• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(پینتیسواں دن)۔۔گوتم حیات

کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(پینتیسواں دن)۔۔گوتم حیات

ہر طرف مولانا کے “بیان” کی گونج تھی۔ کشمیر، بالاکوٹ سے ہوتے ہوئے کراچی میں بھی یہی قیاس آرائیاں کی جا رہیں تھیں کہ زلزلے کی بنیادی وجوہات یہی ہیں، جو مولانا اپنے “بیان” میں فرما رہے ہیں۔
اُن دنوں (ابھی بھی اکثر اوقات) کراچی کی پبلک ٹرانسپورٹ میں مولانا کے “بیان” کے کیسٹ چلنے لگے۔ وہ گھٹن زدہ ماحول تھا ،انفرادی طور پر کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ ڈرائیور یا کنڈیکٹر سے کہہ سکے کہ۔۔
“بھائی سکون سے سفر کرنے دو، اس کیسٹ کو بند کر دو، ہم گناہ گار نہیں ہیں، سادہ سے انسان ہیں، آخر یہ مولانا کیوں اپنی آواز کے کوڑے ہماری سماعتوں پر برسائے جا رہا ہے”

ان کے “بیان” کو زبردستی سنتے ہوئے ہمیں آدھے گھنٹے کا معمولی سفر گزارنا مشکل ہو جاتا۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ کوئی منچلا ڈرائیور گانوں کی کیسٹ آن کر دیتا، جس سے بھری ہوئی بس میں تھکے ہوئے مسافروں کے چہروں پر رونق آجاتی، لیکن اچانک سے مسافر حضرات میں بیٹھے ہوئے کچھ لوگوں کو اس بات پر اعتراض ہو جاتا اور وہ کہنے لگتے “یہ گانے کیوں چلائے گئے ہیں، بس میں لڑکیاں بھی بیٹھی ہوئی ہیں، اس ڈرائیور کو شرم نہیں آتی گانے چلا کر بیغرتی پھیلا رہا ہے۔۔۔ ” اور پھر ان لوگوں کے اعتراضات کی روشنی میں ڈرائیور خاموشی سے گانوں کی کیسٹ کو بند کر دیتا۔

لوگوں کو ہمیشہ گانوں پر ہی اعتراض ہوتا، کبھی بھی وہ لوگ اس بات پر اعتراض نہیں کرتے کہ پبلک بس میں سگریٹ پینے سے دوسرے مسافروں کو پریشانی ہو رہی ہے، ڈھٹائی سے پان کھاتے اور تھوکتے ہوئے بھی انہیں شرمندگی کا احساس نہیں ہوتا تھا اور نہ کبھی ان کو مولانا کے کسی “بیان” پر اعتراض ہوتا ،جو آئے دن بسوں میں فُل والیوم میں چل رہے ہوتے۔

سکول کے زمانے میں ہم نے نعمان اور فضیلہ کے بارے میں بہت سنا تھا کہ دونوں فنکار شوبز کو خیرباد کہہ کر تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف ہو گئے ہیں، اس کام کے لیے فضیلہ نے سر کو دوپٹے سے ڈھانپنا شروع کر دیا تھا، اکثر اس کی تصویریں اخبارات میں شائع ہوتیں، جس میں وہ بڑا سا دوپٹہ لیے اپنے آپ کو مکمل ڈھانپ کر کسی سماجی تقریب میں شرکت کر رہی ہے، اور نعمان بھی اچھی خاصی بڑی داڑھی رکھ کر مذہب کے لبادے میں ملبوس ہیں، لیکن کچھ عرصے بعد یہ دونوں ٹی وی ڈراموں میں پھر سے نظر آنے لگے۔ ہم ان کو دیکھ کر حیران ہوتے کہ یہ دونوں آخر کیوں اس طرح کے ڈھونگ رچا رہے ہیں، اُس وقت میں اس بات سے غافل تھا کہ آنے والے کچھ سالوں بعد مجھے بہت سے فنکاروں کو یہی فنکاریاں کرتے ہوئے دیکھنا تھا، جو فضیلہ اور نعمان ابھی کر رہے ہیں۔ خیر پھر وہ وقت بھی جلد ہی آن پہنچا ، جب ایک کے بعد ایک مشہور فنکار، فنکارائیں اور کرکٹر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر   تبلیغ میں مصروف ہو گئے۔ کچھ سیلیبریٹیز نے شوبز کے پیسوں سے “حلال کاروبار” کرنا شروع کر دیا، کسی نے بوتیک اور کسی نے حلال گوشت کی دکانیں سجا لیں۔ لیکن کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں تھا کہ جب شوبز حرام ہے تو اس سے کمایا گیا پیسہ جس کو نئے کاروبار میں لگایا جا رہا ہے وہ کیسے حلال کا ہو گیا۔؟

ایک دن اخبار میں جنید جمشید کے بارے میں خبر شائع ہوئی کہ وہ موسیقی کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ چکا ہے۔ جنید جمشید کے گانے ہم بچپن سے سنتے آئے تھے، موسیقی کو جب ہمارے پسندیدہ گلوکار نے خیرباد کہا تو ہم اس بات پر افسردہ بھی ہوئے اور خوش بھی  ، افسردہ اس لیے کہ اب ہمیں کوئی نیا گانا جنید جمشید کی آواز میں سننے کے لیے نہیں ملے گا اور خوش اس لیے ہوئے کہ بچپن ہی سے ہم یہی سنتے آئے تھے کہ موسیقی اسلام میں حرام ہے۔ اُس وقت ہمارے دہرے معیار تھے ،بیک وقت ایک ہی چیز قابلِ قبول بھی تھی اور ناقابلِ قبول بھی  (ابھی بھی معاشرے میں یہ مائنڈ سیٹ موجود ہے)۔ اتفاق سے یہی وہ زمانہ تھا جب میں رفتہ رفتہ ان خرافات سے دور ہو رہا تھا، اس لیے اب مجھے اس قسم کی خبروں پر حیرت نہیں ہوتی کہ فلاں اداکارہ یا اداکار شوبز کو چھوڑ رہا  ہے ۔ نجی چینلز کی بھر مار کی وجہ سے بہت سے چہرے بےنقاب ہو رہے تھے۔ کوئی موسیقی کے ساتھ ساتھ اپنے  عقیدے کی بھی تبلیغ کرنے لگا، کسی نے نعت اور قوالی میں محنت شروع کردی اور کوئی شوبز سے کنارہ کشی اختیار کر کے کچھ عرصے کے لیے گوشہ گمنامی میں چلا گیا۔ اُن ہی دنوں فضیلہ بھی دوپٹہ سر پہ رکھ کر رمضان المبارک کی بابرکت نشریات میں جلوہ افروز ہونے لگی۔ عالم آن لائن اور اس جیسے انگنت پروگرام اب ہر چینل کی نشریات کا لازمی جزو سمجھے جانے لگے تھے۔ جویریہ شادی کے بعد کہتی پھریں کہ میں مجبوری میں ڈراموں میں کام کرتی تھی، اسلام میں اس کام کی اجازت نہیں ہے اور پھر کچھ سالوں کی خاموشی کے بعد وہ دوبارہ سے ڈراموں میں کام کرنے لگیں۔ اداکارہ سائرہ اور سارہ شوبز چھوڑنے کے اپنے فیصلے پر ابھی تک قائم ہیں جبکہ وینا دو بار اپنے ہی کیے گئے فیصلوں سے مطمئن نہ ہو کر پھر سے شوبز کی دنیا کو رنگین کر رہی ہیں، شاید مولانا کے “بیان” میں اب وہ تاثیر نہیں رہی ،اس لیے وینا بھی پرانی زندگی کی طرف لوٹ آئی ہے۔ میری دعا ہے کہ وینا کو اچھے سے اچھے پروگرام ملتے رہیں اور یہ مزید ترقی کریں کیونکہ وہ ایک  باصلاحیت  فنکارہ ہے۔

یونیورسٹی کے پہلے سمسٹر کا آغاز ہوئے ابھی دو ماہ ہی گزرے تھے کہ مختلف ڈیپارٹمنٹ کے لڑکے، لڑکیاں ایک دوسرے سے کہتے سنائی دیے۔۔۔
“ارے یار تم نے سر رحیم کا درس سنا؟ ۔اُف خدا کیا ٹیچر ہے وہ۔۔۔ سب کچھ معلوم ہے اُن کو،مذہب، سائنس، جغرافیہ، سیاست، قرآن۔” جب مستقل میرے کان میں اس طرح کی باتیں پڑنے لگیں تو مجھے بھی تجسس ہوا،سر رحیم کو دیکھنے کا، ان کی کلاس اٹینڈ کرنے کا۔

میں نے اپنی ایک کلاس فیلو سے سر رحیم کے درس کا وقت اور مقام پوچھا، اُس نے مجھے تفصیل سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ۔۔
“سر رحیم ہر روز صبح ساڑھے آٹھ بجے سے نو بجے تک شعبہ جغرافیہ کے کمرہ نمبر تین میں لیکچر دیتے ہیں اور ان کے لیکچر میں کوئی بھی شریک ہو سکتا ہے، سر رحیم کے روم کا دروازہ تمام طالبعلموں کے لیے ہمیشہ کھلا رہتا ہے، نہایت ہی پُرخلوص استاد ہیں وہ۔۔۔۔”

اگلے دن میں ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے مطلوبہ مقام پر پہنچ گیا، وہاں پر لڑکے، لڑکیوں کا ایک ہجوم جمع تھا اور سر رحیم ان سب کے درمیاں گھِرے بڑے ماہرانہ انداز میں بتارہے تھے کہ پاکستان کو توڑنے کی سازشیں عرصے سے چل رہی ہیں۔۔ کچھ اس قسم کی بات وہ بتا رہے تھے، سر کا حلیہ بالکل تبلیغی جماعت سے وابستہ شخص جیسا تھا، وہ کہیں سے بھی جغرافیہ کے استاد نہیں لگ رہے تھے۔ پہلے پہل اُن کو کو دیکھ کر مجھے اپنے آپ پر غصہ آیا کہ یہ نمونے تو میں سکول کے زمانے سے دیکھتا  آرہا ہوں، میں کیوں دوسروں کی باتوں میں آکر یہاں آگیا۔۔۔۔ خیر پھر میری کلاس فیلو نے سر رحیم سے میرا تعارف کروایا، سر نے مجھے کہا کہ آپ روز میرے پاس آسکتے ہیں، کچھ بھی پوچھنا ہو میں حاضر ہوں، اس بات پر میں نے ان کا شکریہ ادا کیا (جو کہ مجھے ہرگز نہیں کرنا چاہیے تھا)، اس کے بعد سر نے مجھے کہا کہ آپ کچھ لکھتے بھی ہیں؟۔ میں نے نفی میں اپنا سر ہلایا، پھر سر رحیم نے میرے سامنے اخبار پھیلاتے ہوے کہا کہ یہ کالم ہے (وہ کالم جاوید چوہدری کا تھا) آپ اس کو غور سے پڑھیں اور اس پر ایک صفحے کا ریویو لکھیں۔ ان کی بات سن کر میں نے کہا یس سر میں پوری کوشش کروں گا اس کالم پر ریویو لکھنے کی، کل لازمی آپ کو لا کر دکھاؤں گا۔

اُس صبح سر رحیم کے کمرے سے نکل کر میں سوچنے لگا کہ جن چیزوں کو میں چھوڑ چکا ہوں وہ بار بار کیوں گھوم پھر کر میرے سامنے آجاتی ہیں۔۔اس کے بعد میں نے فیصلہ کر لیا کہ آج کے بعد میں دوبارہ سر رحیم کا چہرہ نہیں دیکھوں گا۔ ان سے وہ میری پہلی اور آخری ملاقات تھی۔ اس دن کے بعد میں کبھی ان کی طرف نہیں گیا، اگر کبھی کوریڈور میں چلتے ہوئے وہ دکھائی دیتے تو میں ان کو نظرانداز کرتا ہوا خاموشی سے گزر جاتا۔

دوسرا سمسٹر شروع ہوا تو ایک واضح تبدیلی مجھے محسوس ہوئی۔ وہ لڑکیاں جو پچھلے سمسٹر میں نارمل لباس میں آتی تھیں اب وہ مکمل حجاب میں یونیورسٹی آنے لگیں، آہستہ آہستہ ان کی تعدا بڑھنے لگی۔ ان کے ہاتھوں پر بھی کالے رنگ کے دستانے چڑھے ہوتے اور اتفاق سے وہ سب کی سب لڑکیاں سر رحیم کی اس کلاس کا حصہ تھیں جو وہ ہر روز “درس” کی صورت میں صبح ساڑھے آٹھ سے ساڑھے نو کے درمیاں دیا کرتے تھے۔

گلیوں اور چوراہوں میں مولانا کے “بیان” کے بعد اب یونیورسٹی کی چار دیواری میں بھی نہایت منظم انداز میں  اس سوچ کو پروان چڑھایا جا رہا تھا اور سر رحیم جیسے اساتذہ اس نیک کام کے لیے پیش پیش تھے۔

یونیورسٹی کی حدود میں کچھ ایسے مقامات بھی تھے جہاں پر مذہبی مبلغین کی فراوانی تھی۔ ایسا ہی ایک خاص مقام فارمیسی ڈیپارٹمنٹ کے سامنے والی  سٹریٹ پر بھی موجود تھا۔ وہاں پر ایک اندھا آدمی کاپیوں اور سٹیشنری کا سامان لیے  سٹال پر سارا دن بیٹھا رہتا، یونیورسٹی کی اکثریت اس سے پینسل، کاپی وغیرہ خریدتی تھی۔ ایک روز میرے دوست جہانگیر نے مجھ سے کہا “عاطف تم اس اندھے آدمی کو جانتے ہو بیچارہ سارا دن کاپیاں بیچتا رہتا ہے۔؟” میں نے کہا کہ “ہاں میں اس سے دو تین بار مل چکا ہوں لیکن مجھے سو فیصد شبہ ہے کہ وہ کسی کی رضامندی سے یہاں پر موجود ہے، ورنہ شہر میں اتنے اندھے لوگ ہیں ان کو بھی یونیورسٹی کی حدود میں  سٹال لگا کر دینے چاہئیں مسیحاؤں کو”، میرے اس اعتراض پر جہانگیر کو غصہ آگیا وہ مجھ پر برس پڑا، اس کا کہنا تھا عاطف تم کیوں اس بیچارے پر شک کر رہے ہو، یہ اچھی بات نہیں ہے ہر ایک پر شک کرنا۔۔۔۔ میں نے جہانگیر کی بات سن کر کہا کہ “ہاں یہ بالکل بھی اچھی بات نہیں ہے کسی پر شک کرنا لیکن جب آپ کے چاروں طرف جال پھیلا دیا گیا ہو تو پھر شک کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ یہاں قدم قدم پر بہروپیے ہیں ،اس لیے محتاط رہنے میں ہی عافیت ہے”۔ پھر میں نے اس کو بتایا کہ وہ اندھا آدمی ہر ایک سے ذاتی قسم کے سوال پوچھتا ہے۔ کاپی، پینسل خریدنے کے دوران وہ “خمینیت” کی بھی تبلیغ کیے جا رہا ہوتا ہے، موصوف آس لگائے بیٹھا ہے کہ ایران کی طرز پر کوئی شیعہ انقلاب پاکستان میں برپا ہو جائے۔ یونیورسٹی کے بہت سے لڑکوں اور لڑکیوں کے موبائیل نمبرز بھی اس نے اپنے پاس نوٹ کیے ہوئے ہیں۔ اب تم ہی بتاؤ میں اُس اندھے آدمی پر شک کروں یا اُس پر ترس کھاؤں؟۔ میری اس بات پر جہانگیر لاجواب ہو چکا تھا، اس کے پاس فوری طور پر کوئی جواب تو تھا نہیں، کہنے لگا اچھا اب بس یقین آگیا مجھے تمہاری بات پر، اب اُٹھو کینٹین چلتے ہیں چائے پینے۔

ایک بار میں، صدف اور صائمہ یونیورسٹی کی کینٹین پر ایک “نیشنلسٹ” کے ساتھ انقلابی سیاست پر بحث برائے بحث کر رہے تھے یہ دیکھے بنا کہ ارد گرد کے لوگ اپنے کان ہماری ہی طرف لگائے بیٹھے ہیں۔ ہم لوگوں نے پاکستان، سعودی عرب کی سیاست پر بہت سی باتیں کیں، وہ “نیشنلسٹ” بھی ہماری باتوں سے متفق تھا، پھر ہم لوگ ایران کے خمینی پر بات کرنے لگے اور وہ مظالم گنوانے لگے جو انقلاب کے فوراً بعد ایرانی عوام پر خمینی حکومت نے ڈھائے تھے۔ ابھی بات کرتے ہوئے ہمیں بمشکل دس منٹ ہی ہوئے ہوں گے کہ صائمہ اور صدف نے محسوس کیا کہ اس “نیشنلسٹ” کے چہرے کا رنگ بدل رہا ہے، وہ خاموش تھا لیکن اس کا رنگ بدلتا چہرہ اس بات کی علامت تھا کہ ہماری باتیں اس کو بری لگ رہی ہیں۔ وہ اچانک ہمارے پاس سے اٹھ کر سامنے والی میز پہ جا کر بیٹھ گیا وہاں کچھ اور لڑکے بھی موجود تھے۔ ہم تینوں اس کے جانے کے بعد دوبارہ سے اپنی باتوں میں مصروف ہو گئے، میں، صدف اور صائمہ کو ایران میں برپا ہونے والے حالیہ احتجاج کی روداد سنا رہا تھا جس میں ایک کرسچن لڑکی ندا پولیس کی گولی لگنے سے موقع پر ہی جاں بحق ہو گئی تھی، ابھی میری بات ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ وہ نیشنلسٹ لڑکا سامنے والی میز سے اُٹھ کر ہمارے پاس آیا اور کہنے لگا
“تم لوگوں کو یہ خمینی والی باتیں نہیں کرنی چاہئیں ، بہتر ہے کہ تم تینوں یہاں سے اُٹھ کر کسی دوسری جگہ جا کر بیٹھ جاؤ، میں تو نیشنلسٹ ہوں، تم لوگوں کی باتوں کو کسی حد تک نظرانداز کر لوں گا، لیکن یہاں جو دوسرے لوگ بیٹھے ہیں وہ نیشنلسٹ کے ساتھ ساتھ مذہبی بھی ہیں اور ان سب کو تم تینوں کی باتوں پر اعتراض ہے، جو تم لوگ خمینی کے خلاف کر رہے ہو۔۔۔”

وہ نیشنلسٹ لڑکا جو ہمارا دوست بھی تھا مگر اُس لمحے وہ اُن لوگوں کی نمائندگی کرتا ہوا ہمیں وہاں سے اُٹھ جانے کی تلقین کر رہا تھا جو اپنے عقائد کی خاطر کسی دوسرے شخص کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

اُس لمحے ہم تینوں (میں، صائمہ اور صدف) کے ذہنوں میں ندا کی مثال سامنے تھی جس کو کچھ ماہ پہلے تہران کی سڑک پر احتجاج کے دوران بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا۔ تہران کی سڑکوں پر بہتے ہوئے ندا کے خون میں ہمارا خون بھی تو شامل کیا جا سکتا تھا (یہ الگ بات کہ ہم تہران میں نہیں تھے) کیونکہ ہم تینوں ندا کا دفاع کر رہے تھے جو ایرانی انقلاب کی مخالف تھی اور یونیورسٹی کی حدود میں ہمارے سامنے موجود لوگ جو پاکستان کی شہریت رکھتے تھے مگر ان کی شریانوں میں خمینی انقلاب کا خون دوڑتا تھا جو کسی بھی وقت، کسی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

خوفزدہ ہو کر ہم تینوں خاموشی سے وہاں سے اُٹھ کر چہل قدمی کرنے لگے اور پھر دوسری کینٹین میں جا کر بیٹھ گئے۔ وہاں پر چائے پینے کے دوران ہم تینوں سوچنے لگے کہ خوف کے سائے میں ایران کی ندا بہادری سے جبر کے خلاف مزاحمت کرنے پر قتل کی جا چکی تھی لیکن وہ جاتے جاتے لاکھوں، کروڑوں ایرانیوں اور ہم پاکستانیوں کو یہ پیغام دے گئی تھی۔۔۔
تند ہیں شعلے سرخ ہے آہن
کھلنے لگے قفلوں کے دہانے
پھیلا ہر اک زنجیر کا دامن
بول یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم و زباں کی موت سے پہلے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک۔۔۔
بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply