• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(اکتیسواں دن)۔۔گوتم حیات

کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(اکتیسواں دن)۔۔گوتم حیات

یہ دو، تین سال پرانی بات ہے صائمہ کو اٹلی گئے ابھی دو مہینے ہی ہوئے تھے کہ میرے ایک دوست ذوالفقار نے مجھ سے پوچھا عاطف تم چلو گے آغا خان ہسپتال۔۔۔ سر مطاہر ایڈمٹ ہیں۔ میں نے کہا ہاں ضرور چلوں گا۔ اس وقت میں سمجھا تھا کہ معمول کے چیک اپ کے لیے سر مطاہر ہسپتال میں داخل ہوئے ہوں گے۔ میں اس کے ساتھ ہسپتال گیا، جب ہم ان کے کمرے میں گئے تو انہیں کمزوری کی حالت میں دیکھ کر مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ میں سوچنے لگا کہ کیا یہ وہی سر مطاہر ہیں جو یونیورسٹی میں ہنستے مسکراتے، ہشاش بشاش سے نظر آتے تھے۔۔۔ ان کو دیکھ کر میری اپنی حالت خراب ہو گئی، بہت مشکل سے میں نے اپنے آپ کو کنڑول کیا اور سر کو سلام کر کے خیریت دریافت کی، سر نے میری طرف دیکھا اور گردن ہلا کر سلام کا جواب دیا۔ میں سمجھ گیا تھا کہ سر اس حالت میں نہیں ہیں کہ مجھے پہچان سکیں، پھر میں اور ذوالفقار کرسیوں پر بیٹھ گئے، اس وقت وہاں پر ان کی فیملی کے چند افراد بھی موجود تھے۔ ان لوگوں سے بات کرنے ہر ہمیں معلوم ہوا کہ سر کو کینسر ہے۔ میرے لیے وہ رات بہت غمگین تھی، ساری رات ان کا چہرہ میری آنکھوں کے سامنے آتا رہا اور ایک شعر جس کو میں نے بہت پہلے کہیں پڑھا تھا وہ میری زبان پر آکر اٹک گیا۔۔
اے خدا حشر میں نہ دینا ہمیں،
پھر سزا کوئی زندگی جیسی!
سننے میں آیا تھا کہ ڈاکٹروں نے سر مطاہر کا کیس خراب کر دیا تھا، اگر ان کا بروقت علاج ہو جاتا تو وہ آج زندہ ہوتے۔ جس رات ہم سر کو ہسپتال دیکھنے گئے اس کے دو، تین دن بعد ان کا انتقال ہو گیا، سر کی نمازِ جنازہ یونیورسٹی کے اندر پڑھی گئی جس میں ہم سب دوستوں نے شرکت کی تھی۔
یونیورسٹی کے چھ سالہ دورانیے میں سر مطاہر میرے ٹیچر کبھی نہیں رہے، نہ انہوں نے مجھے کبھی پڑھایا لیکن اس کے باوجود وہ میرے ٹیچر تھے، ان سے میری بہت پرانی شناسائی تھی اور اس کہ وجہ اپّی تھی۔
کراچی یونیورسٹی میں “اپّی” کا ایم اے انٹرنیشنل ریلیشنز میں داخلہ ہوا تو ہمارے گھر پر جیسے روشنی کا دریچہ وا ہو گیا۔ وہ جب یونیورسٹی سے دوپہر کو گھر آتی تو اس کے پاس نئی نئی باتوں کی ایسی پٹاری ہوتی کہ ہم سن سن کر دنگ رہ جاتے۔ افغانستان، سوویت یونین، امریکہ، سعودی عرب، ایران غرض دنیا کے بہت سے ممالک کے آپس میں تعلقات کیسے اور کیوں ہیں، کون دشمن ہے اور کون دوست، طالبان کون ہیں، ان کو کس نے بنایا، پاکستان کی آرمی کا بجٹ امریکہ کا مرہونِ منت کیوں ہے۔۔ مدرسوں کا سلیبس کس نے بنایا۔۔ کیا ہم آزاد قوم ہیں یا غلام قوموں سے بھی بدتر ہیں۔۔۔ ایسی بہت سی باتیں وہ ہمیں “سر مطاہر” کے ریفرنس سے بتاتی رہتی۔
اپّی کے ہر جملے کا آغاز اس طرح سے ہوتا تھا۔۔
“سر مطاہر نے آج ہمیں یہ بتایا۔۔۔ سر مطاہر نے کہا ہے کہ یہ طالبان لوگ امریکہ کے بنائے ہوئے ہیں ان لوگوں نے اسلام کے نام پر معصوم ذہنوں کو ہائی جیک کر لیا ہے، اسلام کو سب سے زیادہ خطرہ انہی قاتلوں سے ہے۔ سر مطاہر افغانستان کے معاملات پر اتھارٹی رکھتے ہیں۔۔

سر مطاہر۔۔۔۔ سر مطاہر۔۔۔۔”
اپّی سر مطاہر سے بیحد متاثر تھی اور اُس سے ہر روز باتیں سن سن کر ہم بھی سر مطاہر سے ملے بغیر ہی متاثر ہونے لگے۔۔۔ اور پھر متاثر ہوتے ہی چلے گئے۔
اپّی آج بھی سر مطاہر کو بہت یاد کرتی ہے، پچھلے دنوں اپّی نے مجھے میسج کر کے کہا کہ:
“عاطف تم تو بہت اچھے لکھاری بن گئے ہو اگر آج میرے سر مطاہر زندہ ہوتے تو میں ان کو تمہاری ڈائری کی قسطیں پڑھنے کے لیے سینڈ کرتی”، اپّی کی اس بات پر میں نے کہا کاش کہ وہ زندہ ہوتے!
جن دنوں  اپّی سر مطاہر کی باتیں کرتی تھی ٹھیک ان ہی دنوں میرا کالج بھی شروع ہو گیا تھا۔ میں خوب شوق سے کالج جاتا۔ ہماری بوٹنی کی ٹیچر میڈم زیب النسا”ہیریٹیج بلڈنگز” کی اہمیت پر ہم سے ہر روز بات کرتیں، وہ ہمیں آگاہ کرتیں کہ پرانی عمارتیں کسی بھی قوم کی شناخت ہوتی ہیں اور ان کی حفاظت کرنا ہم سب کی ذمےداری ہے۔ خود ہمارے اپنے کالج کی عمارت بھی تقسیم سے پہلے کی تھی، ان کی باتوں کی وجہ سے مجھے پرانی عمارتوں کے بارے میں مزید جاننے کا تجسس ہوا۔

میں کلاسس لینے کے بعد بولٹن مارکیٹ، بمبئی بازار اور ٹاور کی پرانی گلیوں میں نکل جاتا اور وہاں پر کلونیل وضع کی عمارتوں کو دیکھ دیکھ کر غمگین ہوتا، میرا دل چاہتا کہ کاش میں ان خوبصورت عمارتوں کی خستہ حالت کو ٹھیک کر سکوں۔۔۔ ایک پرانی عمارت تو مجھے اتنا اداس کر گئی کہ میں نے اس پر فوراً سے مختصر سی نظم بھی لکھ ڈالی۔۔۔ وہ پوری نظم میرے حافظے سے اب مٹ چکی ہے۔
اکثر چھٹی کے بعد میں کالج سے پیدل اردو بازار کا رخ کرتا، پہلی بار میں ابّو کے ساتھ ہی کتابیں لینے کے لیے اردو بازار گیا تھا۔ اُس دن میں نے منٹو کا “منٹو نامہ”، خدیجہ مستور کا “زمین” اور اشفاق احمد کا “من چلے کا سودا” لیا تھا، یہ تینوں کتابیں ویلکم بُک پورٹ سے ہم نے خریدی۔۔۔ میں پھر اکثر اردو بازار جانے لگا اور میری منزل ایک ہی ہوتی
“ویلکم بک پورٹ”۔
ایک طرف اپّی کی سر مطاہر والی حیرت میں مبتلا کرنے والی باتیں اور دوسری طرف اردو ادب کا مطالعہ۔۔۔ میرا ذہن اب بدلنے لگا تھا۔
اشفاق احمد کا ڈرامہ “من چلے کا سودا” پڑھ کر میرے دل میں اسلام کے مختلف فرقوں کے بارے میں گنجائش پیدا ہوئی، ورنہ پہلے تو میں صرف اپنے “سنّی” عقیدے کو ہی درست مانتا تھا اور دوسرے فرقے میرے نزدیک غلط تھے۔ اس ڈرامے کا ایک گیت مجھے اتنا بھایا کہ میں نے اس کو فوراً یاد کر لیا تھا، اس گیت کے بول تھے؛

Advertisements
julia rana solicitors

“تم اپنی مسجد کو جاؤ
میں اپنی مسجد جاتا ہوں
پر ساتھ رہیں گے ہم دونوں
اور ساتھ مریں گے ہم دونوں
صد شکر کرو ہم رنگ ہیں سب
اور اک دوجے کے سنگ ہیں سب
ایک آقا کملی والا ہے
ہم اس کے مست ملنگ ہیں سب
ہم دونوں کا ہے ایک خدا
ہم دونوں کا ہے ایک آقا
قرآن بھی ایک رسول بھی ایک
اور دونوں کا ہے ایک کعبہ
تم اپنی مسجد کو جاؤ
میں اپنی مسجد جاتا ہوں!”
اسی طرح اشفاق احمد کی ایک اور کتاب نے مجھے بہت متاثر کیا، وہ انگریزی کا ایک مشہور ناول تھا جس کا اردو ترجمہ “وداعِ جنگ” کے عنوان سے ہوا، اس کے مصنف کا نام “ارنسٹ ہیمنگوئے” تھا۔ اس ناول کی بدولت مجھے جنگ سے نفرت ہو گئی، میرے اندر یہ احساس اجاگر ہوا کہ “مذہب کے بغیر بھی انسان اپنی زندگی گزار سکتا ہے”۔
کالج کے زمانے میں ایک اور اہم ہستی سے میری ملاقات ہوئی، ان کا نام شہناز شورو تھا، جو اب ڈاکٹر شہناز شورو کے نام سے پہچانی جاتی ہیں۔
یہ وہ وقت تھا جب اردو ادب کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے کچھ سال ہوئے تھے۔ اُس زمانے میں، میں نے محدود کتابیں پڑھ رکھیں تھیں۔ کالج کے شروع کے دنوں میں ہی مجھے ان کی ڈریسنگ اور ہیئر سٹائل نے اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔
وہ لغاری صاحب کے ساتھ کالج آتی تھیں۔ جیپ سے اترنے کا ان کا منفرد انداز میں ہر روز دیکھا کرتا۔ اُس وقت میں اس بات سے بےخبر تھا کہ وہ افسانہ نگار بھی ہیں۔ بدقسمتی سے وہ میرے سیکشن کی ٹیچر نہیں تھیں۔ ایک دن بہت ہمت کرکے کالج کے کوریڈور میں جا کر میں نے اُن سے پوچھا؛
“میڈم کیا میں آپ کی کلاس میں بیٹھ سکتا ہوں اور آپ نے نہایت خوبصورتی سے مجھے کہا تھا
یس! وائے ناٹ۔۔۔”۔ اُن دنوں “شہناز شورو” میری زندگی کی وہ پہلی شخصیت تھیں جنہوں نے مجھے اپنی لکھی ہوئی کتاب بطور تحفہ دی اور غالباً یہی وہ وقت تھا جب میں نے کسی کتاب کی تخلیق کار کو اپنے سامنے دیکھا۔
میں کالج کے زمانے میں چار، پانچ سال تک مستقل فیل ہوتا رہا۔ یہی وہ دن تھے جب میں نے قرۃ العین حیدر کا ناول “آگ کا دریا”، انتظار حسین کا “بستی”، منٹو کے ڈھیروں افسانے اور اس کے بعد مستنصر حسین تارڑ کا ناول “راکھ” پڑھا۔ ناول “راکھ” نے مجھے پاکستان کی حقیقی اور سفاک صورتحال سے روشناس کروایا۔ ان دنوں میں نے باقاعدگی سے “زاہدہ حنا” کے کالموں کا مطالعہ بھی شروع کر دیا تھا۔
ان کے کالمز کی وجہ سے جمہوریت اور آمریت کے درمیان فرق کو میں گہرائی سے سمجھ سکا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ اکتوبر 1999 میں مشرف نے منتخب عوامی حکومت کو اپنی آہنی طاقت کے بل پر ختم کر کے پاکستانی عوام کے ساتھ کتنا بڑا دھوکا کیا ہے۔ پاکستان کا آئین جس کو وہ کاغد کا پرزہ کہہ کر آئے روز تحقیر کرتا تھا دراصل خود روندے جانے کے قابل تھا لیکن افسوس کہ وہ ہم پر مسلط ہو چکا تھا۔ اب ایک ہی راستہ تھا اس کی اندھی طاقت کو چیلنج کرنے کا اور وہ تھا مزاحمت کا راستہ، آمریت سے نفرت کا راستہ۔۔۔۔ اور یوں میں دلی طور پر اُس منتخب نمائندے کے قریب ہوتا چلا گیا جس کو مشرف نے جھوٹے، من گھڑت “طیارہ سازش کیس” کی بنیاد پر جیل میں قید کیا ہوا تھا!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply