• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(چونتیسواں دن)۔۔گوتم حیات

کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(چونتیسواں دن)۔۔گوتم حیات

ہندوستان میں بابری مسجد مسمار کی جا چکی تھی لیکن پاکستان کے اخبارات میں ایسا لگتا کہ ہر روز ہی مسجد مسمار کی جا رہی ہو۔ کئی سالوں تک ہم بابری مسجد کی شہادت پر افسردہ اور نوحہ کناں رہے۔ کسی نے بھی ہمیں یہ نہیں بتایا کہ جب بابری مسجد کو مسمار کیا گیا تو اس کے منفی اثرات سے پاکستان اور بنگلہ دیش میں رہنے والے ہندوؤں کو جانی اور مالی نقصانات سے دوچار ہونا پڑا تھا۔
سکول میں بھی اساتذہ اس بات کا ذکر کرتے نہیں تھکتے تھے کہ۔۔
“یہ جو پاکستان ہے اس لیے بنایا گیا کہ ہم مسلمان آزادی سے اپنے دین پر عمل کر سکیں، ورنہ آپ لوگ دیکھ لو جو کچھ ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ کیا جا رہا ہے، مسلمانوں کی تاریخی بابری مسجد کو شہید کر دیا گیا، لیکن کوئی بولنے والا نہیں تھا”۔

ہم  سکول کے طالبعلم عجیب سے خوف میں مبتلا تھے۔ اساتذہ اپنی ادھوری اور تعصب پرستانہ تعلیمات کی روشنی میں بار بار ہمیں یہ ہی باور کراتے رہتے کہ دنیا بھر کے لوگ مسلمانوں کے خلاف ہیں اور پاکستان کو ختم کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ وہ زور دے کر کہتے کہ 1965 کی پاک ہند جنگ میں یہ خدائی فرشتے تھے ،جنہوں نے پاکستانی افواج کی مدد کی تھی، اور یہ غیبی مدد اللہ نے ہم مسلمانوں کی فتح کے لیے آسمان سے زمین پر اتاری تھی۔

وقت گزر رہا تھا اور ہم مذہب کی اساطیری کہانیوں میں الجھے ہوئے بڑے ہو رہے تھے۔ اسی طرح سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین کا نام جب ہم نے پہلی بار سنا تو ہمیں بتایا گیا کہ یہ دونوں رسول کے گستاخ اور اسلام کے مخالف ہیں، ان کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں اور جو مسلمان ان کو قتل کرے گا ،اس کے لیے جنّت میں اہم مقام ہے۔ غرض کسی ایسے شخص کو قتل کرنا جو آپ کا مخالف ہو، عین سعادت کا کام سمجھ لیا گیا تھا (ہمارے ملک میں یہ رجحان ابھی بھی ہے) کالج کے زمانے میں مطالعے کی وجہ سے جب میرا ذہن بدلا تو میں مولویوں اور تنگ نظر لوگوں کو شک کی نظر سے دیکھنے لگا۔ ان دنوں عالم آن لائن کا بہت چرچہ تھا، ہر کوئی عامر لیاقت کی باتوں سے متاثر تھا، لیکن  مجھے اس کو ٹی وی پر دیکھ کر سخت کوفت  ہوتی، ایک واقعہ (من گھڑت) ان کے پروگرام سے منسوب کر کے ہر کوئی
عامر لیاقت کو سچائی کا پیکر بنانے پر تلا بیٹھا تھا۔ وہ واقعہ کچھ یوں تھا:
ایک عورت نے عامر لیاقت کے آن لائن پروگرام میں کال کی اور کہا “عامر بھائی میں پچھلے سال حج/عمرہ کرنے کے لیے مکہ گئی لیکن جب خانہ کعبہ پہنچی تو مجھے وہ نظر نہیں آیا، میں نے بہت کوشش کی خانہ کعبہ کو دیکھنے کی لیکن مجھے وہ نظر ہی نہیں آرہا تھا جبکہ وہاں موجود دوسری چیزیں اور لوگ مجھے نظر آرہے تھے، میں نے اس بارے میں کسی سے بات نہیں کی، آپ کا پروگرام اچھا ہے اس لیے میں اپنا مسئلہ لے کر حاضر ہوئی ہوں، برائے مہربانی میری رہنمائی کیجیے۔ وہاں پر موجود عالموں نے ان محترمہ کی باتوں پر غوروفکر کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ وہ خاتون جادو ٹونہ کرتی تھی ،اس لیے خدا اس سے ناراض ہے، اس پر خدا کا قہر ہے کہ وہ خانہ کعبہ پر قدم رکھنے کے باوجود اس کو دیکھنے سے محروم رہی۔ اس لیے سب سے پہلے وہ اپنے گناہوں کی معافی مانگے، توبہ کرے اور خدا کو راضی کرنے کے لیے اپنے آپ کو ہر قسم کی غیراسلامی سرگرمیوں سے دور رکھے، جادو کرنا اسلام میں حرام ہے اور جو یہ کام کرے گا اللّہ اس کی بخشش نہیں کرے گا”۔

یہ واقعہ مجھے بھی کچھ لوگوں نے سنایا اور التجا کی کہ عاطف تم بھی ٹھیک ہو جاؤ، نماز پڑھنا شروع کر دو، اللہ  کی لاٹھی بے آواز ہے۔۔۔ مجھے عجیب سا لگتا، اس قسم کی باتیں سن کر، میرا ان کو ایک ہی جواب ہوتا، “نہ تو میں کسی پر جادو کرتا ہوں اور نہ ہی کسی کی حق تلفی کر رہا ہوں، اس لیے خدا کیوں اپنا عذاب مجھ پر نازل کرے گا، خدا ان پر اپنا قہر نازل کیوں نہیں کر رہا جو ظالم ہیں، آئے روز لوگوں کی حق تلفیوں میں مصروف ہیں”۔

اُسی زمانے میں جنرل مشرف بھی خانہ کعبہ کی زیارت کے لیے مکہ مکرمہ جا چکا تھا، وہ بڑے فخریہ انداز میں ٹی وی پر انٹرویوز دیتے ہوئے فرماتا
“میں سیّد خاندان سے ہوں، مجھ پر اللہ  کا بڑا کرم ہے، اگر اللہ  مجھ سے ناراض ہوتا تو کبھی بھی خانہ کعبہ کے دروازے میرے لیے نہیں کھولتا، میں اس دنیا کے اُن خوش قسمت لوگوں میں شامل ہوں جن کے لیے کعبہ کا دروازہ کھولا گیا۔”

تو یہ دو انتہائیں تھیں جن کے سائے میں ہم پاکستانی عوام اپنی زندگیاں گزار رہے تھے۔۔۔
نمبر ایک:
جادو ٹونہ کرنے والی وہ عورت جس کو کعبہ جا کر بھی کعبہ نظر نہیں آیا تھا،
اور
نمبر دو:
جنرل مشرف جو غاصب بن کر مظلوم عوام پر راج کر رہے تھے اور انہیں بار بار اس بات کا یقین دلا رہے تھے کہ دیکھو میں سیّد ہوں، اگر اللہ  مجھ سے ناراض ہوتا تو کبھی بھی کعبہ کا دروازہ۔۔۔۔”
ایک صبح اپّی کا فون آیا کوئی نو بجے کا وقت تھا، وہ فون پر روتے ہوئے کہہ رہی تھی کہ زلزلہ آیا ہے جس کی وجہ سے آس پاس کے بہت سے گھر ٹوٹ گئے ہیں اس کا گھر بھی متاثر ہوا ہے لیکن خوش قسمتی سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ ایک دو منٹ کی کال کے بعد لائن اچانک کٹ گئی، امّی نے بہت کوشش کی ،بار بار اس کے گھر کا نمبر ملایا، لیکن فون کال کنیکٹ نہیں ہو رہی تھی۔ ٹی وی آن کیا تو اس میں اسلام آباد کے کسی اپارٹمنٹ کے بارے میں ایک ہی خبر کو دوہرایا جا رہا تھا، کچھ ہی دیر بعد یہ خبر بھی منظر عام پر آگئی کہ زلزلے کی وجہ سے اسلام آباد سمیت کشمیر اور بالا کوٹ کے  علاقے شدید متاثر ہوئے ہیں، بارشوں اور لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے ان علاقوں کے زمینی راستے بھی اب ایک دوسرے سے منقطع ہو چکے ہیں۔

وہ ایک قیامت خیز گھڑی تھی، رمضان کا مہینہ شروع ہو چکا تھا۔ ہم لوگ کشمیر میں اپّی اور دوسرے رشتے داروں کے لیے فکر مند تھے، دو تین دن کے اندر جب حالات تھوڑے نارمل ہوئے تو کشمیر میں بہت سے لوگوں سے ہمارا رابطہ بحال ہوا۔ ہر کوئی یہی کہہ رہا تھا کہ مالی امداد مہّیا کی جائے، ادویات اور کھانے پینے کی چیزوں کی شدید قلت کی وجہ سے وبائی امراض پھوٹنے کا بھی خدشہ تھا۔
مسمار شدہ مکانوں کے ملبے کے اندر دبے بہت سے لوگ زندگی کی بازی ہار چکے تھے، ملبے تلے دبے ان کے مردہ جسموں کے تعفن سے فضا آلودہ تھی۔  سکولوں کے بچے اپنی کتابوں اور بستوں سمیت ملبے کا ڈھیر بن چکے تھے۔ ہسپتالوں کی بھی بری حالت تھی۔ زلزلے سے پہلے بھی وہاں کے ہسپتالوں کی حالت تسلی بخش نہیں تھی۔ ان دنوں بہت سے لوگوں کی موت محض اس لیے واقع ہوئی کہ انہیں بروقت ابتدائی طبی امداد فراہم نہیں کی جا سکی تھی۔ کشمیر سمیت پوری پاکستانی عوام پر وہ وقت ایمرجنسی کا تھا۔ ملک میں وردی کی طاقت کو براہ راست مسلط ہوئے اب تقریبا ً چھ سال ہو چکے تھے۔ عوام دوہرے عذاب کا شکار تھے، خصوصی طور پر کشمیر اور بالا کوٹ کی عوام رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں اپنے اوپر گزری قیامت خیز گھڑی کی وجہ سے مختلف قسم کی نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو چکے تھے، کسی خاندان کے سب لوگ ختم ہو گئے اور کسی خاندان کا صرف فردِ واحد بچا  ان کی میتوں پر رونے کے لیے۔۔۔

زندگی کو آگے بڑھنا تھا ،اس لیے زلزلے کے بعد بھی زندگی رواں دواں رہی لیکن اب کچھ ترجیحات بدل گئیں تھیں۔ لوگ تو پہلے بھی مذہبی تھے، نماز روزے کے پابند تھے اس لیے کچھ لوگوں نے زلزلے سے بے خوف ہو کر نماز و روزے چھوڑ دیے ،ان کا کہنا تھا کہ یہ کیسا خدا ہے جس نے ہم پر روزے کی حالت میں آسمانی عذاب بھیجا ہے، ہمارے سارے لوگ ملبے کا ڈھیر بن گئے، ہمارے لیے اب جینے کا جواز ختم ہو چکا ہے۔۔۔ جبکہ لوگوں کا ایک گروہ (اکثریتی) ایسا بھی تھا جس نے اپنے آپ کو توبہ و استغفار کے کاموں کے لیے وقف کر دیا۔ وقتی طور پر یہ گروہ شدتِ جذبات سے مغلوب تھا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے جذبات سرد پڑنا شروع ہوگئے لیکن اب ان کو زبان مل چکی تھی۔ ان کی امیدوں اور تمناؤں کا دارومدار بس ایک بندے کی خوشنودی سے جُڑ چکا تھا۔ گھر گھر اس کی آواز لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا رہی تھی۔ نجی  سکول، دکانیں، بازار، ہسپتال، پبلک ٹرانسپورٹ، ریڈیو غرض کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں پر اس کے پرستار موجود نہ ہوں۔

کشمیر سے بالا کوٹ تک سب کے لبوں پر ایک ہی نام تھا “مولانا طارق جمیل” اور مولانا طارق جمیل ریاست کی سرپرستی میں، جنرل مشرف کی روشن خیالی کے سائے میں، کھلے عام اپنی پروپیگنڈہ کیسٹ سے، اپنی کمینگی کی حد تک چُھپی ہوئی مکاریوں سے سادہ عوام کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہو چکے تھے کہ۔۔
“یہ زلزلہ عوام پرا للہ کا عذاب ہے، فحش نگاری زوروں پر ہے، بےپردگی عام ہے، لوگ دین سے ہٹ چکے ہیں اور عورتیں لباس پہن کر بھی ننگی دکھائی دیتی ہیں”

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply