سندیپ ماہیشوری اوریوتھ کا کریز۔۔جنید علی

ہال کھچا کھچ نوجوانوں سے بھرا ہوا تھا۔ لوگ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ سب کے چہرے خوشی سے تمتما رہے تھے اور وہ سب پرجوش نظر آرہے تھے سب کی آنکھوں میں ایک خاص چمک تھی جن میں کچھ کر دکھانے کا جذبہ نمایاں تھا اور مستقبل کی روشن امید ان کی آنکھوں میں صاف طور پر جھلک رہی تھی۔پر ساتھ ہی چہروں پر بے چینی بھی نمایاں تھی جیسے کسی کے آنے کا شدت سے انتظار کیا جارہا ہو۔ اور یہ بے چینی وہاں نہ ہو کر بھی میں محسوس کرسکتا تھا۔ ایسا تو پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔
پھریکایک مانوزندگی تھم سی گئی۔ ایک خوبصورت نوجوان ہال میں داخل ہوا جس نے جینز کی پینٹ اور دھاری دار ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ کہنے کو لباس عام سا تھا پر اس پر جچ رہا تھا اس کی شخصیت سحر انگیز تھی۔ ہال میں داخلے کے ساتھ ہی اس نے بلند آواز میں ایک عام سا جملہ بلند آواز میں کہا تھا ”آسان ہے“ اس پر یوتھ نے بھی بھرپور جذبے کے ساتھ جواب دیا تھا ”آسان ہے“ جیسے یہ اس شخص اور نوجوانوں کا آپسی کورڈ ورڈ ہو۔ یوتھ کا اس قدر والہانہ جواب دینا قابل تعریف تھا۔ اس نوجوان کا لہجہ متاثر کن تھا۔ بولنے کا انداز دوستانہ اور الفاظ دانش سے لبریر تھے۔اسی کے ساتھ سیمینار شروع ہوچکا تھا۔ اور وہ اپنے الفاظ و لہجے سے سب کو اپنی جانب مائل کر چکا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وقت پر لگا کر اڑ گیا اور سیمینار ختم ہوگیا تھا۔

اس سحر انگیز شخصیت کو دیکھ کر تجسس بڑھا کہ معلوم کیا جاۓ کہ یہ صاحب کون ہیں۔ پتہ کرنے پر معلوم ہوا یہ شخص سندیپ ماہیشوری ہے جو نوجوانوں میں خاصا مقبول ہے اور یوتھ میں اہم مقام رکھتا ہے۔ اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یوٹیوب پر اس کے 14.5 ملین سبسکرائیبرز ہیں۔ سندیپ ماہیشوری کے موضوع ” تم کرسکتے ہو، کچھ بڑا سوچو“ کے گرد گھومتےہیں۔ سندیپ سے متعلق یہ جان کی حیرانی ہوئی کہ موصوف اپنے سیمینار کی کوئی  فیس نہیں لیتے اور زیادہ حیرانی تب ہوئی جب معلوم ہوا کہ جناب یوٹیوب پر نوجوانوں کے لیے اپلوڈ کی گئی  ویڈیو سے بھی کوئی پیسہ نہیں کماتے۔ ذرا سوچیےایسا پلیٹ فارم جہاں لوگ چینل ہی اس نیت سے بناتے ہیں کہ پیسہ کما سکیں اور وہاں یہ محترم خدمت خلق کر رہے ہیں۔ اوروہ بھی ملینز سبسکرائبرز کے ساتھ۔ سندیپ کا جذبہ قابل ستائش ہے۔ اس حاتم طائی کو دیکھ کر آدام زاد ہونے کی ناطے تجسس بڑھ چکا تھا کہ پھر یہ اپنے اخراجات کہاں سے پورے کرتے ہیں ۔گوگل پر تحقیق کی تو پتہ چلا کہ سندیپ ماہیشوری فوٹو گرافر، انٹرپرینیور اور پبلک اسپیکر ہیں۔ ان کا اپنا فوٹوگرافی کا کاروبار ہے جہاں سے وہ ٹھیک ٹھاک کما لیتے ہیں۔ اگرچہ اپنے کرئیر کا آغاز انھوں نے ماڈلنگ سے کیا پر جلد ہی اس سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔ ابتدا میں انھیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور کاروبار میں نقصان بھی اٹھانا پڑا، انھوں نے اپنا اسٹوڈیو بھا قائم کیا تھا۔ پر مقبولیت فوٹوگرافی سے ملی۔ جو آج بھی جاری ہے۔

نوجوان سندیپ کے لیے دیوانے ہیں اس کے ایک سیمینار میں شرکت کے لیے دور دراز سے آتے ہیں اور اس میں اکثریت مڈل کلاس نوجوانوں کی ہوتی ہے اور وہ امیر اور غریب کے فرق سے بالا تر اپنے ملک کی تمام یوتھ کا آئیکون ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جب میں نے اس شخص کو دیکھا جو آج کامیابی کی بلندی پر ہے۔ اسے بھلا کیا ضرورت کہ وہ یہ سب کرتا پھرے۔ پر اس کا جواب بھی خود ہی مل گیا کہ خدمت خلق میں ہی اصل خوشی کا راز اور سکون پوشیدہ ہے اور دل تب مطمئن ہوتا ہے جب ہم اپنے وقت کو دوسروں کی مدد کرنے میں اور انھیں آسانیاں پیدا کرنے میں صرف کرتے ہیں۔ جب مقصد بڑا اور معاملہ ملک کی نوجوان قیادت کا ہو تو ذمہ داری بڑھ جاتی ہے اور وہ شخص یہی کچھ کر رہا ہے وہ مایوس نوجوانوں میں امید کی کرن جلا رہا ہے منزل سے بھٹکی ہوئی یوتھ کو راستہ دکھا رہا ہے اور بدلے میں کچھ بھی نہیں لیتا بس اپنے ملک کی یوتھ کو کامیابی کی ڈگر پر گامزن کرنا اس کا نصب العین ہے۔ اتنا سب جان کر میں دوبارہ پھر تخیلاتی طور پر اسی ہال میں پہنچ چکا تھا اور اب یوتھ کا اس کے لیے کریز بہت معنی خیز لگا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply