عداوت۔۔ مختار پارس

دشمن نظر نہ آۓ تو لڑنے کا فائدہ نہیں۔ ہوا میں مکے چلانے سے کوئی زیر نہیں ہو سکتا۔ ہم میں سے اکثر کو ہمارا دشمن نظر نہیں آتا کیونکہ ہم دشمن کو دوسروں میں ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں کیسے ڈالیں جبکہ آئینہ دیکھنے کی روایت کو ہم نے توڑ دیا ہے۔ ہم خود اپنی دنیا کو تعمیر کرتے ہیں اور خود ہی اس کو تسخیر کرتے ہیں۔ اپنی دنیا میں جو دوست ہمیں نظر آتے ہیں، وہ خود ہم نے بہت شوق سے بناۓ ہیں۔ جس کو ہم دوست سمجھیں، بس اسے ہی ہم دوست کہتے ہیں۔ جتنے لوگوں کو ہم اپنا دشمن گردانتے ہیں، ان کی گیلی مٹی کو بھی ہم نے خود چاک پر رکھ کر گھمایا ہے،وہ چاک جو صرف ہمارے اپنے گرد گھومتا ہے۔ دنیا کے سارے رشتے گیلی مٹی کے جیسے ہیں؛ نفرتوں اور محبتوں کی کوزہ گری ہم خود کرتے ہیں اور الزام دھرتے ہیں مٹی پر۔ مٹی میں محبت کے سوا کچھ نہیں ہوتا، قصور مٹی گوندھنے والوں کا ہے۔

ہم سارے ہیں گھگھو گھوڑے، ہم وہ اسپِ تازی نہیں جو میدانِ جنگ میں معرکہء خاک و خون میں لت پت ہو کر اتراتے ہیں۔ حق و باطل کی بنیاد پر لکیر کھینچنے والے بہت کم ہیں۔ ہمیں تو ہمارے من کے اندر رہنے والے پکھی واس نے بھس اور کاٹھ کباڑ بھر کر بنایا ہے۔ اس نے باہر سے رنگ روغن کر کے، چمکیلے کاغذ چپکا کر، ڈوریوں سے الجھا کر ایسا بنایا ہے کہ لگتا ہے کہ ہم شہسواروں کے قابل ہیں۔ بچے میلوں اور عیدوں پر ہمیں دو دو آنے کا خرید کر گلیوں میں ہمیں دوڑاۓ پھرتے ہیں۔ پھر جب ہم ٹوٹ کر پھٹ جاتے ہیں اور ہمارے اندر بھرا بھس باہر نکل آتا ہے تو بچوں کو بہت دکھ ہوتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم اصلی گھوڑے تھے۔ حقیقت کھلتی ہے تو اٹھا کر پھینک دیتے ہیں۔ غصہ، نفرت اور عناد بھی کچھ ایسے ہی ہیں۔ ان گھگھو گھوڑوں میں بھس کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ ہم اپنے بچپنے میں ان کو بگٹٹ بھگاۓ رکھتے ہیں۔ حقیقت صرف حق والوں پر کھلتی ہے، باقی ہوا میں مکے چلاتے رہتے ہیں۔

ہمارے اندر سے ہوک تب نکلتی ہے جب کوئی ہمارے اندر پھونک مارتا ہے۔ جب بھی مفاجات اور مفادات پر آنچ آتی ہے ہمیں دوست اور دشمن بنانے پڑتے ہیں۔ خدا جب امتحان لیتا ہے تو مفادات کی حیثیت کو بڑھا دیتا ہے اور انسان کی اہمیت کو کم کردیتا ہے۔ رشتوں کو نفع نقصان کے ترازو میں تولنے والا عدل اور انصاف کرتے کرتے اللہ کے فضل سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ خدا جب نعمتیں بانٹنے لگتا ہے تو نہ استطاعت دیکھتا ہے اور نہ استقامت، نہ علم اور نہ عمل، نہ عقل اور نہ شکل۔اس کی نعمتوں کی تقسیم کسی پیمانے کے تحت نہیں ہوتی۔ اس کی رحمت بلا تخصیص سب پر برستی ہے۔ خدا جب ایسے دیتا ہے تو انسانوں کا طریق کیا اس سے مختلف ہو سکتا ہے؟ پھر جو بھی اس طریقے پر نہیں چلتا، وہ دشمنیاں پال لیتا ہے، کبھی خود سے اور کبھی دوسروں سے۔

انسان کی زندگی کا سب سے مشکل مرحلہ وہ ہوتا ہے جب وہ کسی دوست کو دشمن سمجھ لیتا ہے۔ اس رفیق کے پاس عداوت کی عمیق گہرائی میں گرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔ یہ امتحان دوست اور دشمن دونوں کو گرفتار کر لیتا ہے؛ دوست دل و جاں کی کشمکش میں کچھ کر نہیں سکتا اور غلط سمجھنے والا اس دکھ میں گھائل کہ میرے دستِ راست نے بساط ہی بدل دی۔ وجہء عناد ثابت ہو جاۓ تو پھر وہ شخص کسی سے دوستی کے قابل نہیں رہتا۔ اور کچھ نہ ثابت ہو تو پھر بھی خلش دل سے نہیں جاتی کہ اعتبار کا آبگینہ پھر سے جڑ نہیں سکتا۔ دوستوں کی بہت سی سنہری داستانیں اس عالمِ آب و گِل میں جھلس کر راکھ ہو گئیں۔ دوستی بے غرض ہو نہیں سکتی۔ غرض ثابت ہو جاۓ تو عناد میں بدل جاتی ہے۔ اس لیے دوستی بس اس وقت تک ہے جب تک غرض ثابت نہیں ہو جاتی۔ انسان کا خمیر ہی کچھ ایسا ہے؛ اگر وہ دوست ہے تو اپنا دشمن ہے اور اگر وہ دشمن ہے تو کسی کا دوست نہیں؛ نہ اپنا اور نہ کسی اور کا۔ یقینا” اپنا دشمن بننا کسی دوسرے کا دشمن بننے سے بہتر ہے۔

یہ اختیار ہمیں حاصل ہی نہیں کہ ہم کسی کی دوستی کا دعویٰ کرسکیں یا کسی کی دشمنی کا نعرہ بلند کرسکیں۔ ہمیں کیا خبر کہ اس روحانی ایکوسسٹم میں ہم شکار ہیں یا شکاری۔ بعض اوقات مخالفت ایستادہ اور استوار کر دیتی ہے اور ہم نے جہاں پروان چڑھنا ہو، وہاں پہنچا دیتی ہے۔ دشمن باخبر کردے تو اس دوست سے ہزار درجے بہتر ہے جو بےخبر کر دیتا ہے۔ دشمن بگڑ کربنا دیتا ہے۔ اگر دشمن نہ ہوتے تو نہ یہاں کسی پیغمبر تذکرہ ہوتا اور نہ کوئی پیشوا کی کہانی سنائی جاتی۔ جو دلگیر آفاق کی ستمگری کا شکوہ کرتے ہیں انہیں انسانوں کی شقی القلب ہونے کے آثار نظر کیوں نہیں آتے۔ مصائب آسمان سے بھی اتریں تو کسی کی توقیر میں اضافہ ہو سکتا ہے اور عذاب اگر زمین والے ایکدوسرے کوعطا کر رہے ہوں تو تبھی انسانوں کی تلاش ممکن ہوتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دشمن دشمنی نہ کرے تو یہ بزدلی ہے۔ دشمن اگر بزدل ہو یہ بدنصیبی ہے کہ بہادر اگر وار بھی کرتا ہے تو بتا کر کرتا ہے۔ جنگ کا مزا ہی تب ہے جب اصولوں کے تحت لڑی جاۓ۔ دھوکے سے جنگ و جدل میں جیت کمزور کی ہوتی ہے۔ کمزور اگر لڑائی جیت جاۓ تو ایک بڑے فساد کی راہ ہموار ہو جاتی ہے۔ توانا کی فتح اسی صورت ممکن ہے اگر اس نے دشمنی کے فلسفے کو سمجھا ہے۔ دشمنی مات دینے کےلیے نہیں کی جاتی، یہ اس بات کو ثابت کرنے کےلیے کی جاتی ہے کہ سب سے طاقتور وہ ہے جو سچ پر ہے اور سب سے کمزور وہ ہے جس کے پاؤں نیچے زمین ہی نہیں۔ بدکار اور بد نیت کبھی دشمنی کرکے فتحیاب نہیں ہو سکتا۔ غاصب کی دشمنی ریت کی دیوار ہے جو حقدار کی آہ سے بھی گر سکتی ہے۔ دشمنی اس کو زیب دیتی ہے جو کسی کمزور کےلیے آفتوں سے نبردآزما ہو جاۓ۔ وہ آفتیں اسے آئینے میں نظر آئیں یا انسانوں میں، ان سے ٹکرانا اس پر فرض ہے۔ راہِ حق میں وہ ایسا نہیں کرے گا تو ایسوں کا تو خدا بھی دشمن ہو جاتا ہے۔

Facebook Comments

مختار پارس
مقرر، محقق اور مصنف، مختار پارس کا تعلق صوفیاء کی سر زمین ملتان سے ھے۔ ایک عرصہ تک انگریزی ادب کے استاد رھے۔ چند سال پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی بھی کی ۔ اردو ادب میں انشائیہ نگار کی حیثیت سے متعارف ھوئے ۔ان کی دو کتابیں 'مختار نامہ' اور 'زمین زاد کی واپسی' شائع ہو چکی ھیں۔ ادب میں ان کو ڈاکٹر وزیر آغا، مختار مسعود اور اشفاق احمد جیسی شخصیات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ٹوئٹر پر ان سے ملاقات MukhtarParas@ پر ھو سکتی ھے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply