سید مودودی رح اور نظام تعلیم۔۔حسان عالمگیر عباسی

امام مودودی رح کی تعلیمی نظام کے بارے میں ‘فکر’ کو سمجھنا ان کی شہرہ آفاق کتاب ‘تعلیمات’ کے مطالعہ کا متقاضی ہے۔ پاکستان کے تعلیمی نظام کا جو خواب سید نے دیکھا تھا وہ دیگر عام تعلیمی اداروں میں شرمندہ تعبیر ہونا تو دور ‘ ان کی سوچ سے متاثرہ روحانی فرزندان نے بھی اس ‘فکر’ کو پس زنداں ہی رکھا۔

جس بھٹی میں اینٹوں کو پکانے کی بات سید نے کی تھی ،اسی بھٹی میں یہ ‘فکر’ خاکستر ہو گئی۔ کہیں بھی نہیں نظر آتا کہ دنیا کو دینی نقطہ نظر سے دیکھا جارہا ہو۔ بمشکل ہی نظام تعلیم میں ‘خدا شناسی’ دیکھنے کو ملتی ہے۔ ورنہ ‘تعلیم’ کو محض اپنے بطن کی آگ بجھانے کا ذریعہ بنائے جانے کا وطیرہ ابھی کا نہیں ہے۔ مودودی رح تو قدیم مذہبی تعلیم جو محض فرقہ واریت اور مذہبی منافرت کا درس دیتی ہے اور اس جدید تعلیم کے بھی خلاف تھے جہاں بے خدا فلسفہ پڑھایا جاتا ہے۔ وہ اس تعلیم کے بھی خلاف تھے جہاں قرآن کریم کو سمجھے بغیر محض اجر و ثواب کے حصول کا ذریعہ بنا دیا جائے اور وہ نظام تعلیم بھی ان کی سوچ سے متصادم تھا جہاں تاریخ کے اوراق کو پلٹتے خدائی نظر نہ آئے۔ انھیں وہ قدیم نظام تعلیم بھی چبھتا تھا جہاں سے نکلنے والا محض نکاح و صلوٰۃ کی ادائیگی کی حدود میں محدود رہے اور وہ جدیدیت بھی ان کی آنکھوں کو کھٹکتی تھی جہاں معاملات کو سلجھانے کے لیے خدا کی ضرورت و اہمیت محسوس نہ ہو۔

آپ نہ تو اس قدیم جہاز کے مسافروں سے خوش تھے جو دخانی مشین اور چند روشنیاں لگا کر سمجھ بیٹھے تھے کہ یہ ‘جدید جہاز’ ہے اور نہ ہی یورپی جہاز کے ان مسافروں سے جو کرائے کی ادائیگی کے ساتھ جانب منزل رواں دواں تھے بلکہ آپ چاہتے تھے ایک ایسا جہاز ہو جو سیدھا مکہ مکرمہ جاتا ہو ناکہ براستہ لندن۔ آپ مسٹر و مولوی کے فرق کو ختم کر کے ایک ایسا نظام دینا چاہتے تھے جہاں ایک ہی وقت میں ایک ہی ادارے میں مفتیان کرام ،فلسفی ،تاریخ دان ،انجئینرز ،طبیب ،حفاظ اور قائدین کی تیاری ہوتی ہو۔ وہ نظام جہاں مسلمانوں کو ‘غیر مسلم’ بنا دیا جائے اور محض خانہ پُری کے لیے ‘دینیات’ کا بستہ دے دیا جائے کو نفاق سمجھتے تھے۔ آپ چاہتے تھے کہ بچوں کو ایسی تعلیم دیں جہاں انھیں معلوم پڑے کہ سردی سے سکڑتی چیزوں کے باوجود پانی کے نہ سکڑنے کی وجہ پانی کی ہیئت نہیں بلکہ اس کے پیچھے خدائے واحد کی بحری مخلوق کو زندگی دینے کی حکمت و دانائی کارفرماں ہے۔

المیہ یہ ہے کہ اس نظام کے اطلاق کی جو ذمہ داری سید نے فکری جانشینوں پر لگائی تھی وہی اس ذمہ داری کی ادائیگی سے غافل رہے۔ ایسے میں آج بھی چند حضرات کی اس سوچ سے لگن اور اطلاق کے لیے خواہش و کوشش دیکھ کر یہ کہنا درست رہے گا کہ ‘پہنچی وہیں یہ خاک جہاں کا خمیر تھا’۔ یہ کتاب تحفے  میں  ملی اور معلوم پڑا کہ چند ہی ایسے ادارے موجود ہیں جنھیں مودودی رح کی ڈالی گئی بنیادوں پر چلایا جا رہا ہے اور چند ہی افراد ہیں جو لگن کے ساتھ مگن ہیں۔ یہ کتاب پڑھنے کے بعد یہ اچھے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ چند نظریات کے امین اداروں کے خلاف مفادات کی  خاطرسازشیں رچانے والوں کا مرکز و قبلہ کیا ہو سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

افسوس یہ رہا کہ ان سازشوں کا جال بچھانے والے تحریک کی سرکردگی میں بھی پیش پیش ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ان سازشی عناصر کا قلعہ قمع کیا جائے اور اس تاثر کو تقویت پہنچانے کی بجائے حوصلہ شکنی کی جائے کہ تحریک کے زوال کا بڑا سبب بیرونی عناصر کی بجائے اندرونی کرتا دھرتا حضرات ہوتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply