مسلمان کا سجدہ۔۔روبینہ فیصل

لعنت،کم علم، کم فہم،بند عقل، ذلیل، گھٹیا۔۔یہ سب وہ الفاظ ہیں جو لغت ِ خادمیہ (گو سب سے معصوم ہیں) میں سے ہو تے ہو تے ہم سب کی زندگیوں میں کچھ یوں داخل ہو گئے ہیں کہ” خبر ہی نہ ہوئی تیرے آنے کی۔۔کے مصداق۔جب ہم اپنی بحث یا اپنے کمنٹس میں ان الفاظ کو بول یا لکھ دیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم جو سوچ رہے ہیں وہی سو فی صد ٹھیک ہے اور جو دوسرا کہہ رہا ہے وہ کم علم ہے اور اس کا دماغ بند ہے۔پھر ہم اپنی دلیل کے آخر یا شروع میں اگر مقابل کے منہ پر لعنت ڈال دیتے ہیں (کبھی اعلانیہ اور کبھی پیٹھ پیچھے اور کبھی دل ہی دل میں) تو بس پھر توبات ہی ختم ہو گئی۔ صاحب الرائے ہونا اچھی بات ہے،مگر اپنے آپ کو عقل ِ کل سمجھنا بری بات ہے دوسروں کی رائے سے اختلاف اچھی بات ہے مگر اس بنا پر ان پر لعنت ڈالنا بری بات ہے۔
دنیا دو رنگوں میں بٹ گئی ہے۔ کالا یا گورا مگرجو رنگساز ہوتا ہے وہ ان دو رنگوں کو ملا کر سرمئی رنگ بنا دیتا ہے۔ ہم میں آج رنگساز کم ہو تے جا رہے ہیں بلکہ نہ ہونے کے برابر۔۔ چھوٹی چھوٹی کچھ مثالیں پیش کرتی ہوں۔

عمران خان پسند نہیں تو وہ کبھی کوئی اچھا کام نہیں کرسکتا، اگر اچھا کام نظر بھی آجائے تو یا تو اسے نظر انداز کرو اور یا اگربغض کا پیمانہ زیادہ چڑھا ہوا ہے تو اچھائی میں بھی کیڑے ڈال دو ۔ نواز شریف پسند ہے تو اس میں کوئی برائی نظر نہیں آسکتی اگر نظر آبھی جائے تو یا تو اس سے چشم پوشی کر لو اور اگر محبت کا پیمانہ زیادہ ہی چھلکا جاتا ہے تو اس برائی کو بھی اچھائی میں تبدیل کر دو۔محبت، وفا اور نفرت،بغض کو انہی دونوں سیاستدانوں پر الٹا پلٹا کر دیکھ لیں۔۔جسے انگریزی میں کہتے ہیں vice versa is also true۔

دوسری مثال ماروی سرمد اور خلیل  الرحمن قمر کی لے لیتے ہیں جس کو ماوری کی کسی بات سے اختلاف ہے، اس کا عورتوں کے حقوق کی آواز اٹھانے والے کیمپ سے خروج اور خلیل قمر کیمپ میں دخول خود بخود ہو جا تا ہے۔دیکھتے ہی دیکھتے ماروی سرمد عورت کے حقوق کی علامت بن گئیں اور خلیل قمر اسلامی شریعت کے نگہبان۔۔ آپ خلیل قمر کو کچھ کہہ دیں گے تو آپ دائرہ اسلام سے باہر۔
“مار۔۔ وی” کے درمیان سپیس آنے لگی، اور مار میں سے” الف “غائب ہو نے لگا۔۔ یوں وہ “مر وی ” بن گئی۔۔اور خلیل کے دشمنوں نے بھی “خ “، ہٹا کر” ذ” لگانی شروع کر دی۔

چند وکیلوں اور ڈاکٹروں کی آپس کی مار کٹائی اور اختلافات کو ایسا عروج ملا کہ وکالت اور طب کے پیشے قبل از مسیح سے بھی پہلے کے دنوں سے آکر ایک دوسرے کے مقابل آکھڑے ہو ئے۔۔ تم وکیل کے ساتھ ہو تو ڈاکٹر کے دشمن ہو۔وکیل کے دشمن ہو تو ڈاکٹر کے دوست ہو۔۔۔ پہلوانوں کے دو رِ نگ دیکھتے ہی دیکھتے تیار ہو گئے۔

دو دھڑوں کی چوتھی حالیہ مثال” مولانا طارق جمیل بمقابلہ صحافی “۔۔صحافیوں کی مد میں تمام اچھے بُرے صحافی تو چھوٹی بات،مولانا جوہر کے زمانے سے صحافت کا تقدس زیر بحث آچکا ہے۔۔ آپ چند صحافیوں کے لفافے کی بات کریں گے تو آپ صحافت کے پیشے کی تضحیک کرنے کے مرتکب پائے جائیں گے۔اور دوسر رِ نگ اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے کہ اب “صحافت بمقابلہ اسلام “ہے اور اسلام کے “نمائندوں ” کی کسی ایک بھی بات سے آپ اختلاف کی جرات کریں گے تو مطعون اور جہنمی قرار دئیے جائیں گے اور زیادہ زبان درازی دکھائی تو کوئی بھی مذہبی نقطہ نکال کر نہ صرف آپ کو دائرہ اسلام سے نکال دیا جائے گا بلکہ قتل کا فتویٰ بھی لگ سکتا ہے۔۔

یوں لگتا ہے سیاست، صحافت، مذہب، سماجیات۔یہ سب موضوع نہیں بلکہ ریسلنگ کے اکھاڑے ہیں جس میں کودنے والے کو بس جیتنے کی فکر ہو تی ہے یا فٹ بال کا میچ ہے کہ جیتنے کے لئے گیند اپنے ہی کھلاڑی کی طرف پھینکنا ضروری ہے، گیند دوسری ٹیم کے ہاتھ لگی تو وہ اپنی طرف گول کر دے گا۔۔زندگی کے مسائل یا موضوعات نہ توکشتی کا اکھاڑہ ہے کہ مخالف کو چاروں شانے چت ہی کرنا ہے اور نہ فٹ بال کا میچ کہ اپنے ہی کپتان کو یا کھلاڑی کو سپورٹ کرنا ہے اور مخالف کو ہرانا ہی ہرانا ہے، ایسی پولرائزیشن کھیلوں میں ہی اچھی لگتی ہے۔زندگی کھیل نہیں ہے۔ اور نہ انسان،”خدا “ہے کہ وہ مکمل ہی ہو گا۔

اس شور شرابے میں چپکے سے رنگساز بن جائیں، کالے اور گورے رنگ کو ملا لیں۔ سرمئی رنگ، خوبصورت بھی ہے اور چونکہ دونوں رنگوں کو خود میں جذب کر کے بنتا ہے اس لئے درویش صفت ہے۔ انا اور بت پرستی کو ختم کریں۔ سجدے میں جانے سے پہلے خود سے پو چھیں کہ کیا میں صرف رب کو ہی سجدہ کرتا ہوں؟ یہ سوال ضروری ہے کیونکہ خدا کو سجدہ کرنے والا نہ خود کو سجدہ کرسکتا ہے نہ کسی اور دنیاوی شخصیت کو۔۔ (اندھی حمایت بھی ایک سجدہ ہے)

Advertisements
julia rana solicitors london

اسلام کا پہلا تقاضا ہی یہی ہے کہ رب کی ذات لا شریک ہے۔۔جب تک ہم ان چھوٹے چھوٹے سجدوں سے خود کو نہیں روکیں گے ہم اسلام کی روح کو سمجھ ہی نہیں پائیں گے۔چاہے لاکھ سجدے کر لیں لاکھ روزے رکھ لیں لاکھ حج ادا کر لیں۔۔ہم خدا کے ساتھ شرک کا عمل جاری رکھتے ہو ئے کبھی بھی” مسلمان “نہیں ہو سکتے۔

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply