مدینہ کی مسجدِ نبوی: مٹی کے کمرے سے دنیا کی دوسری بڑی مسجد تک

سعودی عرب کے شہر مدینہ میں واقع مسجدِ نبوی دنیا میں مسلمانوں کا دوسرا مقدس ترین مقام ہے اور اسے پیغمبرِ اسلام کی زندگی میں ان کے ہیڈکوارٹر کی حیثیت حاصل تھی۔

اسلامی روایات کے مطابق مسجد نبوی میں ادا کی گئی نماز کا ثواب مکہ میں خانہ کعبہ والی مسجد الحرام کے علاوہ کسی بھی دیگر مسجد میں ادا کی گئی نماز کے مقابلے میں ہزار گنا زیادہ ہے۔

پیغمبرِ اسلام نے یہ مسجد مکہ سے اُس وقت یثرب کہلائے جانے والے شہر مدینہ ہجرت کرنے کے بعد تعمیر کروائی اور مسجدِ قبا کے بعد مدینہ میں تعمیر کی جانے والی یہ دوسری مسجد تھی۔

اسلامی روایات کے مطابق اسی مسجد میں وہ مقام بھی واقع ہے جسے ’ریاض الجنہ‘ یا جنت کے باغوں میں سے ایک باغ کہا جاتا ہے۔ صحیح بخاری میں ابو ہریرہ سے منسوب ایک حدیث کے مطابق پیغمبر اسلام نے کہا تھا کہ ‘میرے گھر اور مسجد نبوی کے منبر کے درمیان ایک جگہ جنت کے باغ کا ٹکڑا ہے۔

1400 برس سے زیادہ قدیم مسجد آج وسعت پاتے پاتے قدیم مدینہ شہر کی حدود سے باہر تک پھیل گئی ہے اور وہ سارا علاقہ جو اسلام کے ابتدائی دور کا شاہد ہے اب اس کا حصہ بن چکا ہے۔

اس علاقے میں اسلام کے ابتدائی دور کی ہزاروں نشانیاں موجود تھیں جیسے کہ روضۂ رسول جہاں دو صحابہ ابوبکر اور عمر بھی دفن ہیں، پیغمبر اسلام کی اہلیہ حضرت عائشہ کا حجرہ، پیغمبرِ اسلام کی دیگر بیویوں کے مکانات، گذشتہ صدیوں میں مسجد کو دی جانے والی وسعت کے نتیجے میں اب اس کے اندر آ گئے ہیں۔

1441 برس قبل یہ مسجد پیغمبر اسلام کے گھر سے متصل جگہ پر 632 عیسوی میں تعمیر کی گئی تھی اور آنے والی صدیوں میں کئی مرتبہ اس کو وسعت دی جاتی رہی۔

سلطان غالب القعیطی نے مسلمانوں کے مقدس شہروں، حج اور دنیائے اسلام کے بارے میں اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ 1909 میں جزیرہ نما عرب میں مسجد نبوی وہ واحد عمارت تھی جہاں روشنی کے لیے بجلی کا استعمال کیا جاتا تھا۔

سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیر کے دور میں اس کو وسیع کرنے کا سب سے بڑا منصوبہ شروع کیا گیا جو اب بھی تکمیل کے مراحل میں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس منصونے کی تکمیل کے بعد ہر برس کروڑوں عقیدت مندوں کی منزل بننے والی اس مسجد میں ایک وقت میں 18 لاکھ افراد کے نماز پڑھنے کی گنجائش ہو گی۔

گنجائش

عصر حاضر کی اسلامی فکر کے ایک ماہنامہ رسالے میں مسجد نبوی کی تاریخ اور گنبد خضریٰ کے عنوان سےشائع ہونے والے ایک مضمون میں ظفر بنگش لکھتے ہیں کہ ابتدا میں مسجد نبوی کا رقبہ صرف 98 ضرب 115 فٹ تھا۔

تاہم آنے والے ادوار میں مسجد کو کئی مرتبہ وسعت دی گئی تاکہ دنیا بھر سے آنے والے لوگوں،خاص طور پر حجاج کرام کے لیے ایک وقت میں نماز ادا کرنے کی زیادہ سے زیادہ گنجائش پیدا کی جا سکے۔ خیال رہے کہ یہ مسجد مسلمانوں کے ان تین مقدس ترین مقامات میں ایک ہے جہاں ثواب حاصل کرنے کی غرض سے طویل سفر کی اجازت ہے۔

ڈاکٹر شفیق عمر نے اپنے ایک تحقیقی مقالے میں تحریر کیا ہے کہ اپنے ابتدائی رقبے کے لحاظ سے یہ مسجد اب سو گنا بڑی ہے اور تقریباً پورے قدیم شہر پر پھیلی ہوئی ہے۔

پروفیسر صاحب نے بیان کیا ہے کہ مسجد کی بیرونی دیوار اب جنت البقیع کے قبرستان سے مل گئی ہے جو پیغمبرِ اسلام کی زندگی میں شہر کے مضافات میں تھا اور انھوں نے اس بارے میں ڈاکٹر محمد واجد اختر کی کتاب ‘نو حقائق جو آپ مسجدِ نبوی کے بارے میں نہیں جانتے’ کا حوالہ دیا ہے۔

مسجد کو وسعت دینے کا حالیہ منصوبہ جو شاہ عبداللہ نے 2012 شروع کروایا تھا پایہ تکمیل تک پہنچنے پر 18 لاکھ افراد کے لیے اس مسجد میں بیک وقت نماز ادا کرنے کی گنجائش فراہم کر دے گا۔

سعودی عرب کے وزیر خزانہ ابراھیم العساف کا کہنا ہے کہ مسجد کے مرکزی حصے کی عمارت چھ لاکھ چودہ ہزار آٹھ سو مربع میٹر پر مشتمل ہو گی جبکہ مسجد اور اس کے صحنوں کا مجموعی رقبہ دس لاکھ بیس ہزار پانچ سو مربع میٹر پر محیط ہو گا جس کے بعد دس لاکھ افراد مسجد کی مرکزی عمارت اور آٹھ لاکھ اس کے بیرونی صحن میں بیک وقت میں نماز ادا کر سکیں گے۔

عرب نیوز نے مسجد کے ترجمان شیخ عبدالواحد الحطاب کے حوالے سے اطلاع دی تھی کہ شاہ عبداللہ نے مسجد کے اندر خصوصی طور تیار کی گئی 250 چھتریاں لگانے کا حکم دیا تھا جو ایک لاکھ 34 ہزار مربع میٹر علاقے کو سایہ فراہم کریں گی۔ یہ خودکار چھتریاں دوہری تہہ والی ہوں گی تاکہ نمازیوں کو بارش اور صحرائے عرب کی چلچلاتی دھوپ سے مکمل طور پر محفوظ رکھا جائے۔

مسجد کو وسعت دینے کے منصوبے کے دوسرے اور تیسرے مرحلے میں دس لاکھ نمازیوں کی گنجائش فراہم کر دی جائے گی جبکہ پہلے مرحلے میں آٹھ لاکھ افراد کی جگہ بنائی جائے گی۔

مسجد کے گرد و نواح اور انتظام

جنت البقیع کا تاریخی قبرستان جو اب مسجد کی مغربی دیوار کے باہر ہے ان چند عمارتوں اور جگہوں میں شامل ہیں جو مسجد کے چاروں اطراف موجود ہیں۔ یہ قبرستان بھی مسلمانوں کے لیے اہم ہے کیونکہ یہاں پیغمبرِ اسلام کی اہلیہ، بیٹی اور دیگر رشتہ داروں کی قبور ہیں۔

مسجد کے احاطے کے گرد جو دیگر عمارتیں اور جگہیں ہیں ان میں سعودی حکومت کے ادارے، ہسپتال، شاپنگ مال، پرتعیش ہوٹل اور بڑی شاہراہیں شامل ہیں۔

مدینہ کی مسجد نبوی اور مکہ کی مسجد الحرام دونوں کا انتظام ایک خصوصی ادارہ چلاتا ہے جبکہ مسجد کی نگرانی کی ذمہ داری سعودی شاہی خاندان کی ہے اور سعودی بادشاہ خود کو خادم الحرمین شریفین کہلاتے ہیں۔

امامت

پیغمبرِ اسلام وہ پہلی شخصیت تھے جنھوں نے اس مسجد میں نماز کی امامت کی۔ ان کے وصال کے بعد ان کے ساتھی صحابہ یہ عمل سرانجام دیتے رہے۔

شیخ علی بن عبد الرحمان الحذيفي اس وقت مسجدِ نبوی کے مرکزی امام ہیں تاہم 11 اکتوبر 2019 کو سعودی حکومت نے مزید دو مستقل اماموں کی تعیناتی کی ہے جن میں موجودہ امام کے بیٹے شیخ احمد حذیفی کے علاوہ شیخ خالد المہانہ شامل ہیں۔

ان کے علاوہ دیگر امام بھی موجود ہیں جو خصوصاً تہجد کی نماز کی امامت کرتے ہیں۔

مؤذّن

المبارکپوری کے مطابق پیغمبر اسلام نے اپنے صحابی حضرت بلال بن رباح کو مسجدِ نبوی کا پہلا مؤذّن مقرر کیا تھا۔

روایت کے مطابق جب صحابی رسول عبداللہ بن زید نے پیغمبرِ اسلام کو اذان کے بارے میں اپنے خواب سے آگاہ کیا تو انھوں نے ان سے کہا وہ بلال کی تربیت کریں کیونکہ ان کی آواز بلند ہے اور وہ لوگوں کو نماز کے لیے بلاوا دیں گے۔

سعودی اخبار الریاض کے مطابق چیف مؤذّن شیخ عبدالرحمان خشوقجی کا کہنا ہے کہ آج کل مسجدِ نبوی میں مؤذّنوں کی تعداد 17 ہے جو روزانہ پانچ وقت اذان دیتے ہیں۔

ہر روز ان میں سے تین مؤذّن پانچ وقت مکبریہ سے اذان دیتے ہیں اور نماز کے دوران امام کی آواز نمازیوں تک واضح طور پر پہنچانے کے لیے دہراتے ہیں۔

ابتدا

المبارکپوری کے مطابق پیغمبر اسلام نے مدینہ پہنچنے پر یہ زمین دس دینار میں دو یتیموں ساحل اور سہیل سے خریدی تھی۔ اس سے قبل یہ زمین کھجوریں سکھانے کے لیے استعمال ہوتی تھی۔

پیغمبرِ اسلام نے خود اس مسجد کی تعمیر میں شرکت کی تھی۔ تعمیر کے لیے پتھر کی بنیادوں کا استعمال کیا گیا اور مٹی کی دیواریں بنائی گئیں۔ کھجور کے درختوں کے تنے اور شاخیں چھت کے لیے استعمال کی گئیں۔

اس وقت مسجد کے تین دروازے تھے اور اس کا رخ مسجدِ الاقصیٰ کی جانب تھا جو کہ اس وقت کا قبلہ تھا۔ اس میں غریبوں اور مسافروں کو پناہ دینے کے لیے ایک سایہ دار حصہ بھی بنایا گیا تھا۔

بعد میں قبلے کا رخ تبدیل کر کے کعبے کی جانب کر دیا گیا تھا اور ایک دروازے کو بند کر کے دوسری سمت میں ایک اور دروازہ بنا دیا گیا تھا۔ .

جب صحابہ نے پیغمبرِ اسلام کو تجویز دی کہ چھت کو گارے سے پختہ کر دیا جائے، تو انھوں نے انکار کرتے ہوئے کہا: ’نہیں، یہ چھت عریشِ موسیٰ کی طرح رہے گی، موسیٰ کی چھپر نما چھت کی طرح۔‘ اس کے تین سال بعد تک فرش کو کسی چیز سے ڈھکا نہیں گیا تھا۔

مسجد کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مسجد کا ابتدائی رقبہ 1050 مربع میٹر تھا اور ہجرت کے سات سال بعد پیغمبرِ اسلام کی ہدایت پر اسے بڑھا کر 1425 مربع میٹر کر دیا گیا تھا۔

پیغمبرِ اسلام کے گھر

پیغمبرِ اسلام کا مکان مسجد کے بالکل ساتھ بنایا گیا اور وہاں ہی ان کا انتقال ہوا اور وہیں ان کی اہلیہ حضرت عائشہ کے حجرے میں انھیں سپرِ خاک کیا گیا۔

ڈاکٹر زریوا کہتے ہیں کہ جب پیغمبرِ اسلام کی وفات ہوئی اور ان کے ساتھی ان کی تدفین کے لیے بہترین مقام کا انتخاب کر رہے تھے تو حضرت ابوبکر نے انھیں بتایا کہ پیغمبرِ اسلام کہہ چکے تھے کہ نبیوں کو وہیں دفنایا جاتا ہے جہاں اللہ ان کی روح نکالتا ہے۔

جب خلیفۂ اول بیمار ہوئے تو انھوں نے اپنی بیٹی سے اجازت مانگی کہ کیا وہ ان کے حجرے میں پیغمبرِ اسلام کے قریب دفن ہو سکتے ہیں جس پر حضرت عائشہ نے رضامندی ظاہر کر دی۔

خلیفۂ دوم عمر بن خطاب نے بھی ایسا ہی کیا اور انھیں بھی پیغمبرِ اسلام اور پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر کے قریب دفن ہونے کی اجازت مل گئی۔

تاہم کئی صدیوں میں مسجد کے پھیلاؤ کی وجہ سے قبروں والا یہ حجرہ مسجد کے اندر آ گیا ہے۔ مسجدِ نبوی کا معروف سبز گنبد اس حجرے کے اوپر ہی بنایا گیا ہے۔

مسجد کی خوبصورتی

شاندار طرزِ تعمیر اور جدید ترین ٹیکنالوجی سے بنائی گئی اس عمارت کی ہر چیز انتہائی خوبصورت ہے اور مبالغہ آرائی کے بغیر بھی کہیں تو یہ عمارت دور سے بھی بہت زیادہ دلکش ہے۔

اس مسجد میں اندر سے لے کر باہر تک اس کی ٹیکنالوجی، طرزِ تعمیر، اس کی مینجمنٹ، اس کے وسائل کے استعمال ہر طرح سے حسن چھلکتا ہے۔

اپنے احاطوں سے اس کے صحن تک اور دیدہ زیب زر و جواہرات سے مزین چھتوں تک، اس کے حجم اور اس کے بلندی سے لے کر اس کے گنبدوں اور میناروں تک، اس کے صحنوں اور اس کی چھتریوں سے لے کر اس کی چھت تک، اس کی روشنیوں اور ساؤنڈ سسٹم سے لے کر اس کی ٹھنڈک اور اس کی راحت تک، اس کی دیواروں اور اس کے فرش سے لے کر اس کے دروازوں اور سیڑھیوں تک، یہاں تک کہ اس کے ستونوں اور غالیچوں کی آرائش کو بھی الفاظ میں بیان کرنا ناانصافی ہوگی۔

اس مسجد کے ترجمان شیخ عبدالواحد الحطب کا کہنا ہے کہ اس کمپاؤنڈ میں 250 میناروں پر خودکار چھتریاں لگائی گئی ہیں تاکہ عبادت گزار شدید دھوپ اور بارش سے بچ سکیں۔ ان چھتریوں اپنے ہی پانی کی نکاسی کا نظام بنایا گیا ہے، اور ہر ایک 143 مربع میٹر جگہ پر سایہ کرتی ہے اور 800 عبادت گزاروں کو موسم کی سختیوں سے بچاتی ہے۔

مسجد کے دروازے

فی الحال مسجد کے آرٹیکیچرل ڈیزائن کے مطابق 41 دروازے ہیں اور ہر دروازے کے اوپر ایک پتھر کا بنا کتبہ لگا ہے جس پر لکھا ہے ’امن اور سلامتی کے ساتھ داخل ہوں‘ جو کہ قرآن کی سورۃ الحجر کی 46ویں آیت ہے۔

ادھر شیخ حتابی کہتے ہیں کہ اس کے 85 دروازے ہیں۔ کسی گیٹ میں ایک دروازہ ہے تو کسی میں دو، کسی میں تین یا چار یا پانچ تک دروازے ہیں۔ اس کے علاوہ ایلیویٹرز بھی ہیں جو کہ صحن اور پہلے فلور سے دوسری منزل پر لے کر جاتے ہیں۔

مسجد کی توسیع

خانہ کعبہ اور مسجدِ نبوی کی سعودی جنرل پریزیڈنسی کا کہنا ہے کہ پیغمبرِ اسلام کی بنائی ہوئی مسجد کا ابتدا میں سائز 1050 مربع میٹر تھا۔

اخبار عکاظ نے پریزیڈنسی کے ترجمان کے حوالے سے بتایا کہ ہجرت کے سات سال کے بعد پیغمبرِ اسلام کی ہدایت پر اس بڑھا کر 1425 مربع میٹر کر دیا گیا تھا۔

پیغمبرِ اسلام کی وفات کے صدیوں بعد اس مسجد کی متعدد بار تعمیرِ نو اور توسیع ہو چکی ہے جس کی ابتدا حضرت عمر کے دور میں شروع ہوئی اور پھر اموی اور عباسی ادوار اور خلافتِ عثمانیہ سے لے کر سعودی دور جاری رہی ہے۔

مدینہ میں مسلم آبادی میں اضافے کے باوجود مختلف جہتوں سے اس کی توسیع کے دوران اس کی حقیقی بنیاد کو محفوظ رکھنے کے لیے اس مسجد کے رتبے کا لحاظ رکھا گیا۔ ڈاکٹر زریوا کہتے ہیں کہ اس میں پیغمبرِ اسلام کی ایک حدیث شامل ہے جس کے مطابق اس مسجد میں ادا کی گئی ایک نماز مکہ کی مسجد الحرام کو چھوڑ کر باقی تمام مساجد میں ادا کی گئی ایک ہزار نمازوں سے افضل ہے۔

اس کے علاوہ یہ ان صرف تین مساجد میں سے ایک ہے، جس کی زیارت کے لیے طویل سفر کرنے کی مسلمانوں کو اجازت ہے۔ چنانچہ حج اور عمرے کے دوران لاکھوں کی تعداد میں مسلمان اس مسجد کا دورہ کرتے ہیں۔

ڈاکٹر زریوا کے مطابق حضرت عمر نے کہا تھا کہ اگر مسجد اپنی اصل بنیادوں پر کھڑی ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ اس کی توسیع شام تک پہنچ جائے۔

’حضرت محمد اور مدینہ کی اربنائزیشن‘ نامی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں سپاک عمر کہتے ہیں کہ مسجد اپنی اصل سائز کے مقابلے میں اس وقت 100 گنا زیادہ بڑی ہے اور پرانے مدینہ شہر کے تقریباً تمام حصوں پر محیط ہوگئی ہے۔

انھوں نے مزید وضاحت کی ہے کہ ڈاکٹر محمد واجد اختر نے اپنی کتاب ’مسجدِ بنوی کے بارے میں وہ نو چیزیں جو آپ نہیں جانتے‘ میں کہا ہے کہ مسجد کی بیرونی حد آج جنت البقیع سے جڑی ہے مگر پہلے جنت البقیع قدیم مدینہ کی حدود سے باہر ہوتا تھا، اسی لیے یہ کہنا درست ہوگا کہ مسجد آج قدیم مدینہ کے مکمل علاقے پر محیط ہو گئی ہے۔

پیغمبرِ اسلام کے بعد پہلی مرتبہ مسجد کی توسیع رش کی وجہ سے دوسرے خلیفہ کے دور میں سنہ 638 میں کی گئی۔ انھوں نے مسجد کے اردگرد کی زمین خریدی اور اسے مسجد کا حصہ بنا دیا تاہم اس جانب جہاں پیغمبر اسلام کی بیویوں کے مکانات تھے اس جانب کچھ نہیں کیا گیا۔

اس کے بعد تیسرے خلیفہ عثمان بن عفان نے بھی سنہ 650 (29 ہجری) نے صحابہ سے مشاورت کے بعد مسجد کو اپ گریڈ کیا۔ اخبار عرب نیوز کے مطابق انھوں نے پلستر اور تراشے ہوئے پتھر کی دیواریں بنوائیں، تراشے ہوئے پتھر اور لوہے کی مدد سے ستون بنوائے اور ٹیل کی لکڑی کی چھت بنوائی۔

سنہ 707 (88 ہجری) میں مدینہ کے گورنر عمر بن عبد العزیز نے بنو امیہ کے خلیفہ ولید ابن العبد المالک کے احکام پر مسجد کا احاطہ بڑھا کر اسے 6440 مربع میٹر تک لے گئے۔ انھوں نے چار مینار بنوائے اور ایک محراب بنوائی۔ داخلی ستونوں کو سنگِ مرمر اور سونے کے کام سے سجایا گیا اور ان کی تعداد 232 تک پہنچ گئی۔

عباسی خلیفہ المہدی نے 161-165 ہجری میں مسجد میں کام کروایا جس کے بعد اس کا رقبہ 8890 مربع میٹر ہوگیا اور اس میں 60 کھڑکیاں اور 24 دروازے لگائے گئے۔

سنہ 1257 (654 ہجری) میں جب مسجد کو آگ لگا دی گئی تھی تو خلیفہ المعتصم نے اسے دوبارہ تعمیر کرنے کی ٹھانی مگر 656 ہجری میں بغداد پر تاتاریوں کے حملے کے باعث وہ یہ کام نہ کر سکے۔

مملوک دور میں اس کی تعمیرِ نو کی گئی جنھوں نے چار مرکزی دروازوں کو چھوڑ کر باقی تمام دروازوں کو پیتل کی نقاشی سے بند کر دیا۔

عثمانیہ دور میں سلطان سلیمان نے گنبد کی مرمت کروائی اور 974 ہجری میں سونے کا پانی چڑھا ہوا تانبے کا بنا نیا ہلال نصب کیا۔ اس سے قبل ممالک دور میں مینار اور گنبد پر ہلال لگانا شروع کیا گیا تھا۔ سنہ 1228 ہجری میں سلطان محمود کے دور میں گنبد کو سبز رنگ دیا گیا تھا جو کہ آج تک اسی رنگ کا ہے۔

سلطان عبد الماجد نے اس وقت مسجد کی توسیع کروائی جب 1277 ہجری میں اس میں دڑاڑیں پڑ گئی تھیں اور اس توسیع کے بعد مسجد کا رقبہ 10303 مربع میٹر ہوگیا۔ خبر رساں ادارے الجزیرہ کے مطابق پانچ نئے دروازے شامل کیے گئے اور دیواروں کی اونچائی بڑھا کر 11 میٹر کر دی گئی۔ 170 چھوٹے گنبد لگائے گئے، 600 تیل کے لیمپ بھی شامل کیے گئے۔

تاریخ دان سلطان غالب الکویتی کے مطابق سنہ 1909 (1327) ہجری میں مسجدِ نبوی جزیرہ نما عرب میں وہ پہلا مقام تھی جہاں بجلی لگائی گئی۔

سعودی دور میں آئیں تو شاہ عبد العزیز السعود نے 1950 میں مسجد کا احاطہ بڑھا کر 16327 مرتب میٹر تک لے گئے، جس میں 706 ستون اور 170 گنبد تھے۔ ترجمان الحتاب کے مطابق اسی دور میں مسجد میں بجلی کی رسد ایک خصوصی سٹیشن سے آنے لگی اور لیمپوں کی تعداد 2427 ہوگئی۔

عرب نیوز کے مطابق 1973 میں شاہ فیصل نے مسجد کے مغرب میں 35000مربچ میٹر کو مسجد کے لیے مختص کر دیا، اور اس سارے حصے میں پنکھے اور سپیکر نصف کیے گئے اور چھتریاں بھی لگائی گئیں۔

سنہ 1398 ہجری میں شاہ خالد بن عبدالعزیز کے توسیع کے بعد شاہ فہد نے 1405 سے 1414 ہجری کے دوران ایک اور توسیعی منصوبہ شروع کیا۔

داخلی گزرگاہیں وسیع کی گئیں جبکہ برقی سیڑھیاں بنائی گئیں جس کے بعد حرم کے دروازوں اور داخلی گزرگاہوں کی کُل تعداد 85 ہوگئی۔ خوبصورت تزئین و آرائش والے گنبد، چار مینار اور 13 دروازے اس کے علاوہ تھے۔

سب سے بڑے توسیعی منصوبے کی اب انتقال کر چکے شاہ عبداللہ نے 2012 میں منظوری دی تھی تاکہ منصوبے کی تکمیل کے بعد 20 لاکھ عبادت گزار یہاں سما سکیں۔

وزیرِ خزانہ ابراہیم العساف نے کہا تھا کہ یہ عمارت ‘چھ لاکھ 14 ہزار 800 مربع میٹر کے رقبے پر ہوگی اور مسجد اور صحنوں کا کُل رقبہ 10 لاکھ 20 ہزار 500 مربع میٹر ہوگا۔’ انھوں نے مزید بتایا کہ اس کے بعد مسجد میں 10 لاکھ جبکہ صحن میں آٹھ لاکھ عبادت گزار سما سکیں گے۔

الحطب کا کہنا تھا کہ شاہ عبداللہ نے مسجد کے صحنوں اور احاطوں کے ستونوں پر 250 چھتریوں کی تنصیب کا بھی حکم دیا تھا تاکہ ایک لاکھ 43 ہزار مربع میٹر جگہ پر سایہ فراہم کیا جا سکے۔ خودکار چھتریاں دو مختلف اونچائیوں کی تھیں تاکہ وہ ایک دوسرے کے اوپر چھا سکیں اور عبادت گزاروں تک دھوپ یا بارش کو پہنچنے سے روک سکیں۔

روزنامہ عکاظ نے عبدالواحد الحطب کے حوالے سے کہا تھا کہ موجودہ توسیعی منصوبے میں مشرقی اور مغربی جانب 12.5 ہیکٹر رقبے پر موجود تعمیرات کو ہٹا دیا جائے گا۔

انھوں نے مزید بتایا کہ جب شاہ سلمان نے شاہ عبداللہ کے بعد تخت سنبھالا تو انھوں نے توسیعی منصوبہ اور دیگر کام دوبارہ شروع کرنے پر زور دیا تاکہ حرمین شریفین کو بہتر بنایا جا سکے اور یہاں تمام سہولیات فراہم کی جا سکیں تاکہ زائرین آسانی سے حج اور عمرہ کر سکیں۔

توقع ہے کہ توسیعی منصوبے کے دوسرے اور تیسرے مرحلے کے اختتام پر 10 لاکھ سے بھی زائد عبادت گزاروں کے لیے جگہ بن جائے گی جبکہ پہلی توسیع میں آٹھ لاکھ عبادت گزاروں کے لیے جگہ بنے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ مجموعی طور پر پورا توسیعی منصوبہ 2040 تک 12 لاکھ مزید عبادت گزاروں کے لیے جگہ پیدا کرے گا۔

پیغمبرِ اسلام کا منبر

جس منبر پر اسلام کے پیغمبر اپنے ساتھیوں کے سامنے خطبہ دیا کرتے تھے وہ جگہ مسجدِ نبوی کی سب سے نمایاں اور مقدس جگہوں میں سے ہے۔

مبارکپوری کے مطابق مسجد کا پہلا منبر کھجور کی لکڑی سے بنایا گیا تھا اور اس میں تین زینے تھے۔

پیغمبر کے بعد مسلمانوں کی قیادت کرنے والے خلفا نے بھی اپنے خطبوں کے لیے اس منبر کا استعمال کیا۔ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے دورِ خلافت میں وہ دونوں منبر کے دوسرے زینے سے خطبے دیا کرتے تھے۔

حضرت عثمان اپنے خطبے پہلے زینے سے دیتے مگر بعد میں انھوں نے بھی پیغمبرِ اسلام کی طرح تیسرا زینہ استعمال کرنا شروع کر دیا۔

مگر 886 ہجری میں مسجد میں لگنے والی ایک آگ میں پیغمبرِ اسلام کا منبر جل گیا جس کے بعد شہر کے لوگوں نے اینٹوں کا ایک منبر بنایا اور اس کے بعد مملوک سلطان قائتبائی نے سفید سنگِ مرمر کا بنا ہوا منبر بھجوایا۔

محراب

محراب وہ جگہ ہے جہاں کھڑے ہو کر امام باجماعت نماز کی قیادت کرواتے ہیں۔

مسجدِ نبوی میں دو محرابیں ہیں۔ ایک محراب اصلی عمارت میں وہ ہے جہاں سے پیغمبرِ اسلام کھڑے ہو کر نماز پڑھایا کرتے تھے۔ یہ محراب منبر کے نزدیک ہے جو اب روضے اور مکبریہ ساتھ ہے جہاں سے اذان دی جاتی ہے۔

ڈاکٹر اختر نے بتایا کہ ‘نبوی محراب اب اس پورے حصے پر محیط ہے جہاں پیغمبرِ اسلام کھڑے ہو کر نماز پڑھایا کرتے تھے، صرف ان کے پیروں کی جگہ محراب سے باہر ہے۔’

العربیہ سے بات کرتے ہوئے مسجد کے ایک اہلکار نے بتایا کہ دوسری محراب عثمانی محراب ہے جسے اب بھی مسجد کے امام استعمال کرتے ہیں۔ یہ عثمانیہ دور میں مسجد کی توسیع کے دوران بنائی گئی تھی۔ یہ آخری مرتبہ تھی جب مسجد کو شمالی جانب سے وسیع کیا گیا تھا۔

ڈاکٹر اختر کے مطابق تیسری محراب سلیمانی یا احناف محراب کہلاتی ہے اور اسے سلطان سلیمان نے حنفی امام کے نماز پڑھانے کے لیے بنوایا تھا جبکہ مالکی امام نبوی محراب سے نماز کی قیادت کرتے۔

روضہ

یہ جگہ پیغمبرِ اسلام کے منبر اور ان کے گھر کے درمیان واقع ہے۔ بخاری میں ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ پیغمبرِ اسلام نے فرمایا: ‘میرے گھر اور منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔’

روضہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے اور اس میں مرد اور خواتین زائرین کے لیے علیحدہ علیحدہ وقت مختص ہیں تاکہ دھکم پیل اور بھگدڑ سے بچا جا سکے۔ زائرین عموماً روضے میں نوافل ادا کرتے ہیں اور اس کے بعد پیغمبرِ اسلام کے مقبرے کی جانب سلام کرنے کے لیے بڑھ جاتے ہیں۔

مسجدِ نبوی کی توسیع و تزئین و آرائش کے بعد روضہ منفرد آرائشی سامان سے سجایا گیا ہے جس میں قالینوں اور غالیچوں سے لے کر زر و جواہرات تک شامل ہیں۔

مسجد الحرام اور مسجدِ نبوی کے منتظم ادارے کے مطابق روضے کا حجم 330 مربع میٹر ہے۔ اس کا طول 22 میٹر اور اس کا عرض 15 میٹر ہے۔

یہاں پر ہمیشہ سکیورٹی اور دیگر اہلکار موجود رہتے ہیں تاکہ اسے صاف رکھا جا سکے اور لوگوں کی غیر متعلقہ نقل و حرکت کو روکا جا سکے۔

گنبدِ خضریٰ

یہ سبز گنبد مسجدِ نبوی کی سب سے نمایاں تعیمرات میں سے ایک ہے۔ اسے پیغمبرِ اسلام، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی قبروں کے اوپر بنایا گیا ہے۔

علی بن احمد السمھودی اپنی کتاب وفا الوفا میں لکھتے ہیں کہ پیغمبرِ اسلام کی قبر پر پہلا گنبد 650 سال کے بھی بعد بنایا گیا تھا اور سب سے پہلا گنبد 1279 (678 ہجری) میں سلطان قلاوون نے بنوایا تھا اور یہ لکڑی کا تھا۔

ڈاکٹر اختر کہتے ہیں کہ ‘جو سبز گنبد ہم آج دیکھتے ہیں وہ درحقیقت پیغمبرِ اسلام کے کمرے کے اوپر موجود باہری گنبد ہے۔ اس کے اندر ایک اور گنبد ہے جو اس سے کہیں چھوٹا ہے اور اس پر پیغمبرِ اسلام، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے نام کندہ ہیں۔’

یہ نیچے سے چوکور اور اوپر سے آٹھ کونوں کی ساخت کا حامل تھا۔ جزیرہ انسائیکلوپیڈیا کے مطابق اسے جل جانے کے بعد ایک سے زائد مرتبہ از سرِ نو تعمیر کیا گیا اور عثمانی سلطان غازی محمود نے اسے دوبارہ تعمیر کروایا۔

رفعت پاشا کی ڈائریاں، جلد اول، صفحہ 464 سے 465 کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر اختر بتاتے ہیں کہ 1837 میں سبز پینٹ کیے جانے سے قبل اسے طویل ترین عرصے تک سفید اور بعد میں بینگنی نیلے رنگ سے پینٹ کیا گیا تھا۔

لائبریری

مسجد کے منتظم ادارے کے مطابق لائبریری 1352 ہجری میں مدینہ کے ڈائریکٹر اوقاف عبید مدنی کی تجویز پر قائم کی گئی تھی۔

یہاں موجود کچھ کتابیں لائبریری کے قیام سے پہلے بھی مسجدِ نبوی میں موجود تھیں، جیسے کہ 1320 ہجری میں مکتبہ شیخ محمد عزیز الوزیر۔ یہ ان کتابوں میں سے ہے جنھیں لائبریری کے قیام کے بعد یہاں متعارف کروایا گیا۔

مطالعے کے کمرے کے علاوہ لائبریری میں ڈپارٹمنٹ آف آڈیو لائبریری (سیکشن 17) ہے جس میں مسجدِ نبوی کے درس، خطبے اور عبادات کو محفوظ کیا جاتا ہے۔ ٹیکنیکل سیکشن (دروازہ 22) میں مسودوں کی صفائی، بحالی اور جلد بندی کا کام کیا جاتا ہے۔

نایاب کتابوں کا سیکشن نایاب کتابوں کو تاریخ اشاعت، آرائش، ساخت اور تصاویر کے اعتابر سے محفوظ کرتا ہے۔

دیگر سیکشنز میں مسودوں کا سیکشن، ڈیجیٹل لائبریری، تحقیق و ترجمہ، سیکیورٹی، گفٹس اینڈ ایکسچینج، اور سرکولیشن سیکشن شامل ہیں۔

مردوں، خواتین اور بچوں کے لیے مطالعے کے کمروں کی حامل لائبریری مسجد کے اندر بابِ عثمان کے دوسرے راؤنڈ میں ہے۔ اس کی خدمات سے تمام زائرین فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

دنیا کی سب سے بڑی مساجد میں سے ایک مسجدِ نبوی خوبصورت سجاوٹ اور جدید ٹیکنالوجی کا مجموعہ ہے اور اس کی از سرِ نو تعمیر، توسیع اور آرائش پر اربوں سعودی ریال خرچ ہو رہے ہیں۔

ہر سال بالخصوص ماہِ رمضان اور حج کے دوران لاکھوں زائرین کی میزبانی کے لیے مسجد کے رکھوالے یعنی سعودی شاہی محل نے ہر دور میں اسے مزید آرامدہ اور دیدہ زیب بنانے کے لیے اپنے عزم کو قائم رکھا ہے۔

مسجد نبوی کا دورہ حج یا عمرے کی زیارات کا حصہ شاید نہ ہو مگر زائرین کی اکثریت مسجد کا دورہ اور پیغمبرِ اسلام کو سلام کیے بغیر مطمئن نہیں ہو سکتی۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ: یہ رپورٹ اس سے پہلے بھی 11 نومبر 2019 کو بھی بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پر شائع ہو چکی ہے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”مدینہ کی مسجدِ نبوی: مٹی کے کمرے سے دنیا کی دوسری بڑی مسجد تک

Leave a Reply to Umer Cancel reply