• صفحہ اول
  • /
  • مشق سخن
  • /
  • کدی خیل یوتھ ویلفئر آرگنائزیشن کے لئے چند تجاویز۔۔محمد حسین آزاد

کدی خیل یوتھ ویلفئر آرگنائزیشن کے لئے چند تجاویز۔۔محمد حسین آزاد

درہ کدی خیل خیبر پختونخوا کے شمالی علاقہ جات دیر بالا میں’ نہاگ درہ اور عشیرئی درہ کے درمیان میں ایک خوبصورت اور سرسبز علاقہ ہے۔نہاگ درہ’ عشیرئی اور کارو درہ اور یہاں پر دوسرے دروں کی نسبت کدی خیل کی آبادی اور رقبہ بہت کم ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یہاں کا زیادہ تر علاقہ سرسبز اور گھنے جنگلات پر مشتمل ہے۔یہاں کی آبادی ہزاروں میں ہے لیکن وہ علاقہ جہاں پر لوگ رہتے ہیں’ کافی محدود ہے۔ یہ درہ دس سے زیادہ گاؤں پر مشتمل ہے۔ اس علاقے میں   دو مرکزی   سڑکیں ہیں جن کا  مجموعی فاصلہ پندرہ کلومیٹر کے لگ بھگ ہے۔ یہاں پر ایک بی ایچ یو ہسپتال ہے جس کا  یہاں کے دس فیصد لوگوں کو بھی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ کدی خیل میں لڑکوں کے لئے پانچ پرائمری سکول ہیں۔ زیادہ تر گاؤں مثلا جئے بالا’ جوغابنج بالا وغیرہ میں سکول نہ ہونے کی  وجہ سے اکثر بچے سکول نہیں جاتے۔

درہ کدی خیل میں لڑکیوں کے لئے صرف ایک پرائمری سکول ہے، باقی پورے علاقے میں لڑکیوں کی تعلیم کا کوئی تصور نہیں ہے۔ 80 کی دہائی میں کدی خیل کے مشران نے ایک سڑک بنائی جو آج بھی آمدورفت کے لئے استعمال ہوتی ہے۔لیکن آج تک وہ سڑک ویسی  ہی ہے جیسی انہوں نے بنائی  تھی ۔ یہاں پر تمام سکولز بھی سن 2000 سے پہلے بنائے گئے ہیں صرف ایک مڈل سکول کو پچھلی حکومت میں اپ گریڈکرکے ہائی  سکول کا درجہ دیا ہے۔ یہاں پر ہم کسی پر انگلی نہیں اٹھانا چاہتے لیکن یہاں کے رہنے والے سب لوگوں کو کچھ لمحے کے لئے اپنے گریبان میں جھانکتے ہوئے ضرور سوچنا چاہیے کہ ان بیس سالوں میں ہم نے جتنی بھی سیاست کی’ اپنے علاقے کو کچھ نہیں دے سکے اور سب کے سب منتخب کردہ نمائندوں نے ہمیشہ کے لئے ہمیں بے وقوف بنانے کی کوشش کی ہے۔ اور دھوکہ دینے کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ علاقہ اسی طرح پیچھے رہ گیا۔ اسی وجہ سے یہاں سے زیادہ لوگوں نے مختلف شہروں میں ہجرت کی۔

قارئین! تعلیمی’ معاشی اور معاشرتی پسماندگی کے باوجود یہاں کے بہت سے محنتی اور باہمت نوجوانوں نے اعلیٰ  تعلیم حاصل کرلی ہے، اور اپنے علاقے کے لئے بہت اچھی سوچ اور فکر رکھتے ہیں۔کدی خیل کے نوجوانوں نے 2009 میں”کدی خیل یوتھ ویلفئر آرگنائزیشن” کے نام سے ایک تنظیم بنائی۔ اس تنظیم کے بانی کارکنان میں پروفیسر محمد عالم صاحب(جو اس وقت یونیورسٹی کے طالب علم تھے)’ انجینئر حسن ولی خان’ بخت شاہ زیب صاحب’ نوید عالم’خالد حسین’ ایڈوکیٹ جان افسر پائندہ خیل و دیگر شامل ہیں۔ اس تنظیم کا مقصد یہاں کے لوگوں میں تعلیم کی ضرورت و اہمیت بارے   آگاہی پیدا کرنا اور طلبہ کی حوصلہ افزائی کرنا  ہے،تاکہ وہ اپنی تعلیم مکمل کرکے کدی خیل کی خدمت کریں۔اس تنظیم کا مقصد یہ بھی تھا کہ وہ  غریبوں و مسکینوں کی ہر طرح   مدد کرسکیں ۔ بہت سالوں تک اس تنظیم کے نوجوانان نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں  اور یہاں کے طلبہ کی حوصلہ افزائی کرتے رہے ۔ یہ ہر سال سکولوں میں پوزیشن ہولڈر  بچوں میں انعامات تقسیم کرتے جس سے دوسرے طلبہ بھی تعلیم کی طرف مائل ہوجاتے۔اور علاقے کے دوسرے مسائل کو حل کرنے کی بھی کوشش کرتے۔ بانی کارکنان کی زیادہ مصروفیات اور مجبوریوں کی وجہ سے اس تنظیم کی فلاحی سرگرمیاں چند سال سے رک گئی تھیں ، اس وجہ سے لوگ ان پر تنقید بھی کر رہے تھے۔اس لئے یہاں کے انرجیٹک اور بہادر نوجوانوں نے فیصلہ کیا کہ کدی خیل یوتھ ویلفئر آرگنائزیشن کو ری آرگنائز کر کے صحیح معنوں میں علاقے کی خدمت کی جائے۔ اس لئے 13 اپریل کو کدی خیل یوتھ ویلفئر آرگنائزیشن کی میٹنگ انجینئر حسن ولی خان کی صدارت میں منعقد ہوئی اور اس کی مکمل تنظیم نو کی گئی۔تنظیم کے سابقہ صدر حسن ولی خان نے ذاتی مصروفیات کی بنا پر اپنے عہدے سے استعفی دیا اور ایک ممبر کی حیثیت سے تنظیم کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کا عزم کیا۔ نئی منتخب کردہ عہدیداران میں حسن محمد صدر’ انجینئر محمد ادریس جنرل سیکرٹری’ افتاب احمد خان سینئر نائب صدر’مولانا امیر حاتم نائب صدر’ علی زادہ فنانس سیکرٹری’ طاہر شاہ ڈپٹی جنرل سیکرٹری’ صفی اللہ نائب صدر ‘ محمد حسین پریس سیکرٹری ‘علی احمد خان انفارمیشن سیکرٹری منتخب ہوگئے۔ سب ممبران و عہدیداران نے یہ عہد کیا کہ ضرورت مندوں کی خدمت کرنے کے لئے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ اور اس تنظیم کے ذریعے کدی خیل کے سارے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کے وائی ڈبلیو او کے نوجوانوں کو چاہیے کہ صحیح معنوں میں ہر فورم پر اپنے علاقے کی نمائندگی کرے۔ اس کرونا وائرس کی وبا اور لاک ڈاؤن میں یہاں کے متاثرین کے لئےخوراک کا  سامان اور دیگر ضروریات کو پوری کرنے کا بندوبست کرے۔ مستقل طور پر یہاں کے  سب یتیم اور بیواؤں کے لئے خاص وظیفہ مقرر کیا جائے۔ جیسا اوپر ذکر ہوا کہ کدی خیل کا رقبہ اتنا زیادہ نہیں جہاں پر لوگ زندگی بسر کرتے ہیں’ اس لئے اس وبا کے خاتمے کے بعد کے وائی ڈبلیو او کو کدی خیل کے تعلیم اور انفرا سٹرکچر پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ کم از کم ہر گاؤں میں ایک لڑکوں اور   ایک لڑکیوں کا پرائمری سکول بنانا چاہیے۔سڑکیں اور گلیاں خوبصورت بنانے’ اور سب سے بڑھ کر کدی خیل کے خوبصورت جنگلوں کو خاص کر کدی خیل ٹاپ(ڈنڈہ) کو صوبے کے ٹورازم سپاٹس میں شامل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر چہ یہ کامیں کسی فلاحی تنظیم کی نہیں’ منتخب کردہ نمائندوں کی ہوتی ہیں لیکن انہوں نے ہمیں دہائیوں سے تاریکیوں میں رکھ کر ہمارا استحصال کیا ہے لہذا ہم نے اپنے آنے والی  نسلوں کو اسی طرح تاریکیوں میں اسی طرح پسماندہ نہیں رکھنا چاہیے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ کے وائی ڈبلیو او کے صدر حسن محمد خان اور دوسرے نوجوانوں کو بلا امتیاز اور پورے خلوص کے ساتھ علاقے کی  فلاح و بہبود کے لئے کام کرنا چاہیے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply