دو کونے اور بے یقینی۔ہمایوں اسحاق

اُس نے آنکھ کھولی تو دیوار پہ ٹنگی گھڑی پہ دس بج کر گیارہ منٹ ہوئے تھے۔۔ ـ تکیے کے ساتھ پڑا موبائل اٹھایا تو گیارہ بجنے میں دس منٹ باقی تھے ـ اور دو دوستوں کے دو پیغامات موصول ہوئے ـ ۔۔
ایک نے لکھا تھا میں ہمیشہ کے لیے گاؤں چھوڑ کر جا رہا ہوں ،ـ دوسرے نے لکھا تھا آج موسم بہت خوشگوار ہے، شام میں کہیں بیٹھتے ہیں چائے پیئں گے اور گپ شپ ہوگی ــ اس نے دونوں کو نظرانداز کیا ، بستر چھوڑا ، منہ ہاتھ دھویا اور ٹی وی آن کیا ۔۔
ـ ایک چینل پہ مارننگ شو چل رہا تھا ڈاکٹر صاحب ( جو ماہرِ امراضِ جلد تھے ) جلد کی مختلف بیماریوں اور ان کے علاج پہ گفتگو فرما رہے تھے چینل بدلا تو دوسرے مارننگ شو میں ماہرِ نفسیات بیٹھے تھے، ــ ٹی وی بند کیا ، ناشتہ کیا اور روزمرہ کے کاموں میں کھو گیا، ـ اب شام ہونے کو تھی ،اس نے سوچا مارکیٹ سے ہو آتے ہیں ۔۔
جاتے ہی سگریٹ لینے کا خیال آیا ،دکان میں چار پانچ لوگ بیٹھے سیاسی و ملکی صورتحال پہ بحث کر رہے تھے۔ این اے ایک سو بیس ، اقوامِ متحدہ ، مستقل مندوب ، ایٹمی فُضلہ ، کشمیر وغیرہ وغیرہ۔۔۔
ـ اس نے جوں ہی اپنے مخصوص برانڈ کا نام لیتے ہوئے سگریٹ طلب کیے ـ ،دکاندار نے اِس سوال کے ساتھ کہ کون سے؟ دو پیکٹ آگے کر دیے ۔۔ایک میں اُس برانڈ کے سلِم سگریٹ تھے دوسرے میں کِنگ سائز ۔
ایک صاحب جو اپنے دوسرے دانشور ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے تھے گویا ہوئے ـ سگریٹ سے یاد آیا یہ جو لڑکی ہے ،کیا ـــــ نام ہے اس کا۔۔ ـــــ دیکھو تو قوم کی کتنی بدنامی کروائی ہے، ـ جھٹ سے کونے والی کرسی پہ دیر سے خاموش بیٹھے صاحب بول پڑے ۔۔ـ
ارے قوم کی تو کیا کہیے ـ جب ایک لڑکی نے نوبیل اور دوسری نے آسکر پایا تھا قوم تو تب بھی بدنامی ہی محسوس کر رہی تھی ،ــ خیر ـــــــــــ وہ دونوں کی باتیں سنتے ہوئے دونوں پیکٹس کو ٹٹول رہا تھا کہ کون سے لیے جائیں، ـ بالآ خر وہ دونوں کو چھوڑتے ہوئے دکان سے باہر نکل آیا۔۔
ــ گھر پہنچا تو رات ہو چکی تھی کچھ وقت اٹھتے بیٹھتے گزارا ، کھانا کھایا اور صحن میں ٹہلنے نکل گیا، ـ وہاں اس کے دو چھوٹے بہن بھائی ستاروں کے بارے گفتگو میں مصروف تھے ـ،
بھائی۔ آسماں کی جانب انگلی اٹھاتے ہوئے وہ دیکھو وہ جو ستارہ ہے نا وہ ہماری زمین سے کئی گُنا بڑا ہو گا ،
ـ بہن ہنستے ہوئے، بھیا کتنا جھوٹ بولتے ہو وہ سامنے تو دکھائی دے رہا ہے ،بالکل چھوٹا سا اور آپ کہتے ہو زمین سے بڑا ہے۔۔
ـ وہ کسی بحث میں الجھے بنا کمرے میں آ گیا۔۔۔ ـ طبعیت میں بوجھل پن محسوس ہو رہا تھا ۔۔
اُس نے سوچا کیوں نا اچھی سی موسیقی سنی جائے۔۔۔ اس کے ذہن میں دو نام گھومنے لگے، بیگم اختر اور بڑے غلام علی خاں۔۔
پھر اس نے بیگم کی اُس غزل کا مزہ لیا جس میں بڑے غلام علی خاں نے سارنگی بجائی ہے۔۔۔ ـ طبیعت کچھ بحال ہوئی تو اُس نے فیسبُک پہ نگاہ کی،
ایک افسانہ نظر آیا جس کے مصنف کا نام درج نہیں تھا، ـ اس نے سونے سے پہلے افسانہ پڑھنے کو ترجیح دی ،ــ افسانے کا ایک کردار دوسرے کردار کو بار بار یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ مثلث کے دو کونے ہوتے ہیں ۔۔۔
ـ اس نے افسانہ ختم کیا اور مصنف کے بارے سوچنے لگا۔۔۔ ـ اتنا عجیب کردار اور افسانہ۔۔۔۔۔۔اووووں ۔۔چیخوف ۔۔نہیں نہیں مارکیز کا بھی نہیں، موپساں ۔۔ہاااں۔۔ کافکا ارے نہیں ۔۔۔۔ بالآخر وہ مثلث کے دوکونوں کی بے یقینی اور مصنف کی الجھن کے ساتھ ہی سو گیا! ـ

Facebook Comments

ہمایوں اسحاق
افسانہِ کائنات کا ایک خاموش کردار جو کھی " چیخ " اُٹھے گا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply