اِعراب لفظ کا تلفظ ہی نہیں معنی بھی متعین کرتے ہیں۔ مثال لیجیے کہ رومن حروف میں لکھی جانے والی انگریزی میں مصوتے (Vowels) یعنی aeiou لفظ کے ہجوں کا حصہ بنتے ہیں اور لفظ کا تلفظ اور معنی طے کرتے ہیں۔ سمجھنے لیے bit/but اور pit/put کو دیکھ لیجیے۔ یہ الگ بات ہے کہ but اور put میں مصوتے u کی صوتی شخصیت مختلف ہے، اور اسی طرح اگر bite میں مصوتے i کی اور bute میں مصوتے u کی صوتی شخصیات کو دیکھا جائے تو یہ بالکل مختلف نظر آتی ہیں۔ چنانچہ یہ زبان برتنے والے عوام کی مرضی ہے کہ وہ کہیں i کو y کی آواز دے لیں یا e کو خاموش کر دیں، یا نامِ خدا، کہیں a کو الف، الفِ ممدودہ یا یے بنا دیں جیسے par یا pat میں۔ وغیرہ۔ انسانی زبان بولنے والوں کی پابند ہے نہ کہ بولنے والے کسی لسانی قانون کے۔
اسی طرح مثلًا قدیم اردو میں حروفِ تہجی کے ذریعے اِعراب کی ادائیگی عام تھی۔ اوس (بجائے اُس)، اونھوں (بجائے اُنھوں)، وو (بجائے وہ)، رولانا (بجائے رُلانا)، ایدھر (بجائے اِدھر)، وغیرہ، لفظوں میں مصوتوں کے ذریعے آوازی شخصیتوں کا اظہار اردو کے کلاسیکی متون میں عام ملتا ہے۔
واضح رہے کہ اوپر کے پیراگراف میں ذکر کردہ لفظ اردو سے مراد برِعظیم کے علاقوں میں عربی فارسی حروف کے ساتھ دائیں سے بائیں لکھی جانے والی تمام زبانیں ہیں۔ اس دعوے کی دلیل کے لیے ہند و سندھ میں کہیں بھی مہیا پنجابی و سندھی کے کوئی بھی قدیم نسخے دیکھ لیے جائیں۔
یہ اردو کے موجودہ یعنی ہند فاربی رسم الخط (Indo-Perso-Arabic) کے ارتقا اور سائنسیت کی انتہا ہے کہ اس میں مصوتوں (ا، و، ی) کو مزید چھوٹا کرکے ایک طرح سے مرموزی (Symbolic) صورت دے دی گئی، اور آج یہ زبر، زیر اور پیش کی صورت میں موجود ہیں۔ ہم اردو والوں کو علمی و کارآمدی اعتبار سے جتنا مرضی کم ارز کہہ لیا جائے، یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ ہمارے رسم الخط نے دنیا کے موجود رسوم الخط میں شاید سب سے زیادہ ترقی کی ہے، اور یہ ترقی علمائے لسان کے ہاتھوں نہیں بلکہ زیادہ تر کاتبوں کے ہاتھوں باوجود ہوئی ہے جنھیں بسا اوقات ان پڑھ اور جاہل بے سواد تک کہا جاتا ہے۔ یہ الگ بات کہ آج کی دنیا میں یہی رسم الخط، جنابِ شان الحق حقی کے الفاظ میں، اردو کے نادان دوستوں کی وجہ سے، پیرِ تسمہ پا ثابت ہو رہا ہے۔
یہ زبانوں کے رسم الخط یعنی Writing System کی خوبصورتیاں اور ایکانتیں ہیں جن کی وجہ سے وہ اپنے اپنے امتیازی اوصاف اور حلقۂ اثر و استعمال رکھتی ہیں۔ ان کی وجہ سے کسی زبان یا اس کی لکھاوٹ کو برا یا ناکافی نہیں کہنا چاہیے۔
آخر میں عرض ہے کہ راقم کا علم و مطالعہ اور تجربہ و تعلیم نہایت محدود اور کمجہت ہے اس لیے اپنے دعوے کی بنیاد صرف آنکھوں سے دیکھے اپنے علاقوں میں پائے جانے والے لسانی متون پر رکھی ہے۔ کوئی دوست بہتر دلیل یا مثال کے ساتھ اپنا نقطۂ نظرپیش کر دیں تو ان کی بات بصد شکریہ قبول کی جائے گی۔
Facebook Comments
آپ نے سب سے آخر میں بالکل درست اور مبنی بر حقیقت بات کی کہ “راقم کا علم و مطالعہ اور تجربہ و تعلیم نہایت محدود اور کم جہت ہے”۔۔۔ بہت عمدہ جملہ ہے۔۔۔
بہت خوشی ہوئی کہ آپ کی صورت میں مجھے پہلا آدمی لا جو مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔