• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(انتالیسواں دن)۔۔گوتم حیات

کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(انتالیسواں دن)۔۔گوتم حیات

پورے ملک میں اب تک کرونا کے ٹیسٹ کی کل تعداد 174160 ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کی آبادی بیس کروڑ سے زیادہ ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران ہم دو لاکھ لوگوں کا ہدف بھی ٹھیک سے مکمل نہیں کر پائے۔
پچھلے چوبیس گھنٹوں کے دوران کرونا کے 8249 ٹیسٹ ہوئے جن میں سے 358 نئے کیسز سامنے آئے اور 12 لوگ اس وبا کی وجہ سے موت کا شکار ہوئے۔
اب تک 4105 مریض کرونا کی وبا کو شکست دے کر اپنے گھروں میں منتقل ہو چکے ہیں جبکہ جاں بحق ہونے والوں کی کل تعداد 358 کے ہندسے کو چھو چکی ہے۔
اس وقت کرونا کی وبا سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد 16117 ہے۔
ان اعدادوشمار کی روشنی میں کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں حالات کنڑول میں ہیں؟؟؟
محکمہ صحت کی طرف سے سہولیات کی عدم فراہمی کی بنا پر کرونا کے ٹیسٹ کا مطلوبہ ہدف ابھی تک پورا نہیں کیا جا سکا۔ ان کوتاہیوں کا اصل ذمہ دار کون ہے؟؟؟
اتنے دن گزرنے کے باوجود ابھی تک صرف 174160 لوگوں کے ٹیسٹ ہوئے ہیں۔۔۔ ان گنتی کے اعدادوشمار کو دیکھتے ہوئے کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ملک بھر میں اس وبا سے حالات بگڑنے کا اندیشہ نہیں ہے۔۔۔؟؟؟

ٹی وی پر چلنے والی مصدقہ خبروں کے مطابق ہسپتالوں میں کرونا کے مریضوں کا فضلہ ضائع کرنے کے لیے کسی بھی قسم کی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ اس وبا کی وجہ سے میڈیکل  سٹاف بھی شدید بحران کا شکار ہے۔
“دی نیوز” اخبار کے مطابق ملک بھر میں کرونا سے متاثرہ میڈیکل  سٹاف (ڈاکٹروں اور نرسوں سمیت) میں 345 لوگ شامل ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جو ہسپتالوں میں کرونا کے مریضوں کا علاج کر رہے تھے لیکن اب یہ خود اس وبا کا شکار ہو کر علاج کے مرحلوں سے گزر رہے ہیں۔

گزشتہ دو دنوں سے شہر کی سرگرم انسانی حقوق کی کارکن “شیما کرمانی” کی طرف سے میڈیکل  سٹاف کی حمایت میں ایک پوسٹ سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے۔
اس پوسٹ میں حکام سے گزارش کی جا رہی ہے کہ
“ڈاکٹروں کو سلیوٹ نہیں ،کرونا سے بچاؤ کی حفاظتی کٹس فراہم کی جائیں”، یہ ایک طویل پوسٹ ہے جس کو یہاں پر بیان کرنا مناسب نہیں۔ البتہ اس پوسٹ کی کچھ سطریں میں یہاں نقل کر رہا ہوں؛

We need Suits, not salutes
We need Masks, Gloves, PPEs, not songs
We need Ventilators not flowers
We need Testing Kits not tributes

اطلاعات کے مطابق ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل  سٹاف میں شامل بہت سے لوگوں کو کرونا سے بچاؤ کی حفاظتی کٹس ابھی تک مہّیا نہیں کی جا سکی ہیں۔ اس بحرانی کیفیت میں میڈیکل کا عملہ ہی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر مریضوں کی نگہداشت میں مصروفِ عمل ہے۔ اگر یہی روش برقرار رہی تو آنے والے دنوں میں ہسپتالوں میں صرف مریض ہی نظر آئیں گے۔ آبادی کے لحاظ سے ملک بھر میں پہلے ہی ڈاکٹروں کی کمی ہے۔

ملک بھر میں اب تک تین ماہر ڈاکٹر اور ایک سینئر نرس کرونا کی مہلک وبا کا شکار ہو کر جاں بحق ہو چکے ہیں۔
سوشل میڈیا میں کچھ “معزز” لوگ اس خواہش کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ حکومت فوری طور پر ان ڈاکٹروں کے لیے “نشانِ حیدر” کا اعلان کرے۔۔۔
میرے نزدیک میڈیکل  سٹاف کے ورکرز کے لیے اس قسم کے ایوارڈ کا تقاضا  کرنا دانشمندی نہیں اور نہ ہی اس طرح کے بےمعنی ایوارڈز سے ایسے ماہر لوگوں کی قربانیوں کا مداوا ہو سکتا ہے۔ یہ ایک ناممکن سی بات ہے۔

ہمارے معزز لوگوں کو سوچنا چاہیے  کہ “نشانِ حیدر” بہادری کا نشان تو ہے، اس میں کوئی شک نہیں لیکن یہ روایتی اور تاریخی طور پر جنگوں سے منسوب ہے۔۔۔
اس لیے ہر امن پسند شہری کو اس طرح کی ڈیمانڈز سے اجتناب برتنا چاہیے۔ آخر کیوں یہ لوگ ہر معاملے کو سپاہ گرانہ طرزعمل کی بنیاد پر پرکھتے ہیں۔۔۔؟؟؟
کسی معزز انسان کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے بہت سے دوسرے طریقے بھی موجود ہیں۔ میرے خیال میں ہمیں اپنے معزز سویلینز کے لیے کسی بھی قسم کے جنگجوعانہ ایوارڈ کا تقاضا نہیں کرنا چاہیے۔

کیا ہمیں یک زبان ہو کر حکومتِ وقت سے اس خواہش کا اظہار نہیں کرنا چاہیے کہ
اب بہت ہو چکا بےتحاشا  پیسہ خونی جنگوں میں برباد۔۔۔
کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہم زیادہ سے زیادہ پیسہ عوامی فلاحی کاموں پر لگائیں۔۔۔
صحت و تعلیم کے بجٹ میں آبادی کے لحاظ سے اضافہ کر کے ملک بھر میں تعلیمی اور صحت کی لاغر صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے سوچ بچار کریں۔۔۔ یہ تمام چیزیں ممکن ہیں اور ان میں اتنا پیسہ بھی نہیں صَرف ہو گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

دفاع کے نام پر جدید اسلحہ اور دوسرے مہلک ہتھیاروں کی خریدوفروخت کے منصوبوں کو پس پشت ڈال کر کچھ دیر کے لیے اس ملک کے کروڑوں بھوک سے بلکتے بچوں کی طرف دیکھیے۔۔۔
کیا ان کروڑوں بچوں کی بھوک کو بیش قیمت اسلحے سے ختم کیا جا سکتا ہے۔۔۔ ان بچوں کی تعلیم اور صحت کی اوّلین ذمہ داری سے ریاست کب تک صرفِ نظر کر کے اسلحے کے انبار لگاتی رہے گی؟؟؟
آج کے نام اور
آج کے غم کے نام۔۔۔
ان دکھی ماؤں کے نام
رات میں جن کے بچے بلکتے ہیں اور
نیند کی مار کھائے ہوئے بازوؤں میں سنبھلتے نہیں
دکھ بتاتے نہیں۔۔۔
منتوں زاریوں سے بہلتے نہیں!!
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply