنا خودکشی کے مترادف ہو گا لیکن جب آپ طاقت حاصل کر لیتے ہیں تو آپ غلبہ اسلام کے لیے قاصد بھیجتے ہیں اسلام قبول کرو یاپھر جذیہ دو وگرنہ جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ. یہ تو تھا سیدھا سیدھا اصول کہ دنیا طاقتور کی ہے..
اب آپ تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں کہ اسلام ایک مکمل دین ہے، دین کہتے ہیں معاشرتی زندگی گزارنے کے اصولوں کو، معاشرے میں رہنے کے لیے بہترین آداب کو، انگلش میں آپ اٹیکیٹس etiquettes کہتے ہیں. آپ غور کریں تو اسلام نام ہی ادب و آداب کا ہے، جب قرآن کہتا ہے کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی اسوۃ حسنہ ہے تو وہ آداب کی ہی بات کر رہا ہے. آداب طعام، آداب ملاقات، آداب مجلس، آداب لباس اور اٹھنے، بیٹھنے، لیٹنے، سونے یہاں تک کہ بیت الخلاء کے بھی آداب بیان کیے گئے ہیں. صاحبو دھیان سے سنو کہ میں نے اسلام کو آداب قرار دیا ہے، اللہ کا ادب یہ ہے کہ ہر وقت یہ احساس رہے میں اکیلا نہیں اللہ دیکھ رہا ہے، جیسے کہ مشہور زمانہ حدیث نماز ایسے پڑھو کہ تم اللہ کو دیکھ رہے ہو، یہ ممکن نہ ہو تو یوں سمجھو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے. اللہ کا ادب یہی ہے کہ بندہ ہر وقت حالت نماز میں رہے، وہ نیکی کرے یا گناہ کرے اس کے ذہن میں ہر وقت یہ الفاظ گونجتے رہیں اللہ دیکھ رہا ہے. کسی کو بھی اپنے کمتر نہ سمجھنا، اچھی بری تقدیر کو منجانب اللہ سمجھنا، اپنی تسلیم و رضا کو اللہ کی مرضی کے تابع کر دینا یہ اللہ کا ادب ہے. محمد رسول اللہ کا ادب یہ ہے کہ ہم انہی کے نقش قدم پر چلیں، رسول اللہ ملاقاتیوں کا بڑھ کر استقبال کرتے، مہمان نوازی کرتے، بیٹی ملنے آتی تو کھڑے ہو جاتے، اپنی چادر بچھا دیتے، کسی نے پوچھا اسلام کیا آپ نے فرمایا اللہ اور اس کے رسول ایمان لانا اور بھوکے کو کھانا کھلانا، ایک شخص نے کہا مجھے نصیحت کیجئے فرمایا اپنے بھائی کا ہنس کر استقبال کرو، نیز فرمایا کہ قیامت کے دن نامہ اعمال میں سب سے بھاری حسن اخلاق ہو گا، فرمایا کہ جو چیز میری امت کو سب سے زیادہ جنت میں داخل کرے گی وہ اللہ کا تقوی اور حسن اخلاق ہے.
یہ اخلاقیات کا درس ہے جو ادب سکھاتا ہے، جس معاشرے کی اخلاقیات خراب ہو جائیں وہاں ادب خود بخود مر جاتا ہے، آپ اردو شاعری کی مثال لیجیے امیر خسرو، میر تقی میر اور نظیر اکبر آبادی سے شروع ہونے والا سفر غالب، زوق، مومن کے زمانے میں اپنے عروج پر پہنچا اس سفر نے ہمیں اقبال اور حالی جیسے ہیرے دئیے لیکن پھر پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی آندھی آئی، برصغیر کی تقسیم ہوئی اور معاشرے سے اخلاقی اقدار آہستہ آہستہ ختم ہوتی گئیں، اردو زبان کے آخری استاد شاعر قمر جلالوی تھے پھر فیض، فراز، محسن اور منیر نیازی سے کام چلایا گیا، اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ وصی شاہ جیسوں کو شاعر کہا جاتا ہے اور وہ بھی شاعری چھوڑ، چار بھانڈوں میں بیٹھا اینکری کر رہا ہے کہ روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر…
پچھلے پچاس سال میں جہاں اخلاقی اور ادبی گراوٹ تھی وہیں عوام کا شعور بھی گرتا گیا، کیونکہ ادیب ہی وہ لوگ ہیں جو عوام کو معاشرے کی بگڑی شکل دکھاتے ہیں ادیب نہ ہوں معاشرے ننگے ہو جاتے ہیں، منٹو گواہ ہے. جب شعور ناپید ہوا تو ہمارا معاشرہ بھی ہیجان کا شکار ہو گیا، بنیاد پرستی اور شدت پسندی نے جڑیں مضبوط کیں اور سب لوگ آپس میں ہی دست و گریباں ہو گئے. لمبی تمہیدی تقریر کے بعد آئیے موضوع سے انصاف کی کوشش کرتے ہیں کہ اس مسئلے کا ہمیں ہر مہینے سامنا کرنا پڑتا ہے ہر مہینے ہی کوئی نہ کوئی تہوار آتا رہتا ہے، دیوالی، ہولی، دسہرا، ایسٹر، ہیلووین، کرسمس وغیرہ وغیرہ
کیا کسی کافر کو سلام کیا جا سکتا ہے؟ ہم اس سوال کا جواب ڈھونڈ لیں تو باقی سوال آسانی سے حل ہو جائیں گے. کافر کو سلام کے بارے میں علماء کرام کی مختلف رائے ہیں اور ان مختلف آراء کی ٹھوس وجوہات ہیں. جواز اور عدم جواز دونوں کے دلائل پیش کر دیتا ہوں، آپ کے ذہن و دل میں جو بات سمائے وہ مان لیں.

*کافر کو سلام کرنے اور جواب دینے کی ممانعت
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:” انہیں ( یعنی یہود ونصاریٰ کو ) سلام کرنے میں پہل نہ کرو، اور جب تم انہیں راستے میں ملو تو انہیں تنگ راستہ پر چلنے پر مجبور کرو”، ابو داؤد (یعنی ان پر اپنا دباؤ ڈالے رکھو وہ کونے کنارے سے ہو کر چلیں)۔ صحیح مسلم اور مسند احمد میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’تم یہود ونصاریٰ کو سلام کی ابتدا نہ کرو۔‘‘ اسی طرح بخاری و مسلم کی ایک روایت ہے کہ جب اہل کتاب تمہیں سلام کریں تو جواب میں صرف وعلیکم کہا کرو. کیونکہ کفار السام و علیکم کہتے اور السام کا مطلب موت ہے.
قرآن نے اسی بات کو یوں بیان کیا “اور جب آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ کو ایسے طریقے سے سلام کہتے ہیں جس طرح اللہ نے آپ کو سلام نہیں کہا، اور اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ “جو کچھ ہم کہتے ہیں اس پر اللہ ہمیں سزا کیوں نہیں دیتا” المجادلہ-8

*کافر کو سلام کرنے کی اجازت اور تاکید
دیکھیں کہ اللہ نے قرآن میں حکم دیا کہ جب کوئی شخص تمہیں سلام کہے تو تم اس سے بہتر اس کے سلام کا جواب دو یا کم از کم وہی کلمہ کہہ دو. النساء-86. پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد صاحب سے کہا کہ تیری سلامتی رہے اب میں اپنے رب سے تیری بخشش کی دعا کروں گا بے شک وہ مجھ پر بڑا مہربان ہے، سورۃ مریم-47. اللہ مومنین کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اور رحمنٰ کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر دبے پاؤں چلتے ہیں اور جب ان سے جاہل لوگ بات کریں تو کہتے ہیں سلام ہے، سورۃ الفرقان-63.

Advertisements
julia rana solicitors london

حاصل کلام : دیکھیں کہ صرف وعلیکم کہنے کا حکم اس لیے دیا گیا کیونکہ وہ لوگ السام کہتے تھے، اصول یہ ہے کہ علت ختم ہو جائے تو حکم نہیں لگایا جاسکتا لہٰذا سلام کا بہتر جواب دیا جائے گا علامہ ابن القیم الجوزی نے اسی کو اختیار کیا ہے، رہی بات بخاری کی حدیث جس میں اہل کتاب کا راستہ تنگ کرنے کا حکم ہے تو وہ وقت اور حالات پر محمول ہے آج کے دور پر وہ حدیث منطبق نہیں ہوتی سو میری زاتی رائے یہی ہے کہ سلام کیا بھی جا سکتا ہے، جواب بھی دیا سکتا ہے اور مختلف قسم کی greetings بھی دی جا سکتی ہیں.
دوسری بات یہ کہ پتا نہیں کسی نے کہہ دیا کہ میری کرسمس کا مطلب اللہ نے بیٹا جنا ہے جبکہ میری کا مطلب خوشی، کرسٹ کا مطلب حضرت مسیح علیہ السلام اور ماس کا مطلب مبعوث ہونا یا پیدا ہونے کے ہیں. کوئی بھی مولوی دنیا کی کسی بھی کتاب سے میری کرسمس کا وہ مطلب ثابت نہیں کر سکتا!
اسلام تو میانہ روی اور روا داری کا دین تھا، اسلام نے تو اہل کتاب سے شادی کو بھی جائز قرار دیا، ان کے کھانے کو بھی حلال قرار دیا مگر ہم تنگ نظری اور دقیانوسیت کا شکار ہیں، رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے تو دیکھا کہ یہودی دس محرم الحرام کا روزہ رکھتے ہیں، آپ نے فرمایا کہ حضرت موسٰی علیہ السلام پر ہمارا حق زیادہ ہے اور آپ نے اس روزے کو پسند فرمایا اور ساتھ ایک روزہ مزید جوڑ دیا تاکہ علامتی مخالفت بھی ہو جائے..
حضرت عیسٰی علیہ السلام پر عیسائیوں سے زیادہ ہمارا حق ہے، جب ہم حضرت محمد صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیدائش پر خوش ہوتے ہیں تو حضرت عیسٰی علیہ السلام کی پیدائش پر بھی خوش ہونا چاہیے، قرآن کہتا ہے لا نفرق بین احد منکم….
کوئی عیسٰی ابن مریم کو خدا سمجھتا ہے تو سمجھتا رہے، آپ انہیں عیسٰی ابن مریم سمجھ کر مبارکباد دیں، ہم تو اپنی نیت جانتے ہیں نا، مشہور زمانہ حدیث عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے، دیکھیں کہ بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا حطۃ حطۃ کہنا ان کی نیت خراب تھی، منافقین رسول اللہ کو راعنا کی بجائے راعینا کہتے… اللہ پاک ان نیتوں کو جانتا تھا، اللہ نے ان کی نیتیں ظاہر کر دیں. مسلمانوں کے تہواروں پر غیر مسلم بھی مبارکباد دیتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا ہے بلکہ وہ بتانا چاہتے ہیں کہ وہ روادار، صبر و تحمل والے ، برداشت والے اور وضع دار ہیں، آپ کو کیا تکلیف ہے. آپ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی معجزانہ پیدائش پر مبارکباد پیش کریں، زیادہ تکلیف ہو تو ہیپی برتھ ڈے ٹو حضرت عیسٰی علیہ السلام کہہ لیا کریں…
اسی طرح ہیپی نیو ائیر کہنے میں بھی کفار سے کوئی مشابہت نہیں نہ ہی سورج کرسچن ہے، بقول قاری حنیف ڈار اسلامی کلینڈر کو ختنہ کرکے مسلمان نہیں کیا گیا یہودی ڈھائی ہزار سال سے قمری کلینڈر استعمال کر رہے ہیں..

Facebook Comments

قمر نقیب خان
واجبی تعلیم کے بعد بقدر زیست رزق حلال کی تلاش میں نگری نگری پھرا مسافر..!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply