ساڈا بابا؟۔۔عزیز اللہ خان

پرانی بات ہے الیکشن میں لغاری صاحبان کو اپنے مخالف لغاری کی ایک ویڈیو مل گئی جس میں لغاری صاحب ایک 15/16 سال کی لڑکی کے ساتھ انتہائی بے دردی سے  جنسی تعلق قائم کررہے تھے،   لغاری صاحبان نے اس ویڈیو کو اپنے مخالف لغاری اُمیدوار کے خلاف استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اُن دنوں VCR ہوا کرتے تھے وہ ویڈیو حلقہ کے تمام ہوٹلوں پر چلائی گئی، امید یہ تھی کہ ایسی غیر اخلاقی حرکت پر مخالف امید وار جس کی یہ ویڈیو تھی وہ ہار جائے گا مگر اُس وقت لغاری صاحبان کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب وہ لغاری مخالف اُمیدوار بھاری اکثریت سے الیکشن جیت گیا لوگوں نے اُسے اس لیے ووٹ دیا کہ “ہمارا سردار جوان مرد ہے اور اوپر ہے “۔

کل سے ایک گریڈ 20 کے DIG پی ایس پی پولیس افسر کی گریڈ 18 کی DMG افسر کے ساتھ سر سے پاوں تک چومنے والی تصاویر سوشل میڈیا کے گروپس میں وائرل ہیں DMG گروپ کی یہ خاتون گریڈ 18 کے ایف آئی اے  افسر کی بیوی ہیں۔
ابھی چیرمین نیب اور جج ارشد ملک کی ویڈیوز اور  سکینڈل کی دھول نہیں  چَھٹی تھی کہ یہ تصاویر سامنے آگئیں۔
ایک تصویر میں psp  افسر DMG افسر کا منہ چوم رہے ہیں جبکہ دوسری تصویر میں DMG  افسر psp گریڈ 20 سے اپنا جوتا اُتروا رہی ہیں اور گریڈ 20 کے  افسر کے چہرے پر عجیب سے عشقیہ تاثرات ہیں اور وہ خاتون کے پاؤں کو پکڑ کر واری واری جارہے ہیں۔

دوران ملازمت اور اُس کے بعد بھی میں نے دیکھا کہ اگر کسی ماتحت پولیس ملازم سے کوئی غیر اخلاقی حرکت سرزد ہو جائے تو قانون یا عوام بعد میں فیصلہ کرتے ہیں پہلے افسران ملازم کو عبرت کا نشان بنا دیتے ہیں۔

ملتان میں ایک رینکر SP لیڈی وارڈن کو دل دے بیٹھے اور ٹیلی فون پر اظہار محبت فرمایا جس کی انہیں فوری سزا ملی اور CPO کلوز کردیا گیا اسی طرح فیصل آباد کا سونیا کیس جس میں ایک رینکر Sp ملازمت چھوڑنے پر مجبور ہوگیا کبیر والا کے ایک انسپکٹر کو بھی ایک لڑکی سے ٹیلیفون پر عشقیہ باتیں کرنے پر مقدمات کا سامنا ہے۔
پولیس ڈیپارٹمنٹ میں PSP افسران کو عام معافی ہے اگر ایک افسر سے کوئی غلطی ہو بھی جائے تو باقی سب افسران ان کو بچانے کے لیے میدان میں آجاتے ہیں ان میں سے بہت سے افسران کی عشق کی داستانیں مشہور ہیں جو ماتحت ملازمین نے اپنے سینے میں چھپائی ہوتی ہیں ان کے گن مین ڈرائیور اور ذاتی سٹاف ان کے کرتوتوں سے واقف ہوتے ہیں، مگر مجبور ہوتے ہیں کسی کو اس لیے نہیں بتا پاتے کہ ان کے قلم کی ایک جُنبش سے ان بے چاروں کی روٹی روزی ختم ہو جاتی ہے۔

اب بھی یہی ہوا ہے ڈی آئی جی صاحب اپنے حمایتی افسران کی مدد سے کُچھ تصاویرمیڈیا پر لے کر آئے ہیں جن میں اب وہ خاتون افسر کسی اور شخص کے ساتھ بالکل اُسی انداز میں موجود ہیں ان تصاویر میں صاف لگ رہا ہے کہ فوٹو شاپ پر بنائی گئی ہیں شاید فوٹو شاپ پر بنائی گئی ہو سکتا ہے کہ ان تصاویر سے DIG صاحب کی جان بچ جائے۔
اب تک اُن خاتون افسر یا اُن کے شوہر کی طرف سے کوئی تردید موصول نہیں ہوئی ،نہ ہی انہوں نے فوٹو شاپ پر اپنے چہرہ پر کسی اور لڑکی کا چہرہ لگوایا ہے۔
ڈی آئی جی صاحب تو لازمی بچ ہی جائیں گے کیونکہ آئی جی صاحب کے لاڈلے ہیں اور ویسے بھی اس طرح کی حرکت کونسا بڑا جُرم ہے مرد تو ایسا کرتے رہتے ہیں مگر دُکھ تو اُس خاتون کا ہے جس سے عہدوپیماں کیے گئے ہوں گے مرنے جینے کی قسمیں کھائی گئی ہوں گی اب اس خاتون کے ساتھ کسی اور کی تصویر فوٹو شاپ پر بنوا کر DIG نے مردانگی کا ثبوت نہیں دیا ۔

اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ DIG صاحب کی تصاویر نہیں ہیں مگر اپنی تصاویر میں وہ کس کو پیار کر رہے ہیں ؟DIG پوری رینج کا کمانڈر ہوتا ہے اس تمام تصاویر اور وقوعہ کی انکوائری ہونی چاہیے اور قصور وار سامنے آنا چاہیے ورنہ ایسے غیر ذمہ دار اور غیر اخلاقی حرکتیں کرنے والے افسر کو پولیس کے ملازمین کی کمانڈ کا کوئی حق نہیں۔
آئی جی صاحب اگر یہ نہیں کر سکتے تو آج تک جتنے پولیس ملازمین اور عوام والناس کو غیر اخلاقی حرکات پر اگر سزائیں دی گئی ہیں تو فوری معاف کردی جائیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ان تمام تصاویر کو دیکھ کر میں تو اس نتیجہ پہنچا ہوں کہ یہ صرف عشق ومحبت کی داستان نہیں بلکہ دو اداروں پولیس گروپ اور ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن گروپ کے درمیان اختلافات کا شاخسانہ بھی ہو سکتا ہے اگر DMG کی افسر نے پولیس گروپ کے افسر کو اپنے پاؤں میں بیٹھایا ہوا ہے تو پولیس گروپ کے افسر نے بھی اُسے چومتے ہوئے فاتحانہ مسکراہٹ سے اپنی فتح کا اعلان کیا ہے اب فتح کس گروپ کی ہوئی ہے یا ہونی ہے اور کس کا بابا اوپر ہونا ہے یہ تو آنے والا وقت بتائے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply