• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • ساٹھ کی دہائی کی کچھ یادیں۔جدیدیت کی افرا تفری۔۔۔ستیہ پال آنند

ساٹھ کی دہائی کی کچھ یادیں۔جدیدیت کی افرا تفری۔۔۔ستیہ پال آنند

۱۹۵۶ کے لگ بھگ میں بھی کچھ برسوں کے لیے جدیدیت کے ریلے میں بہہ گیا تھا ، میں نے بھی ایک نظم لکھی تھی ۔ میں نے جب اسے کناٹ پلاس میں کافی ہاؤس میں پڑھا، تو سریندر پرکاش جسے ہمیشہ مجھ سے یہ پُرخاش رہتی تھی ،کہ میں اسے” میٹرک پاس اَن پڑھ” سمجھتا تھا، چپکے سے ایک دوست کو ہاتھ پکڑ کر باہر لے گیا ۔وہاں جا کر جو بات اس نے کہی وہ بجنسہ مجھے ایک دوسرے دوست نے سنائی۔ “یہ شمع اور بیسویں صدی کا افسانہ نگار اب انجمن ترقی پسند مصنفین میں ادبی عہدوں کی بندر بانٹ میں پیچھے رہ جانے کی وجہ سے ان کا ساتھ چھوڑ کر بطور شاعر اپنا حق ہم جدیدیت پسندوں کی صفوں میں قائم کرنا چاہتا ہے “۔

یہ نظم شاید کہیں شائع بھی ہوئی،لیکن اس کی اہمیت آج اس لیے نظر آ رہی ہے، کہ میں نے یہ نظم دہلی کے کناٹ پلیس ٹی ہاؤس کے احباب کو سنائی تھی ۔ گھر سے کچھ نکتے ان کو گوش گزار کرنے کے لیے لکھ کر لے گیا تھا۔ انہیں جتانا تھا کہ انگریزی کا پروفیسر ہونے کے ناطے سے میں جدید شاعری کی لیبارٹری (تجربہ گاہ) میں اناڑی نہیں ہوں۔لیکن اصل مقصد ان لوگوں کو اپنی اصلیت جانچنے کے لیے ایک موقع دینا تھا اور یہ کرتے ہوئے زہر خند کی شکل میں ان سے خراج بٹورنا تھا۔ نظم یہ تھی۔

دھوئیں کی چادر کے گرم گھونگھٹ
سے چہرہ ڈھانپے ہوئے جو درویش
صبح کی برف بستہ سانسوں سے
وقت کے دُود گوں سگاروں
کو جرعہ در جرعہ پی رہے ہیں
پرانے قلعے کے گول گنبد میں فرش پربیٹھے
کھانستےہیں
کسی کبوتر کی دفعتاً
پھڑپھڑاتی آواز کی طرح سے
تنی ہوئی ان کی ساری حسیات
ر رفتہ رفتہ
دھوئیں کی مانند اڑ رہی ہیں۔

ذرا بتائیں تو کافکا جی،
یہ زندگی کا حصول ہے یا ضیاع ہے، کوئی کیسے سمجھے؟
اگر ’’نہ ہونے کے اور ’’ہونے ‘‘ کے
دونوں رستے ہی بند ہوں تو
یہیں کی اب بود و باش ہو گی؟
کہ اب ادب کے پرانے قلعے کا گول گنبد
لپٹ کے خود میں
سرنگ کی شکل بن گیا ہے۔

ندامت کس چڑیا کا نام ہے ان کافی ہاؤس انٹلیکچوئلز نے سیکھا ہی نہیں تھا۔ ایک نے کہا، بہت خوبصورت نظم ہے، لیکن آخر میں کافکا کو کیوں لایا گیا ہے؟ دوسرے نے کہا، اگر لانا بھی تھا، تو ’’کافکا جی‘‘ کہنے کی کیا ضرورت تھی؟ ایک اور صاحب اپنے پنجابی لہجے میں بولے ، ’’ آہو جی، انگریزی کے پروفیسر نے اپنا رعب جو گانٹھنا ہوا ۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

قصہ کوتاہ یہ کہ اردو میں جدیدیت کے نام لیوا دہلی کے ان شعرا، افسانہ نگاروں اور نقادوں کو (مین راؔ کو چھوڑ کر) کچھ ناموں کا علم ضرور تھا ، لیکن اگر ان سے یہ پوچھ لیا جاتا کہ سوسیئر ؔکس ملک میں اور کس صدی میں پید ا ہوا تھا ، اس کی مادری زبان کیا تھی اور اس کی کتاب یا کتابیں کب چھپی تھیں، تو وہ بغلیں جھانکتے رہ جاتے یا بیک زبان کہتے، ارے یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے۔جدید لسانی تنقید کی بنیاد اگر اس نے رکھی ہے تو اتنا تو آپ کو علم ہونا ہی چاہیے کہ اسی صدی، یعنی بیسویں صدی کے وسط میں ہی اس کی سب کتابیں چھپ گئی تھیں۔اب اگر کوئی مجھ جیسا منہ پھٹ اِن گنواروں کو یہ بتا بھی دیتا تو وہ صرف کندھے جھٹک کر رہ جاتے ۔ ان کے لیے اس امر کا جاننا ضروری نہیں تھا کہ سوسئیرؔ انیسویں صدی کے وسط میں ، یعنی 1857 میں پیدا ہوا تھا، اور یہ کہ اس کی کتاب A Course in General Linguistics اس کے کلاس روم لیکچروں کے تیار کردہ notes کا وہ مجموعہ ہے جو اس کے شاگردوں نے اس کی موت کے تین برس بعد یعنی 1916میں بسیار محنت سے ترتیب دے کر شائع کیا، اور یہ کہ اگر اسے جدید لسانیات کے علم کی شاہراہ پر ایک میل پتھر کی نہیں، بلکہ ایک یادگاری ستون کی حیثیت دی جائے تو غلط نہیں ہو گا۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply