کبھی آپ نے سوچا ہے کہ پیرا سٹا مول کی چند گولیا ں خریدنے کے لئے آپ کو دس بارہ کلومیٹر کا سفر پیدل طےکرنا پڑے لیکن یقین پھر بھی نہ ہو کہ وہاں سے دوائی ملے گی بھی یا نہیں ۔ اور جب آپ تھکا دینے والا سفر کرکے مطلوبہ جگہ پہنچیں اورقسمت یاوری نہ کرے ۔ خالی ہاتھ لوٹنا پڑے تو بوجھل قدم کیسے آپ کا ساتھ دیں گے۔ مریض کو واپس جا کر کون سا دلاسہ دے پائیں گے۔
جی ہاں آج بھی اس کرّہ ارض کے بعض ایسے حصے ہیں جہاں لوگ دنیا کی تمام تر ترقیات سے ماوراء ایسی زندگی جینے پر مجبو رہیں ۔بیماری کی صورت میں ان کی واحد امید نسل در نسل چلتے آرہے دیسی علاج ہی ہوتے ہیں ۔ کام کر جائے تو ٹھیک ورنہ کام تمام تو ہونا ہی ہے۔
ملیریا ہو، ٹائیفائیڈ آئے، ایبولا ہو کہ کورونا ۔۔ ان کے لئے اپنے دیسی علاج اوّلین ترجیح ہیں ۔ اس غیر متوازن دنیا میں وہ اعتبار کریں بھی تو کس کا کریں ،کہ معلوم ہی نہیں پڑتا کہ صحت کے شعبے میں مدد کے نام پر آنے والی دوائیں واقعی مدد کے لئے ہیں یا ہیومن لیباٹری ٹیسٹ کے لئے بھیجی گئی ہیں ۔ جہاں تک کچھ دوا دارو پہنچ جاتا ہے صبر شکر کر کے لے لیتے ہیں ۔ اگر نہیں پہنچ پاتا تو اللہ کی رضا سمجھ کر دفنا دیتے ہیں ۔
حالیہ وبا نے جہاں بڑے بڑوں کے چھکے چھڑا دیئے ہیں وہاں افریقہ کے،ہر حال میں الحمد اللہ کہنے والے ،باشندے مست ہیں۔ انہیں پتا ہے کہ جو دوا سال ڈیڑھ سال میں بننی ہے اسے ہمارے تک پہنچنے میں نامعلوم کتنے سال لگیں گے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ اہل افریقہ کی بڑی تعداد موجودہ کورونا وائرس کا علاج بھی اپنے طریقے سے تلاش کرنے میں لگی ہے ۔ افریقہ کے دیسی حکیموں کا خیال ہے کہ جو علامات کرونا وائرس کی ہیں اس سے ملتی جلتی علامات کا علاج ہم روز مرہ زندگی میں دیسی دوائیوں سے کرتے ہیں ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اس وائرس کا علاج ان دوائیوں سے نہ ہو سکے۔ مقامی طور پر ملیریا اور دیگر مقامی بیماریوں کے علاج کے لئے استعمال ہونے والی اشیاء میں نیم کے پتے ، پپیتہ اور اس کے پتے ، Artimicia کا پودا اور Kongo bololoکے علاوہ اور بہت ساری جڑی بوٹیاں استعمال ہوتی ہیں۔ بہت حد تک غریب علاقوں میں صدیوں سے چلتے آرہے یہ روایتی علاج واحد امید کی کرن ہیں۔
جب سے کورونا ئرس کی وبا شروع ہوئی ہے دیسی اور روایتی حکیم اس کا علا ج بھی انہی دوائیوں میں بتا کر عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں مگن ہیں ۔ اس وقت افریقہ کے بیشتر ممالک کے بازاروں میں نول کورونا وائرس کے قسم ہا قسم کے دیسی علاج موجو دہیں ۔ ہر کوئی اپنی دوکان سجائے بیٹھا ہے اور کورونا کا شرطیہ علاج کرنے کی نوید سناتا ہے۔
ڈگاسکر مشرقی افریقہ ک ے جزیرے پر مشتمل چھوٹا سا ملک ہے۔ اس کے صدر مملکت نےمقامی ٹی وی پر ایک پروگروم میں کہا کہ ان کے ماہرین نے کورونا وائرس کے علاج کی دیسی دوائی بنا لی ہے۔انہوں نے نہ صرف اس دوا کی تشہیر کی ہے بلکہ سکول جانے والے سب بچوں کو پابند کیا ہے کہ وہ اس ٹانک کے گھونٹ وقفے وقفے سے لیتے رہیں ۔ تاہم ان کے اعلان کے بعد عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ یہ دوا کورونا کے لئے مؤثر ہے ۔
اس دوا کے اجزا میں افریقہ میں پایا جانے والا پودا Artemisia اور بعض دیگر جڑی بوٹیاں استعمال کی گئی ہیں ۔Artemisia کے پودے سے ملیریا کی دوائی بنتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر کہتے ہیں کہ کورونا کے علاج کے لئے کوئی شارٹ کٹ موجو دنہیں ہے ۔ عالمی سطح پر اس کی ویکسن بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔
بعد ازاں ایک ٹویٹ کے ذریعہ صدر نے کہا کہ بے شک ہمیں دوا کے استعمال کے لئے عالمی ادارہ صحت کی منظوری حاصل نہیں لیکن ہمیں خوشی ہے کہ دیگر ہمسایہ ممالک ہماری کوشش کو سراہتے ہوئے ہماری حوصلہ افزائی کررہے ہیں انہوں نےخاص طور پر عوامی جمہوریہ کونگو کے صدر کا شکریہ اد اکیا جنہوں نے ان کے اس اقدام کی تعریف کی ہے۔
ہو سکتا ہے ان کی دوا کام کر جائے اور ممکن ہے فائدہ مند ثابت نہ ہو ۔تاہم جس اعتماد کے ساتھ وہ اسے پیش کررہے ہیں ا س سے یہ ظاہر ہے کہ وہ اپنے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ اور اپنی سی کوشش ضرور کر رہے ہیں ۔
آج ہر کوئی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے ۔ اس بحران کے پار نکل کر جو کھڑے ہوں گے وہی مڑ کر دیکھ پائیں گے کہ کتنے جواں مرد ثابت قدم رہے باقی تاریخ کے بے رحم تھپیڑوں کی نذر ہو چکے ہوں گے۔ اس کورونا وائرس نے جو سب سے بڑی بات اب تک انسان کو سمجھا دی ہے وہ یہی ہے کہ حکمرانی ایسے نہیں کی جانی چاہئے جیسے کی جارہی تھی۔ دنیا ایسے نہیں چل سکتی جیسے چلائی جارہی تھی ۔ یہ وبا حکمرانوں اور حکمرانی دونوں کی اوقات ضرور دکھا کرجائے گی ۔
Facebook Comments
ذہنی جمود کا شکار جمورے۔
عبادت سے انسان کی روح کو تسکین ملتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ انسان جب بھی تکلیف دہ اور مشکل حالات کا شکار ہوا ہے تب تب اس نے اپنے رب کی طرف رجوع کیا ہے۔ عبادت ہی وہ واحد ذریعہ ہے جوبندے کاتعلق اپنے خالق سے جوڑے رکھتی ہے۔اسلامی عبادات میں نماز کو ایک اہم اور بنیادی مقام حاصل ہے ۔ نماز کودین کا ستون اور دل کا سکون بھی کہا جاتا ہے۔ اسی طرح باجماعت نماز کی بھی اپنی ایک خاص اہمیت ہے۔ باجماعت نماز کا ثواب اکیلے میں نماز پڑھنے سے کٸیں گنا زیادہ ہے۔ موجودہ عالمی وبا کے تناظرمیں جہاں اور بہت سارے مسئلے مسائل نے جنم لیا ہے وہیں ایک مسئلہ باجماعت نماز کی اداٸیگی کے حوالے سے بھی سامنے آیا ہے کیونکہ اس وبا کا پھیلاٶ لوگوں کے باہم ملنے سے ہوتا ہے۔ نیز ابھی تک اس کا کوئی علاج بھی دریافت نہیں ہو پایا ہے یعنی کہ یہ ایک لاعلاج مرض بھی ہے ۔لہٰذا ایک ہی صورت میں اس سے بچاٶ ممکن ہے اور وہ صورت یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ احتیاط کیا جاۓ۔ کچھ عرصے کے لیے لوگ آپس میں میل ملاپ سے مکمل اجنتاب برتیں اور گھروں میں خود کو محصورکرلیں۔ ماہرین اور ڈاکٹر حضرات بھی اس حوالے سے social distance یعنی کہ ”آپسی فاصلے“ کا کہتے ہیں اور ہر اس سرگرمی سے اجتناب برتنے کوکہتے ہیں جس میں لوگوں کا کسی جگہ اکھٹے ہونے یا ہجوم بننے کا اندیشہ ہو۔ حکومت وقت نے اس ضمن میں حفاظتی اقدامات اٹھاتے ہوۓ تقریباً تمام مارکیٹیں، تفریحی پارکس، سینما ہالز، شادی ہالز، بازار، کھیل کے میدان، فیکٹریوں، ذرائع آمد و رفت غرض ہر وہ سرگرمی جس میں مجمع بننے کا امکان ہو پر پابندی عاید کردی ہے۔ ایسے میں باجماعت نماز کی اداٸیگی کا ایک سنگین مسئلہ پیدا ہوگیا ہے ۔ چونکہ یہ ایک اہم دینی فریضہ ہے چنانچہ حکومت نے اس ضمن میں علماء کرام سے رجوع کیا تاکہ دین اور شریعت کی روشنی میں اس مسئلے کا کوئی حل نکا لا جا سکے۔ امید یہ کی جارہی تھی کہ ہمارے علماء کرام اور دیگر مکاتب فکر ملکر اور ایک صف ہوکر قوم کی فلاح اور بہبود کی خاطر اس مسئلے کے حل کے سلسلے میں اپنا اہم کردار ادا کریں گے تاہم ایسا نہ ہوسکا اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔اس سلسلے میں مختلف سمتوں سے مختلف بیانیے سامنے آرہے ہیں۔ کوئی ایک بات کہتا ہے تو دوسرا اس کی مخالف بات کہتا ہے۔ کہیں آن لائن نمازوں کی باتیں ہورہی ہیں تو کہیں مسجدوں کو تالے لگانے کی باتیں ہورہی ہیں۔ کہیں محدود نمازیوں کی باتیں ہورہیں تو کہیں نمازیوں کے درمیان فاصلے زیرے بحث ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ بچے اور بوڑھے مسجد نا آٸیں تو کوئی کہتا ہے کہ مسجدوں کی صفائی کا کیسے خیال رکھا جاۓ۔کوئی 20 نکات کی بات کرتا ہے تو کوئی 21 نکات کی ۔ کوئی کہتا ہےکہ اس سال وہ تراویح گھر میں ہی ادا کرے گا تو کوئی کہتا ہے کہ موت تو گھر میں بھی آسکتی ہے لہٰذا پھر مسجد میں کیوں نہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ دشمن کی گھناٶنی چال ہے، اچھا کیا چال ہے؟( اب تک کم و بیش ایک لاکھ پچاس ہزار کے قریب دشمن اپنی خود کی چال کا شکار ہوکر ہلاک ہوچکے ہیں) کوئی جواب نہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ خدا کا عذاب ہے۔ اچھا ٹھیک ہے یہ بھی مان لیتے ہیں آپ کی خاطر لیکن اس عذاب کا شکار تو زیادہ تر بیچارے غریب اور غریبوں میں بھی انتہائی ضعیف بوڑھے ہورہے ہیں تو کیا گنہگار صرف یہی ہیں؟ عذاب کے مستحق صرف یہی ہیں؟ نعواذباللہ کیایہی اس سب سے بڑے منصف کا انصاف ہے؟ تو جواب پھر خاموشی ہے اور کچھ نہیں۔ معاشرے میں نیچے سے اوپر تک سب کا یہی ذہنی رویّہ ہے۔ کوئی بھی سرے سے وائرس نامی چیز کو مانتا ہی نہیں اسے بکواس کہتا ہے۔ ہاں اگر یہ کوئی شیر ہوتا تو شائد وہ ایسا نہ کہتا کہ شیر کو تو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں جبکہ وائرس کے لیے علم اور شعور کی آنکھ کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ ہمارے پاس ہے ہی نہیں۔ آخر ہمارے رویوں میں اس قدر الجھاٶ اور تناٶ کیوں ہے ۔ یقین جانیں یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ جب ساری دنیا اس وبا سے نمٹنے کے لیے باہم اتفاق اور اتحاد کی جانب بڑھ رہی ہے، اس کے anti dot بنانے کی تگ و دو میں لوگ شب و روز سر جوڑ کر بیٹھے ہوۓ ہیں اور ہم مسخرے پن اور تذبذب کا شکار ہیں۔ ایسے نازک موقع پر ہمارے خیالات کا یوں انتشار کا شکار ہونا اور آپس میں یوں دست و گریباں ہونا حماقت اور نادانی کے سوا اور کچھ نہیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ ہمارے ذہنی رویوں کا تعین کرنے والےاور ہماری سوچ کی سطح کو مرتب کرنے والے دراصل خود سوچنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ منزلوں تک رسائی صحیح رہنمائی سے مشروط ہوتی ہے اور صحیح رہنمائی ایک صحیح اور قابل رہنما ہی کرسکتا ہے۔ کورونا سے تو شائد کسی نہ کسی صورت ہم جیت ہی جاٸیں گے لیکن ذہنی جمود کے شکار ان جموروں سے اب جیتنا محال لگتا ہے۔۔۔۔
عبدالولی2020/4/19