• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(چالیسواں دن)۔۔گوتم حیات

کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(چالیسواں دن)۔۔گوتم حیات

زندگی بہت دھیمی سی ہو گئی ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے اتنے دنوں سے گھر پر بند۔۔۔ بہت دنوں سے امّی ابّو کا یہ جملا بھی میں نہیں سن سکا۔۔
“عاطف کیا یوں ہی بیٹھے رہو گے گھر پر، اتنی مہنگائی ہو چکی ہے، تم سنجیدگی سے کوئی نوکری کیوں تلاش نہیں کرتے۔۔۔ پاکستان بھر سے بےروزگار لڑکے اس شہر میں آکر روزگار کر رہے ہیں اور تم ہو کہ خالی ہاتھ، کتابوں کے ساتھ لیٹے ہوئے۔۔۔۔ کیا کتابوں سے بھی کسی کی بھوک ختم ہوئی ہے کبھی؟؟؟”
میں تو اب ترس گیا امّی ابّو کے اس ایک جملے کو سننے کے لیے۔۔۔ جب سے ڈائری لکھنا شروع کی ہے امّی ابّو کا جملہ  بھی تبدیل ہو گیا ہے۔ میں جب ان کو ہر روز بتاتا ہوں کہ آج میں نے قسط نمبر فلاں مکمل کر لی ہے تو وہ دونوں یک زبان ہو کر کہتے ہیں۔۔
“کیا فائدہ ان قسطوں کا، پیسہ تمہیں ایک نہیں مل رہا۔۔۔”
پھر میں انہیں آگاہ کرتا ہوں کہ پلیز آپ لوگ ہر چیز کو پیسے کے ترازو میں نہ تولا کریں لالچی لوگوں کی طرح۔۔۔ یہ ڈائری میرے لیے بہت اہم ہے۔ کاش میں لفظوں میں آپ دونوں کو یہ بات سمجھا سکتا، لیکن افسوس کہ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں سمجھانے کو!

آج چالیس راتیں اور چالیس دن پورے ہو رہے ہیں۔ میں پچھلے چالیس دنوں سے لکھ رہا ہوں۔ ہر روز ایک نئی قسط مکمل کرنے کے بعد مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب لکھنے کو کچھ نہیں ہے۔ یہی سوچتے سوچتے ساری رات بیت جاتی ہے، صبح کے وقت میری آنکھ لگتی ہے اور پھر اچانک میری آنکھ کھلتی ہے تو دن کے بارہ بج رہے ہوتے ہیں۔ آنکھ کھلتے ہی میں سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ آج کی قسط میں کیا لکھوں گا۔۔کیا قسط مکمل بھی کر سکوں گا یا نہیں۔ دوپہر کے بعد سہ پہر اور پھر مسجد سے آتی ہوئی مغرب کی اذان کی آواز مجھے اپنی جانب متوجہ کر کے کہتی ہے “یہ دن ختم ہو گیا اور تم نے ابھی تک نئی قسط کا آغاز نہیں کیا۔۔؟ آخر کیوں۔۔۔۔ کیا آج لکھنے کا ارادہ نہیں ہے۔” میں بےچین ہو کر بستر سے اُٹھنے لگتا ہوں اور کچھ سوچ کر لکھنے کا آغاز کرتا ہوں، نئی قسط کی ایک لائن مکمل کر کے اپنے آپ سے کہتا ہوں
“چلو ایک لائن تو لکھ لی آج کی قسط کی، کاش اب اس قسط کو آگے بڑھا کر کامیابی سے اختتامی مراحل تک بھی لے جاؤں تو کتنا اچھا ہو جائے گا میرے لیے۔۔۔ میں بھی خوش اور پڑھنے والے بھی خوش کہ ہاں آج گوتم نے ایک اور قسط ہماری نظر کی۔”
میرے پڑھنے والوں نے اب مجھ سے بےپناہ امیدیں وابستہ کر لی ہیں۔ اسی لیے پچھلے کچھ دنوں سے میں ایک انجانے سے خوف میں مبتلا ہو گیا ہوں۔ کیونکہ جب آپ اپنے پڑھنے والوں کی امیدوں پر پورا نہ اتر سکیں تو پھر شرمندگی کا احساس آپ کو گھیر لیتا ہے۔
“میں آج اس چالیسویں قسط کا سہارا لیتے ہوئے نہایت معذرت کے ساتھ اپنے ریڈرز سے یہ بات کہنا چاہ رہا ہوں کہ برائے مہربانی میری تحریروں سے امیدیں وابستہ نہ کیجیے۔ میں ایک عام سا انسان ہوں بلکہ میں وہ شخص ہوں جو آج تک کسی کی امیدوں پر پورا نہ اتر سکا۔”
قتیل شفائی نے کہا تھا
اس چیز کا کیا ذکر جو ممکن ہی نہیں ہے
صحرا میں کبھی سایہ دیوار نہ مانگو۔۔

لوگوں کی امیدوں پر پورا اترنے کے لیے بہت سے کمپرومائزز کرنے پڑتے ہیں، اپنا آپ، اپنی خواہشات کا گلا گھوٹنا پڑتا ہے۔ آپ کو وہ کرنا پڑتا ہے جو آپ نہیں کرنا چاہتے اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ لوگ بددل ہو کر آپ سے کنارہ کشی اختیار کرنے لگتے ہیں۔ کوئی آپ کو مختلف ہونے کی بِنا پر نوکری پر نہیں رکھتا، ہاں وہ لوگ یہ خواہش لازمی کرتے ہیں کہ آپ بس کسی طرح سے ان کے ساتھ جڑے رہیں اور فری میں، بغیر کسی معاوضے کے رضاکارانہ طور پر ان کے کام کرتے رہیں۔۔۔ آخر ایک روز تنگ آکر جب آپ ان کو آنکھیں دکھاتے ہیں تو پھر سماجی محفلوں میں اس قسم کی چہ مگوئیاں ہونے لگتی ہیں۔۔۔
“وہ تو ایسا تھا۔۔۔ ایک نمبر کا کام چور ہے۔ کچھ بھی نہیں آتا اس کو۔۔۔ پتہ نہیں یونیورسٹی سے ڈگری کیسے حاصل کر لی۔ ہر ایک سے اختلاف کر رکھا ہے۔ اس نے میرے پاس کام کیا تھا، میں نے تو نکال دیا اس کو اپنے آفس سے۔
اس کے سیاسی، سماجی اور مذہبی خیالات بھئی ہم تو افورڈ نہیں کر سکتے۔۔۔۔ ہمیں آگے بڑھنا ہے، سوسائٹی میں ایک اہم مقام بنانا ہے، وہ اگر ہمارے ساتھ رہا تو ہو گیا ہمارا کام۔۔۔ آخر اس کو یہ بات سمجھ کیوں نہیں آتی کہ یہ شہر ہے، ضروری ہے کہ ہم جس کے خلاف پریس کلب پر مظاہرہ کریں اس کو اپنی ذاتی زندگی میں بھی ناپسند کریں۔۔۔؟ مظاہرہ تو ہمارا حق ہے، ہم کریں گے۔۔۔ لیکن پیٹ بھی تو پالنا ہے، آخر خالی پیٹ رہ کر مظاہرہ کرنے کی سکت بھی تو نہیں رہے گی ہمارے جسموں میں۔۔ جسم کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔۔۔ اسی لیے تو یہ دنیا قائم و دائم ہے۔ منافقت ہوتی ہو گی بُری چیز، لیکن اس کے بغیر چارہ بھی تو نہیں ہے، آخر  سٹیٹس بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے اور ہم اپنا سٹیٹس داؤ پر نہیں لگا سکتے، ہم تو اس کوشش میں ہیں کہ اس کو کسی طریقے سے مزید بڑھائیں۔۔۔ ایک اچھا گھر، بھرا ہوا بینک اکاؤنٹ، مہنگا لباس، گاڑی۔۔۔۔ یہی لوازمات تو زندگی کا حُسن ہیں”

اس وقت یہ لکھتے ہوئے میں سوچ رہا ہوں کہ  ہمارے سماج میں بہت کم ایسے نوجوان ہیں جو اپنی فکری آزادی کا سودا نہیں کرتے۔ اپنی اس فکری آزادی کو قائم و دائم رکھنے کے لیے ہر خطرے سے ٹکرانے کا بخوبی حوصلہ رکھتے ہیں۔ ہم ایسے لوگوں کو اخلاقی و سماجی طور پر سپورٹ کر کے اپنے معاشرے کو خوبصورت بنا سکتے ہیں۔
سرکاری اور نجی اداروں میں نوکریوں کا مصنوعی فقدان ہونے کی وجہ سے ملک کی اکثریت اب “شارٹ کٹ” کے راستے  پر اپنے آپ کو دھکیل چکی ہے۔ اس “شارٹ کٹ” کی وجہ سے پیسوں کی ریل پیل اور نمائش پسندی نے ایک ایسے گروہ کو جنم دیا ہے جن کا ایمان محض پیسہ کمانا رہ گیا ہے اور اس پیسے کی وجہ سے ہمارے معاشرے سے احترام انسانیت کا جذبہ بھی ناپید ہو چکا ہے۔
اب صرف ان ہی لوگوں کو نوکریوں میں ترجیحات دی جارہی ہیں جو آسانی کے ساتھ اپنی آزادانہ فکری سوچ کا گلا گھونٹ سکیں۔ جو اپنے اندر انکار کا حوصلہ رکھتے ہیں وہ پسِ پُشت دھکیل دیے جاتے ہیں۔ اس خودغرضانہ طرزِ عمل کے سبب ہمارے معاشرے میں ڈر و خوف کی فضا بھی قائم ہو رہی ہے۔ لوگ آزادی سے ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہوئے کتراتے ہیں۔ ہر کوئی بے یقینی کی اس صورتحال میں گرفتار ہے۔ اس بے یقینی کی صورتحال کو مکالمہ کر کے آسانی سے ختم کیا جاسکتا۔ مگر لوگوں کے ذہنوں میں ڈر اس حد تک راسخ ہوچکا ہے کہ عوامی جگہوں میں کُھل کر بات کرنا محال لگتا ہے۔ آج بھی شہر کے علمی و ادبی اور ثقافتی مراکز پر کسی بھی موضوع پر اپنی آزادانہ رائے دینے سے اجتناب برتنے کو کہا جاتا ہے۔

جانے کیوں اس طرح کا گھٹن زدہ ماحول بنا دیا گیا ہے۔۔۔ نہایت ہی بدقسمتی کی بات ہے کہ اس گھٹن زدہ ماحول کی آبیاری میں شہر کے وہ لوگ بھی پیش پیش ہیں جو خود کو ترقی پسندی یا روشن خیال گروہ  میں شمار کرتے ہیں۔

یہ ہم ہی تو ہیں جو اس کیفیت کو اپنے معاشرے سے ختم کر سکتے ہیں۔ اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی اجنبیت کو مکالمے کے ذریعے شکست دی جا سکتی ہے۔ لوگوں سے ان کی کہانیاں ان ہی کی زبانی سن کر انہیں حوصلہ دیا جاسکتا ہے۔ ان کے دکھوں میں شریک ہوا جا سکتا ہے۔

زندگی کتنی کٹھن ہے اس کا احساس ہمیں اُس وقت زیادہ شدت سے ہوتا ہے جب ہم دوسروں کی کہانیاں توجہ سے سنتے ہیں۔ ان کہانیوں میں حقیقی کرداروں کے مثبت و منفی رویئے ہمیں اپنے تجربات میں شریک کرتے ہیں۔ اس طرح باہمی اعتماد کی ایک فضا قائم ہوتی ہے۔ ہمیں دیانت داری سے مکالمے کی روش کو آگے بڑھانا چاہیے۔ خصوصی طور پر یونیورسٹی اور کالجز کے طالبعلموں کے علاوہ کچی آبادیوں میں مقیم ناخواندگی کے شکار لوگوں سے انفرادی و اجتماعی سطح پر مکالمہ کرنے میں پہل کرنی چاہیے!

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply