وبا کے دنوں میں کتابوں کا عالمی دن۔۔ارشد قریشی

آج  23 اپریل  کا دن پاکستان سمیت دنیا بھر میں  کتاب کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے جبکہ امریکہ اور برطانیہ میں 4 مارچ کتاب کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ کتابوں کے عالمی دن کا آغاز 1616ءمیں  سپین سے ہوا ، سپین کے شمال مشرق کیٹولینا میں ہر سال 23 مارچ سے 25 مارچ تک لوگ اپنی عزیز خواتین کو گلاب کے پھول پیش کرتے اور مشہور ناول، شیکسپئیر کے ڈرامے ایک دوسرے کو سناتے، گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ یہ روایت دوسرے کئی علاقوں میں بھی مشہور ہوئی، جس نے بعد میں کتابوں کے عالمی دن کی شکل اختیار کرلی۔

کتابوں کا عالمی دن منانے کا باقاعدہ آغاز اس وقت سے ہوا جب 1995 میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی جنرل کونسل کا اجلاس جو کہ فرانس میں ہوا جس میں اس ادارے نے 23 اپریل کو ورلڈ بک ڈے اینڈ کاپی رائٹس ڈے قرار دیا ،جس کے بعد دنیا کے کئی ممالک نے اسے منانے کا آغاز کیا،کتاب انسان کی زندگی کا لازمی جزو ہے اور کتاب کا تعلق انسان سے بڑا پرانا ہے، یہ انسان کے علم و ہنر اور ذہنی استعداد میں بھی بے پناہ اضافہ کرتی ہےلیکن ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ کتب بینوں کی تعداد میں روز بروز کمی آرہی ہے جس کی ایک بڑی وجہ مہنگائی، جب کہ دوسری اہم وجہ انٹرنیٹ اور موبائیل پر آن لائن کتابوں کی دستیابی ہے جس طرح انٹرنیٹ ٹیکنالوجی آنے کے بعد ہاتھ سے لکھے اور بذریعہ ڈاک بھیجے جانے  والے خطوط کا سلسلہ بہت کم ہوگیا ہے، اسی طرح کتب بینی کے شوق میں بھی کمی ہوئی ،یہی وجہ ہے کہ اب کتابوں کی رونمائی کے پروگراموں میں بھی کافی کمی آچکی ہے ،اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ کتابیں اب بھی شائع کی جارہی ہیں اور آج بھی کتابوں کو پڑھنے والے قدر دان موجود ہیں ،جو دستی کتابیں پڑھتے ہیں ،میں اگر کتب بینی کے  حوالے سے اس دور کا موازنہ آج سے پندرہ بیس سال پہلے کے دور سے کروں تو اس وقت لوگ بہت شوق سے کتابیں پڑھا کرتے تھے، اکثر دورانِ  سفر لوگوں کے ہاتھوں میں کوئی نہ کوئی کتاب ضرور ہوتی تھی اور یہ منظر کراچی میں چلنے والی سرکلر ریلوے میں تو بہت زیادہ ہی دکھائی دیتا تھا لیکن افسوس آج انہی  میں سے کئی ہاتھوں میں صرف موبائیل فون ہی نظر آتا ہے، اس دور میں جہاں کتب بینی اوپر بیان کردہ وجوہات کی وجہ سے معدوم ہوتی جارہی ہے ،وہیں اس میں کچھ حکمرانوں کی ستم ظریفی بھی ہے، جہاں عوامی لائبریریوں کو تیزی سے ختم کرکے اس شوق پر ایک اور قدغن لگا دی گئی ، بہت سی کتابوں کے ذخیروں پر مبنی ملک میں نیشنل سینٹر لائبریریوں کو کافی عرصہ سے بند کردیا گیا جہاں ان نیشل سینٹر لائبریریوں میں کتابوں کے پڑھنے والے کتب بینی میں وقت گزارا کرتے تھے ،وہیں ان سینٹروں میں علمی اور ادبی محفلیں ہوا کرتی تھی۔

ابھی کچھ عرصہ پہلے جب شہر کراچی میں عالمی اردو کانفرنس سجی تھی  تو  ہمیشہ کی طرح اس میں شرکت کرنے  لندن سے رضا علی عابدی صاحب بھی نشریف لائے،  انہوں نے اپنے کراچی میں قیام کے دوران  شہر میں منعقد ہونے والی کئی ادبی تقریبات میں شرکت کی ،اور بہت باریک بینی سے شہر کے بدلتے ہوئے طور طریقے بھی دیکھے اور لندن پہنچتے ہی اس حوالے سے ایک سیر حاصل کالم تحریر کیا ، جس میں شہر میں جہاں بہت سی ہونے والی تبدیلوں کا ذکر کیا ،وہیں کتب بینی کے حوالے سے بھی ایک تلخ حقیقت  رقم کی ، کہ میں نے کراچی شہر میں قیام کے دوران اُجلے پاجامے اور کرتے میں کسی بھی نوجوان کو کسی پارک  میں  کتاب پڑھتے ہوئے ٹہلتے نہیں دیکھا ۔

کراچی کے حوالے سے ایک اچھی بات یہ ہے کہ یہاں ایک  سٹریٹ لائبریری قائم کی گئی ہے جو ایک احسن قدم ہے  ۔ آج کل تو پوری دنیا پر کورونا  وبا کا راج ہے اور لوگوں نے احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے اپنے آپ کو گھروں میں محفوط کرلیا ہے ۔ اس حوالے سے گزشتہ  دنوں  ایک معاصر ویب سائیٹ کے  رائٹرز کلب کے زیر اہتمام ایک آن لائن پروگرام میں شرکت کی تو علم ہوا ان وبا کے دنوں میں کتب بینی  عروج پر ہے لوگوں نے قرنطینہ میں اپنا بہترین دوست کتاب کو ہی بنا رکھا ہے ۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت نا صرف کتابوں کی قیمتیں کنٹرول کرنے میں کردار ادا کرے، بلکہ تمام اہم جگہوں پر دوبارہ ان پبلک لائبریریوں کو فوری طور پر بحال کرے ،تاکہ معاشرے میں لوگوں بالخصوص نوجوان نسل میں مطالعہ کی اہمیت اور افادیت کو اجاگر کیا جاسکے،اور اس سنہرے دور کا دوبارہ آغاز کیا جاسکے، جب ہر روز ہی علمی اور ادبی محفلیں سجا کرتی تھیں ،جو معاشرے میں سدھار پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی  تھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

آئیے آج سے ہم اپنے آپ سے عہد کریں کہ اچھی کتابوں سے دوستی کریں گے  اور رات کو سونے سے پہلے کسی بہترین کتاب کا کچھ حصہ ضرور پڑھیں گے ،اپنے بچوں میں کتابیں پڑھنے کا شوق پیدا کریں اور انہیں اس کی اہمیت اور افادیت سے آگاہ کریں ۔

Facebook Comments

ارشد قریشی
محمد ارشد قریشی کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ شاعری کا شغف بھی رکھتے اور میم الف ارشیؔ کے تخلص کے ساتھ اشعار کہتے ہیں ،ہم سماج ڈیجیٹل میڈیا گروپ کے سربراہ اور پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کےنائب صدر ہونے کے ساتھ انٹرنیشنل ریڈیو لسنرز آرگنائیزیشن پاکستان کےصدر ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ایک اچھا سچا اور مخلص صحافی دنیا کو پرامن اور خوبصورت بنا سکتا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply