• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • شاہ حسین۔پنجاب کے ننگے فرش پر کھڑے ننگے پاؤں و بے چہرہ لوگ۔۔۔اسد مفتی

شاہ حسین۔پنجاب کے ننگے فرش پر کھڑے ننگے پاؤں و بے چہرہ لوگ۔۔۔اسد مفتی

جنرل ضیا ءالحق کے چل چلاؤ کا زمانہ تھا،فیض احمد فیض حسبِ معمول یورپ کا چکر لگانے،حسبِ سابق مرے گھر ایمسٹر ڈیم اٹرے،ایک رات ناؤ نوش کی محفل میں مادری زبان کا ذکر آگیا۔کہنے لگے۔۔
“میرا ایہہ یقین اے کہ ماں بولی دی ترقی ساڈی قوم وچ جمہوری مزاج ودھے گا تے بنیاد پرستی تے ناخواندگی ہولی ہولی ختم ہوسکدی ہے،ایس لئی ماں بولی دے کلاسیکل تے صوفی شاعر محبت،ایثار،بھائی چارہ تے انسانیت دی مڈھلی قدراں اُتے پکا یقین رکھدے نیں،سانوں اوہناں دے پیغام نوں اپنے کلچر دا حصہ بناؤنا چاہیدا اے”۔
فیض صاحب کے اس یقین کے بارے میں دو آرائیں ہوسکتی ہیں،کہ صوفیائے کرام نے اپنے پیغام کے ذریعے نا صرف برصغیر بلکہ دنیا بھر میں محبت،دوستی،اور بھائی چارے کو فروغ دیا ہے،ہمیں یعنی برصغیر کے باسیوں کو اچھے دوستانہ۔برادرانہ اور محبتانہ تعلقات کے لیے بلھے شاہ،وارث شاہ،سلطان باہو،اور حسین شاہ جیسے صوفیائے کرام سے راہنمائی حاصل کرنی چاہیے جنہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے برصغیر کے عوام میں محبت اور بھائی چارے کا پرچار کیا،ہمیں چاہیے کہ 21ویں صدی کو امن،دوستی رواداری اور بھائی چارے کی صدی بنا دیں،تو آئیے آج ان جذبوں کے ایک عظیم شاعر جسے مادھو لال حسین ڈاہڈا بادشاہ حسین کہتے ہیں کی داستان ِ حیات ے بارے میں کچھ سنیں،سنائیں،آبائی پیشہ بافتدگی،جس سے منسلک افراد کوبے خبر معاشر ہ کمی کمین جولاہے کہتا ہے،ذاتِ باری تعالیٰ کے جلالی و جمالی صفات کا مظہر،مجاز کے پردے میں حقیقت کا مینارہ نور،برصغیر میں ملامتیہ مسلک کا امام شاعر بے بدل،مقام فنا و بقا کی زندہ تشریح،محرم از زمان و مکاں،آیات قرآنی کی انوکھی اور عملی تشریح پیش کرنے والی وہ برگزیدہ ہستی جس کے حضور شاہ و گدا سرنگوں ہونا توشہ آخرت تصور کرتے تھے،مظاہر قدرت کی تاثیر بدل دینے والی صاحب تصور شخصیت دردِ لا دوا کی اکسیر دوا جس کے سامنے زمین کی طنابیں کھنچ گئیں اور فاصلے مٹ گئے،وہی شاہ حسین۔۔روایت ہے کہ بچپن ہی میں دریائے راوی کے کنارے اُن کی ملاقات خالقِ کائنات کی برہان،صراط مستقیم کی نشاندہی کرنے والے خضر علیہ السلام سے ہوگئی تھی،جب انہوں نے اس دس سال کے لڑکے سے اپنا تعارف کرایا تو یہ لڑکا وفورِ شوق سے ان کے قدموں میں گِر گیا۔خضر نے یک ہاتھ سے بچے کا سر اُٹھایااور دوسرے ہاستھ سے چلّو بھر پانی اس کے حلق میں ڈال دیا،منہ میں ٹپکائے ہوئے چند قطرے بچے کے حلق سے نیچے اُترے وہ کسی اور ہی عالم میں جاپہنچا،کیف و سرور کی ناقابلِ بیان کیفیت تھی،جس میں وہ ہلکورے لے رہا تھا،خاکِ زمین کی دبیز تہہ شیشے کی طرح شفاف ہوگئی،مروجّہ و غیر مروجّہ علمو کا سمند ر اس کے سینے میں موجزن ہوگیا۔
“حضور!یہ کیا ہورہا ہے؟”لڑکا اپنی کیفیت کا اظہار کیے بغیر نہ رہ سکا۔۔”یہ رازِ ربانی ہے،اسے عالمِ لدنی کہتے ہیں،یہی وہ عطا ہے جس کے بعد ہ علم کا انکشاف اور ہر عالم سے تعارف ہوجاتا ہے،تم عنقریب اپنی کیفیت پر قابو پا کر خاموش ہوجاؤ گے۔مالکِ کائنات تمہاری مشکالات آسان فرمائے۔”
یہ کہہ کر خضر غائب ہوگئے،اور لڑکے نے اپنی مشکلات پر قابو پالیا۔
یہ لڑکا جسے دس سال کی عمر میں خضر کی زیارت نصیب ہوئی،لاہور محلہ تلہ بگھ یا تل بھاگا کے رہنے والے عثمان باخند کا لختِ جگر حسین تھا،جس نے اپنے آپ کو بعد فخر حسین جولاہا کہا۔لوگ اُسے حسین ڈاہڈا یا شاہ حسین کہتے تھے،اپنی شاعری میں اس نے اپنے آپ کو حسین فقیر بھی کہا۔۔۔برصغیر میں وہ مادھولال حسین کے نام سے مشہور ہوا۔
سولہویں صدی کے پہلے نصف میں دریائے راوی کی گزر گاہ موجوہ رواں راستے سے قطعی مختلف تھی،یہ دریا لمبائی کے لحاظ سے مختصر سہی مگر اپنی گزر گاہ تبدیل کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا،بھارت کے صوبے ہماچل پردیش کے ضلع کانگڑہ میں “کلو”کے مقام سے نکلنے والا دریائے راوی،ریاست چمبہ میں سے گزرتا ہوا جموں کشمیر میں داخل ہوتا ہے،کہیں پاک و ہند کی سرحد کے ساتھ ساتھ سفر کرتا ہوا اور کہیں سرحدوں کو روندتا ہوا،پنجاب میں آنکلتا ہے،اپنے منبع سے 450کلو میٹر کا سفر طے کرنے کے بعداپنے آپ کو دریائے عشاق یعنی چناب کے حوالے کردیتا ہے۔
کہتے ہیں دریائے چناب کے پانی کا اثر کم از کم سات پشتوں تک جاتا ہے،اسی لیے اسے “چن آب”یعنی آبِ ماہتاب کہا جاتا ہے،اور اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے،کہ چاند ہی سمندروں میں طوفانوں کا اصل سبب ہیں،مدو جزر چاند ی کی بدولت ظہور پذیر ہورہا ہے،جس زمانے کا میں ذکر کررہا ہوں،تاریخ بتاتی ہے،کہ اس دور میں دریائے راوی کی گزر گاہ ٹیکسالی دروازے سے تھوڑے فاصلے پر تھی،محلہ تل بھاگا بادشاہی مسجد سے شروع ہوکر ٹیکسالی دروازہ،موہنجو داڑو،اور دربار داتا گنج بخش کی درمیان والی بستی کا نام تھا،جوگزرتے زمانے کے کیساتھ ساتھ لوگوں کے ذہنوں سے محو ہوچکا ہے۔عثمان بافندے کا مکان بادشاہی مسجد کی مغربی دیوار کے قریب تھا،اس مکان میں جس کا اب نشان مٹ چکا ہے،945ھ بمطابق 1538بروز جمعۃ المبار شاہ حسین اس عالم ِ کون ومکاں میں تشریف لائے،شعور کی آنکھ کھلتے یہ بچے کو محلے کی مسجد کا راستہ دکھادیا گیا،جو گھر سے تھوڑے ہی فاصلے پر تھی،اس مسجد کے امام عالمِ وقت حافظ ابو بکر بگھری تھے،جو محلے کے بچوں کو قرآنی تعلیمات سے آشنا کرتے تھے۔یہ مسجد آج بھی ٹیکسالی دروازے کے آغاز میں موجود ہے،یعنی رسوائے زمانہ یا مشہور زمانہ ہیرا منڈی کے آغاز میں یہ مسجد شاید اتمام حجت کے لیے بدستور قائم اورموجود ہے،اسی مسجدکے حجرے میں پنجابی ادب کی مشہور و معروف شخصیت استاد چراغ دین المعروف استاد دامن نے اپنی عمر عزیزکے 40سال گزاردیے۔اور بعد از مرگ شاہ حسین کے پڑوس میں دفن ہونے کی وصیت کرگیا،چنانچہ استاد دامن مرنے کے بعد بھی شاہ حسین کا گوانڈی رہا۔
شاہ حسین کے آباؤ اجدادہندو تھے،جو فیرز شاہ تغلق کے زمانے میں مشرف بہ اسلام ہوئے،یہ نومسلم خاندان بطور احترام شیخ کہلایا،ویسے شاہ حسین کے والد ماجد شیخ عثمان کا تعلق راجپوت گوت “کلرائے”سے تھا۔اور والدہ ماجدہ راجپوتوں کی شاخ ڈاہڈی یا ڈاہڈا سے تھیں۔خلاف دستور شاہ حسین اپنے باپ کی عرفیت کے بجائے والدہ کی نسبت سے حسین ڈاہڈا مشہور ہوئے۔
دارالشکوہ نے بھی ان کو حسین ڈاہڈا ہی لکھا ہے،مگر طرزِ تحریر سے صاف عیاں ہوتا ہے کہ دارالشکوہ نے شاہ حسین کی جلالی کیفیت سے متاثر ہوکر حسین کے ساتھ ڈاہڈا کا لاحقہ استعمال کیا ہے۔کہ پنجابی زبان میں ڈاہڈا بمعنی کیفیت سخت مزاج اور تند خُو مستعمل ہے۔شیخ عثمان کا پیشہ بافندگی تھا۔اس طرح شاہ حسین اپنے آپ کو حسین جولاہا کہاکرتے تھے۔
اپنے نظریے سے وابستگی رکھنے والا عظیم جولاہا!

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply