بروقت فیصلہ نہ کرنے سے کیا نقصان ہوتا ہے؟۔۔عمر خالد

“فیصلہ نہ کرنا” بھی “ایک فیصلہ” ہے۔ یہ رویہ ناکام اور کامیاب شخص کے درمیان لکیر کھینچتا ہے۔ دنیا ناکام لوگوں سے بھری پڑی ہے۔ ان سب میں یہی ایک عادت مشترک ہے۔ حالانکہ انسان فیصلہ کیے بغیر ایک لمحہ نہیں گزار سکتا۔ کھانا پینا، سونا جاگنا، ملناجلنا، چہل پہل، کام کاج، سکھ دکھ یہ سب ہمارے روز مرہ کے فیصلے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ فیصلہ کرنا انسانوں کی بنیادی اقدار میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کامیاب اور ناکام دونوں اپنے فیصلوں سے پہچانے جاتے ہیں۔ کامیاب شخص واضح ذہن کے ساتھ بروقت اقدامات کرتا ہے جبکہ ناکام شخص جانے انجانے میں کسی بھی قسم کے فیصلے سے گریز کرتا ہے۔ فیصلہ نہ کرنے کا دوسرا نام ٹال مٹول ہے۔ فیصلہ سازی کی قوت سے مالا مال شخص بتا سکتا ہے کہ کن عوامل کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس نے کوئی قدم اٹھایا۔ مگر جب ناکام شخص سے یہی سوال پوچھا جائے تو کندھے اچکانے اور نظریں چرانے کے علاوہ اس کے پاس کوئی  چارہ نہیں ہوتا۔

کہتے ہیں ایک مینڈک غلطی سے لیک میں پھنس گیا تھا۔ اس نے باہر نکلنے کی کوشش بھی کی، مگر بے سود رہی۔ اس کا ساتھی مینڈک اوپر بیٹھے اسے ہمت دلاتا رہا لیکن اس نے صاف انکار کردیا کہ باہر نکلنا میرے بس میں نہیں ۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ مینڈک اچھل کر لیک سے باہر نکلا اور کنول کے تیرتے ہوئے پتے پر اپنے ساتھی کے پاس جا بیٹھا۔ اس کا ساتھی مشکوک نظروں سے دیکھتے ہوئے کہنے لگا کہ ” تم نے تو ہار مان لی تھی۔ پھر یہ کیا ماجرا ہے؟ اس پر مینڈک نے کہا: سامنے سے ٹرک آرہا تھا نہ نکلتا تو کچلا جاتا ہے۔

ایک طرف یہ حالت ہے کہ غلط ہونے کے خوف سے لوگ فیصلہ کرنے سے ہی جی چراتے ہیں۔ دوسری جانب اگر حالات کبھی غیر موافق ہوں تو دباؤ میں غیرمعمولی ہمت اور دلیری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس طرح کے فیصلے صرف دباؤ کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ رد عمل کوئی مثبت رویہ نہیں ہے۔

ناکام لوگ میں کیوں فیصلہ سازی کی ہمت نہیں ہوتی۔ اس کی بہت سی علامات اور وجوہات ہیں:
ٹال مٹول، خوف اور بے چینی (Anxiety)
نادیدہ چیزوں کا خوف سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ماؤف کردیتا ہے۔ ناپسندیدہ نتائج کا ڈر قوت ارادی (will power) کو کمزور کردیتا ہے۔ یوں ٹال مٹول (procrastination) کی عادت پڑجاتی ہے جو رفتہ رفتہ ایک رویہ بن جاتی ہے۔

نیل فوئیر ایک تحقیق کار ہیں، انہوں نے ٹال مٹول پر ایک بڑی تحقیق کے دوران دریافت کیا کہ آدمی اس وقت ٹال مٹول کرتا ہے جب اسے اپنی قدر و قیمت اور خود مختاری خطرے میں محسوس ہوتی ہے۔ جب کسی موقع پر آدمی یہ اندیشہ لاحق ہوجائے کہ اس کو فائدہ پہنچانے والی سرگرمیاں متاثر ہوسکتی ہیں تو اس وقت سستی و کاہلی پیدا ہوجاتی ہے۔ خوف ذہن پر سوار ہوجاتا ہے۔ اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت بکھر جاتی ہے۔

ٹال مٹول حقائق سے جی چرانے کے مترادف ہے۔ چادر تان کر لیٹنے سے حقیقت پیچھا نہیں چھوڑ دیتی۔ بلکہ ٹال مٹول کرنے اور بروقت فیصلہ نہ کرنے سے مسائل مزید گھمبیر ہوجاتے ہیں۔ ٹال مٹول ایک ایسی عادت ہے جس سے یکسر جان چھڑانا بے حد ضروری ہے۔ ورنہ یہ عادت زندگی کا ایک جزو لازم بن کر شخصیت کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔

ٹال مٹول کا علاج
اس رویے کی تشخیص کے بعد سب سے پہلا عمل یہ ہے کہ نتائج سے خوف کھانا چھوڑ دیجیے۔ نتائج سے بے پرواہ ہوکر فیصلہ کرنے کے دو فائدے ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ نتیجہ اکثر مثبت نکلتا ہے اور دوسرا یہ کہ قوت ارادی میں اضافہ ہوتا ہے۔ مضبوط قوت ارادی بہادری پیدا کرتی ہے۔ اور بہادر شخص چاہے حالات کتنے ہی سخت کیوں نہ ہوں کبھی خوف نہیں کھاتا۔

خوف سے بے پرواہ ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آنکھیں میچ کر فیصلہ کیا جائے، بنیادی عوامل اور اہم تفصیلات کو نظر انداز کیا جائے۔ فرض کریں کہ آپ نے گاڑی خریدنی ہے۔ ایسی گاڑی جو ایک سال سے پرانی نہ ہو اور آپ کے مخصوص معیار کے مطابق ہو۔ بازار سے مطلوبہ گاڑی مل بھی جائے تب بھی کوئی نہ کوئی خامی نکل ہی آئے گی۔ آپ گاڑی خریدنے سے پہلے چاہے کیسی ہی معمولی تفصیلات اور گہرائی میں اتر چکے ہوں تب بھی کچھ نہ کچھ گرفت سے باہر رہتا ہے۔ فیصلہ کرنے سے پہلے چھوٹی چھوٹی تفصیلات میں بہت گہرائی سے اترنے میں فائدے سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ ایک سائنٹفک تحقیق کے مطابق شواہد بتاتے ہیں کہ فیصلہ کرنے سے قبل معمولی تفصیلات کا باریک بینی سے معائنہ اور جانچ پڑتال کرتے کرتے موقع ہی ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے۔ یعنی بارکیک بینی میں جتنا وقت صرف کرتے ہیں اس کےبعد فیصلہ اتنا ہی بے نتیجہ نکلتا ہے۔

بسا اوقات بہت زیادہ معلومات ذہن کو لبالب بھر دیتی ہے، اعدادوشمار سوجھ بوجھ پر حاوی ہوجاتے ہیں۔ اور آدمی ایک انجانے خلجان اور ہچکچاہٹ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔
فرض کریں آپ ریسٹورنٹ پر جاتے ہیں۔ بیرا ہوٹل میں دستیاب کھانوں کا مینیو پکڑاتا ہے۔ مینیو میں بیسیوں کھانوں کی فہرست دیکھ کر آپ کا سر چکرا جاتا ہے کہ کیا آرڈر کیا جائے! لیکن ایسا ریسٹورنٹ جہاں گنتی کے کھانے ہوں، ان میں چناؤ زیادہ آسان ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

فیصلہ کرنا ایک ہنر ہے۔ مسلسل مشق سے اس میں نکھار پیدا کیا جاسکتا ہے۔ نتیجہ سے بے پرواہ ہوکر فیصلہ کرنے کے لئے کچھ بنیادی معیارات (Criteria) تشکیل دینے چاہیے مگر ساتھ ہی باریک بینی اور اعدادوشمار کے جھنجھٹ سے گریز کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ بالآخر ہماری معلومات محدود ہی رہتی ہیں۔ نتیجہ ہمارے سامنے نہیں پہلے سے کبھی واضح نہیں ہوتا۔

Facebook Comments

عمر خالد
ستاروں کے جھرمٹ میں ایک ذرہ بے نشان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply