(چھینک آتی تو چھینک لیتے تھے)
ہم نے کراچی کو مختلف نجی اور طاقتور سرکاری حوالوں سے جابجا دیکھا ہے۔ ظاہر بھی اور چھپا بھی مگر جیسی اب ہو گئی ہے محفل کبھی ایسی تو نہ تھی۔ ہندی کی کہاوت کو سچ مان لیا جائے کہ بارہ برس میں گھُورے (کوڑے کا ڈھیر) کے دن بھی پھر جاتے ہیں تو کراچی کے دن ہمارے حساب سے کئی دفعہ پھرے ہیں۔ اب کی دفعہ یہ نادر شاہ کی قتل و غارت گری والی دلی پر کسی گونگی بیوہ کی فریاد لگتا ہے۔
سپریم کورٹ کے معزول و معتوب افتخار چوہدری کی آمد پر بارہ مئی 2007 کو وہاں اسلام آباد میں سپہ سالار کمانڈو نے جب اپنا مکا لہرایا تو کراچی میں عالم وہی ہوا کہ تیری چنری لہرائی برسات ہو گئی۔ اس ایک بد احتیاط جنبش دست سے کراچی کے اہل نظر کو اذن قتل و غارت گری مل گیا۔ اس دن ہر طرف خوف کے مہیب سائے محیط تھے۔ کراچی میں جب بھی 25 برسوں کے یعنی 1987 سے 2012 ایسے پہیہ جام، لاک ڈاؤنز اور ہنگامے ہوتے تھے اس شہر کے پہلے کمشنر سر فرئیر بارٹل کے بنائے باغ سے ورے کلفٹن ڈیفنس کے علاقے اس کے اثرات سے محفوظ رہتے تھے۔ یہاں دن میں لان لوٹ سیل اور رات میں خوش پوشاک فاقہ زدہ حسیناؤں کی در پردہ گربہ خرامی (کیٹ واٹ) جاری رہتی تھی۔
بیس مارچ سے کراچی میں کورونا سے پہلی موت واقع ہوئی تو خوف نے بے لطفی اور بے یقینی کا یہ انڈیکس پار کر کے ان محفوظ اور لاتعلق علاقوں کا بھی رخ کر لیا۔ ایسا ہی کوئی عالم تھا کہ سندھ گورنمنٹ نے بھی لاک ڈاؤن کی ٹھان لی۔ شروع کے دنوں میں ایسی سختی نہ تھی۔
وزیر اعظم نے کورونا کے بارے میں جب لاک ڈاؤن پر نرم رویے کا عندیہ دیا تو ہمیں ایک عجب گمان گزرا۔ ممکن ہے اپنے بے حد بااثر برطانوی تعلقات کی وجہ سے ان کے پاس اس کے سازش کے پس منظر میں کچھ ایسی اطلاعات ہوں جو بہت الومناتی قسم کی ہوں۔ حسین ہارون نے بھی جب اپنی اس طرح کے خدشات پر مبنی ویڈیو اپ لوڈ کی تو ہمارے گمان کو تقویت ملی۔ ہارون اور اصفہانی گھرانے امریکہ اور ایران سے دیرپا الفت کے حوالے سے بہت مشہور گھرانے ہیں۔
اس دوران کراچی کے باخبر حلقے اسلام آباد اور سندھ سرکار کے ایک ہی معاملہ میں مختلف رویوں کو امریکہ کے ری پبلکن صدر اور نیویارک کے ڈیموکریٹ صدر اینڈریو کومو کی طرح کی پوائنٹ اسکورنگ سمجھتے رہے۔ صدر ٹرمپ کورونا کو گھر کی مرغی سمجھتے رہے اور گورنر کومو چیختے رہے کہ پلکیں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے نیویارک ہلاکتوں کی تعداد کے باب میں اٹلی کو آنکھیں دکھانے لگا۔
وزیر اعظم کے خطاب کے ہفتے بھر بعد جب آئی ایس پی آر کی جانب سے کانفرنس ہوئی اور لاک ڈاؤن میں سختی کا اعلان وسیم اکرم پلس کی جانب سے بھی کیا گیا تو صورتحال کے گھمبیر ہونے کا احساس ہوا۔ اعلی سطح پر پائے جانے والے اس پالیسی کے تضاد نے عوام کو لرزہ بر اندام کر دیا۔
پریس کانفرنس کے اگلے دن ہم گھر کا سودا لینے نکلے تو سی ویو کی ساحلی پٹی کی تنہائی دل کی خانہ ویرانی سی لگی۔ ایسا لگا کہ سمندر اپنے کسی عزیز کی موت کا سن کر اپنے گندے بدبودار گدلے پانی سمیت تعزیت کو چلا آیا ہو۔
ایک جگہ کار روکی سوچا اتر کے دیکھیں کہ کیسی فیل (Feel) آتی ہے۔ یہ وہی ساحلی پٹی ہے جہاں عبائے والیاں اپنے عشاق کے ساتھ فجر پڑھ کر گھر سے نکل آتی ہیں۔ بحیرہ عرب کو گواہ بناکر ساری عمر ساتھ رہنے کے عہد و پیماں باندھتی ہیں۔ فلم ٹائی ٹینک کا مشہور جملہ I Jump You Jump Right کہتی ہیں۔ عبائے کی وجہ سے پتہ نہیں چلتا کہ اگلے ہفتے وہ لیونارڈو کپریو اب کی دفعہ کس نئی کیٹ ونسلیٹ کو ساتھ لے آیا ہے، بس شانوں، قد اور عبائے کی کٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پچھلے والی داستاں تھی کسی اور شہزادے کی۔
کار کا رکنا تھا کہ اے ایس آئی حضور بخش گن تھامے ڈائیور فقیر محمد آف کالا باغ کی طرف بڑھا تو اس نے ہر ایسے موقعے پر جو فقرہ داغنا ہوتا ہے وہ کہہ ڈالا کہ او بھائی جہیٹری گولی مارنی ہے پچھے مار۔ حضور بخش نے ہمیں سمجھایا کہ جس طرح دادو اور خیرپور کی فضاؤں میں نشہ ہے ویسے ہی کراچی کی فضاؤں میں کورونا چھایا ہوا ہے۔ ہم سودا لیں اور گھر چلے جائیں۔ ساحل پر دفعہ ایک سو چونتالیس لگی ہے۔ ہم نکل چلے۔
ہمارے پاس پڑوس اور رشتہ دار عورتوں نے واٹس اپ کے کئی گروپس بنا رکھے ہیں ۔۔۔ باجی میلاد والی، ون ڈش والیاں، لان لوٹ لو، ایمان لوٹ لو Less -Ugly Parlour اور دی ماسی ہنٹرز۔ سی آئی اے کی چیف جینا ہیسپل اگر پاکستان میں ہوتیں تو وہ اس دی ماسی ہنٹرز گروپ کی ایڈمن ہوتیں. ان کے بھی جسمانی اور نفسیاتی تشدد کے حوالے سے معاملات مبہم ہیں۔ ماسیوں کا یہ ڈیفنس کے علاقے میں سب سے بڑا ڈیٹا بنک ہے۔ سارا دن اس میں گھریلو ملازماؤں کی حرکات و سکنات پر معلومات کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔
انتیس تاریخ کو جب اس پر گروپ میں ہماری بھتیجی کو پیغام آیا کہ ماسی سعدیہ کی خبر۔ تیسرا دن ہے آ نہیں رہی۔ فون اٹھا کر بند کردیتی ہے۔ مجھے ڈر ہے بے چاری کو کہیں کورونا نہ ہو گیا ہو ۔بعد میں پتہ چلا کہ وہ رکشہ جو بیگم صاحب نے اس کے بھائی کو اسے لانے لے جانے اور روزی کمانے کے لیے خرید کر دیا تھا اس میں بیٹھ کر نور پور۔ نورنگا پہنچ گئی ہے۔ وہ تنہا نہیں تھی۔ بڑی رقموں کے عوض یہ کام بہت سی ٹرینوں، بسوں ایمبولنسوں، سامان کے ٹرک والوں اور چنگجی رکشہ والوں نے کیا۔ جنوبی پنجاب سے کراچی کی طرف بڑی نقل مکانی ہوئی ہے۔ یہ بنیادی طور پر چار پیشوں سے جڑے افراد ہیں۔ کنسٹرکشن، فیکٹری، ریڑھی والے اور گھریلو ملازمائیں۔ ان کی بہت بڑی تعداد کراچی چھوڑ کر واپس چلی گئی ہے۔ ان میں گھریلو ملازمین کے علاوہ سب ہی روز کنواں کھود کر پانی پینے والے ہیں۔
ہم گاڑی لے کر شہر میں گھومتے پھرے تو لگا کہ لاک ڈاؤن کے ساتھ کئی مشکلات جڑی ہیں جس میں سب سے پہلے تو خود اس وبا کی معیاد اور پھر حکومت پر عوام کے اعتماد کا شدید فقدان ہے۔ اسلام آباد سرکار کو وہ اس فرنچ ملکہ کی طرح سمجھتے ہیں جو کھڑکی سے بھوکوں کو کیک کھانے کا مشورہ دیتی تھی۔ عوام کی بڑی اکثریت اس کے امدادی پروگراموں کو سچ نہیں مانتی۔ مہنگائی کے معاملے میں اس کی ناکامی اور لوٹی ہوئی دولت کے حوالے سے اسے وہ رد کربیٹھی ہے۔ سندھ سرکار کو البتہ وہ جمہوریت کا جبر سنبھل کر جھیلتی ہے مگر اپنا نہیں مانتی۔ مراد علی شاہ کو وہ انفرادی طور پر ایک اچھا روشن خیال اور انسان دوست سی ایم مانتے ہیں مگر ان کی بلاول ہاؤس سے جڑی جو مشرقی عورت والی مجبوریاں ہیں وہ ان کے اعتماد کے قیام میں رکاوٹ ہیں۔
یہ وبا کب تک جاری رہے گی وہ کب تک گھروں میں محصور رہیں گے، اس حوالے سے وہ اب باقاعدہ احکامات کی خلاف ورزی کرنے لگے ہیں۔ دو دن میں آٹے کا پانچ کلو کا تھیلا اسی روپے مہنگا ہو گیا ہے، اس وجہ سے کراچی کے شکوک و شبہات کی گود میں پالے ہوئے عوام کو لگتا ہے کہ غلام مرتضی راہی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ ع
چاہتا ہے وہ کہ دریا سوکھ جائے
ریت کا بیوپار کرنا چاہتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد اقبال دیوان چار عدد کتب کے مصنف ہیں جسے رات لے اڑی ہوا، وہ ورق تھا دل کی کتاب کا، پندرہ جھوٹ اور تنہائی کی دھوپ، دیوار گریہ کے آس پاس۔ پانچویں کتاب ”چارہ گر ہیں بے اثر“ ان دنوں ادارہ قوسین کے ہاں زیرطبع ہے۔ آپ کے کالمز وجود، دلیل،دیدبان اور مکالمہ پر شائع ہوتے رہے ہیں۔ آپ سابق بیورکریٹ ہیں.
بشکریہ نقار خانہ
Facebook Comments
اقبال دیوان صاحب کے کالمز کا دیر سے علم ہوا لیکن جب پڑھنا شروع کیا تو بہت لطف آیا۔ ان کی تہاریر میں یوسفی صاژب کی جھلک نظر آتی ہے۔ اللہ ان کو لمبی عمر عطا کرے مین
اقبال دیوان صاحب کے کالمز کا دیر سے علم ہوا لیکن جب پڑھنا شروع کیا تو بہت لطف آیا۔ ان کی تہاریر میں یوسفی صاحب کی جھلک نظر آتی ہے۔ اللہ ان کو لمبی عمر عطا کرے مین