اک بے آسرا مسافر کی پکار۔۔محمد سعید

ہو سکتا ہے میرا تجزیہ سو فیصد غلط فہمی پہ مبنی ہی ہو لیکن نجانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ ہماری چلتی ہوئی گاڑی کو ان ہزاروں بے کس،مجبور اور لاچار مسافروں کی آہیں،بددعائیں لے ڈوبیں، جو ہفتہ دس دن پہلے ایڈوانس ریزرویشن کے چکر میں باقاعدگی سے پوری رقم کی ادائیگی کے ذریعے نا صرف ایماندار ذمہ دار شہری ہونے کا فرض ادا کرتے بلکہ محکمہ ریلوے کے ریوینیو میں بھی اپنی شمولیت یقینی بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں،لیکن بدلے میں ریلوے ان کے ساتھ کیا سلوک کرتاہے کہ جب مقررہ وقت پر وہ اپنی مطلوبہ ٹرین میں سفر کے لئے پلیٹ فارم پر پہنچتے ہیں تو معلوم پڑتا کہ ان کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی سفر کریں گے جن کے پاس ٹکٹ تک نہیں۔۔۔۔۔۔اب یہ گھس بیٹھیے قسم کے لوگ ٹرین رکتے ہی ہلہ بول کر جا چڑھتے ہیں اور جو خالی سیٹ،برتھ ملتی ہے قبضہ کر بیٹھتے ہیں۔ایسا بارہا اکانومی کلاس کی کوچز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ 78 لوگوں کی گنجائش والی مسافر کوچ میں دو ڈھائی سو افراد ایک دوسرے میں پھنس پھنس کر سفر کر رہے ہیں۔اب اندر مسافر باہم دست و گریباں ہیں ریزرویشن والے پریشان حال قابضین کی طرف بے بسی کے عالم میں دیکھ رہےہیں کہ اتنا طویل سفر کیسے طے ہوگا۔۔ مسافروں کی اس مشکل کو آسان کرنے کے لئے ملاحظہ فرمائیں ہمارے پاس دستیاب شاہکار وسائل کیا ہیں۔۔ایک یا دو ٹکٹ چیکر اور ریزرویشن دینے والے گارڈ صاحب اور کسی بھی قانونی پیچیدگی سے نمٹنے کے لئے دو یا تین پولیس اہلکار اور یہ سب بوقتِ ضرورت ایسے ہی غائب ہوتے ہیں جیسا کہ غائب ہونے کا حق ہوتا ہے۔

اب آپ خود اندازہ لگا لیجیے ہمارے بلند بانگ دعوؤں کا۔۔۔ایک ٹرین میں پندرہ سے اٹھارہ مسافر کوچز اور ان میں سفر کرنے والے بغیر ٹکٹ سفر کرنے والوں کو پکڑنے،ٹکٹ چیک کرنے والے محض چند ایک۔۔
مطلب ہمارا بھولا بھالا محکمہ اب بھی یہی سمجھتا ہے کہ اٹھارہ کوچز میں سفر کرنے والے بغیر ٹکٹ مسافر انتہائی شریف اور ایماندار ہوتے ہیں۔جیسے ہی ٹکٹ چیکر چیکنگ کے لئے ٹرین میں داخل ہوتے ہیں،یہ خود ہی دست بستہ پیش ہو جاتے ہیں کہ جناب ہماری ٹکٹ بنا دیں،باقی بچ جانے والے خوف سے تھر تھر کانپنے لگتے ہیں،انکا رنگ پیلا زرد پڑ جاتاہے اور دو منٹ کے اندر اندر ہمارے سپر مین ہیرو چیکنگ سٹاف فوراً پکڑ لیتا ہے اور آنا فانا بھاری جرمانے کے ساتھ ٹکٹ بنا کر یہ جا وہ جا۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ ہمیں بدلنا ہے جس سےبد قسمتی کے ساتھ ہم گزشتہ کئی سالوں سے جان بوجھ کر پہلو تہی کر رہے ہیں۔
ہم یہ دعویٰ تو بڑے زور شور سے کررہے ہیں کہ دو لاکھ کے قریب ٹرینز میں سفر کر رہے ہیں لیکن وہ کس حال میں سفر کر رہے یہ کوئی نہیں دیکھتا۔
المیہ یہ ہے کہ ذمہ داران نا تو خود اور نا ہی انکے فیملی ممبرز اکانومی کلاس میں سفر کرنے کی زحمت گوارا کرتے ہیں،لہذا ان کے لئے سب اچھا ہے کہنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی۔
ان تمام باتوں کو تحریر کرنے کا ایک ہی مقصد ہے کہ خدارا ایسا نظام وضع کیجیے جس میں ایک ایڈوانس سفر کرنے والے مسافر کو کم از کم سو فیصد یقین ہو کہ پاکستان ریلویز کی جانب سے آرام دہ سفر کی سہولت سے مستفید کیا جائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ میری نہیں بلکہ آپ کی گزارشات  ہیں ،انہیں صرف یہ سمجھ کر ذمہ داران تک پہنچانے کی کوشش کیجیے کہ ایسا آپ کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے اور میں اس سے بچنے کے لئے اپنے حق کے لئے آواز اٹھا رہا ہوں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply