• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • گوادر میں لاک ڈاؤن کا ماڈل باقی ملک سے مختلف کیسے؟۔۔زین الدین احمد

گوادر میں لاک ڈاؤن کا ماڈل باقی ملک سے مختلف کیسے؟۔۔زین الدین احمد

پاکستان بھر میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے کاروباری و تجارتی سرگرمیاں بند ہیں، مزدور طبقہ بے روزگار اور تاجر پریشان ہیں مگر بلوچستان کے شہر گوادر میں انتظامیہ نے کورونا کے پھیلاﺅ کو روکنے کے ساتھ ساتھ تاجروں اور مزدوروں کی مشکلات دور کرنے کے لیے مختلف حکمت عملی اپنائی ہے۔ ساحلی شہر میں انتظامیہ نے ایران کے ساتھ زمینی اور سمندری سرحد اور شہر کے داخلی راستوں پر سخت انتظامات کرنے کے بعد تاجروں کو ہفتے میں صرف ایک بار مختلف اوقات اور دنوں میں کاروبار کی اجازت دی ہے۔ ماہی گیروں کو بھی احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے ساحل سے پانچ ناٹیکل میل کی حدود میں مچھلی کے شکار کی اجازت دی گئی ہے۔ ڈپٹی کمشنر گوادر کیپٹن ریٹائرڈ محمد وسیم نے اردو نیوز کو بتایا کہ ‘گوادر میں اب تک کورونا کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا۔ کسی کو شہر سے باہر نکلنے یا اندر آنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔’

ان کے مطابق ‘کراچی اور کوئٹہ جانے والے راستوں کو چیک پوسٹیں بنا کر سیل کیا گیا ہے۔ ایران کے ساتھ زمینی و سمندری سرحد پر مقامی قبائل کے تعاون سے آمدورفت بند کرائی گئی ہے۔ داخلی و خارجی راستوں پر سخت نگرانی کے بعد ہم نے شہر میں محدود پیمانے پر کاروباری سرگرمیوں کی اجازت دی ہے۔’ انہوں نے کہا کہ ‘تاجر اور مزدور طبقہ لاک ڈاﺅن کی وجہ سے بہت متاثر ہو رہا تھا، حکومت ہر گھر تک راشن نہیں پہنچا سکتی اس لیے ہم نے غریب طبقے کی مشکلات کے پیش نظر سمارٹ لاک ڈاﺅن کی حکمت عملی اپنائی ہے۔’ ڈپٹی کمشنر کے مطابق ‘انجمن تاجران کے ساتھ مل کر ہم نے خوراک اور ضروری اشیا کے علاوہ باقی تمام کاروبار کے لیے مختلف اوقات اور دن مقرر کر دیے ہیں۔’ان کے بقول ‘موبائل فون شاپس، جیولرز، کاسمیٹیکس، جوتوں، ہارڈویئر، فرنیچر، سیمنٹ اور سریے کی دکانیں ہفتے میں صرف ایک بار الگ الگ دن اور اوقات میں چھ گھنٹے کے لیے کھلیں گی۔’

ڈپٹی کمشنر کا کہنا ہے کہ ‘کپڑے اور درزی کی دکانیں جمعرات کو شام کے بعد سات گھنٹے اور اتوار کو صبح کے اوقات میں چھ گھنٹے کھولنے کی اجازت ہوگی۔ حجام بھی ہفتہ میں صرف ایک دن کام کریں گے۔’ کیپٹن ریٹائرڈ محمد وسیم نے بتایا کہ ‘موٹرسائیکلوں اور گاڑیوں کی مرمت اور پرزہ جات فروخت کرنے والی دکانیں ہفتہ اور اتوار کو شام چار بجے سے رات دس بجے تک کھلیں گی۔” ماہی گیروں کی سہولت کے لیے مچھلی کے جال فروخت کرنے والوں کو بھی ہفتہ میں ایک دن کاروبار کی اجازت ہوگی۔ دکانیں کھولنے کے دوران حفاظتی تدابیر پر سختی سے عمل درآمد کرایا جا رہا ہے۔ ماسک، دستانے اور سینی ٹائزر کے استعمال کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ ایک دکان میں بیک وقت تین سے زائد افراد کے جمع ہونے پر بھی پابندی لگائی گئی ہے۔’


انجمن تاجران گوادر کے صدر غلام حسین دشتی نے ضلعی انتظامیہ کے فیصلے کو سراہا ہے۔ اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘مسلسل ایک ماہ سے بازار اور دکانیں بند ہونے کی وجہ سے تاجر بہت پریشان تھے۔ چھوٹے تاجروں کے گھروں میں بھی فاقوں کی نوبت آگئی تھی۔کئی کاروباروں کا رمضان اور عید کے دنوں میں سیزن ہوتا ہے۔ اگر دکانیں مزید بند رکھی جاتیں تو تاجروں کا پورا سال ضائع ہو جاتا۔ تاجر انتظامیہ کے ساتھ تعاون کر کے کاروبار کر رہے ہیں۔’ڈپٹی کمشنر گوادر نے بتایا کہ ‘گوادر کی زمینی اور سمندری سرحدیں ایران کے ساتھ لگتی ہیں جن کی سخت نگرانی کی جا رہی ہے۔ جیونی اور بندری کے قریب ایران سے ملحقہ سمندری حدود میں کشتیوں کے داخلے پر پابندی عائد ہے۔ ان علاقوں کے مچھیروں کو متبادل جگہ پر ماہی گیری کی اجازت دی گئی ہے۔’


کیپٹن ریٹائرڈ محمد وسیم کے مطابق گوادر میں تقریباً 30 ہزار سے زائد افراد ماہی گیری سے گھر چلاتے ہیں۔ انہیں تنگ گلیوں میں قائم گھروں میں بٹھانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہر وقت ہجوم اکٹھا رہنے اور بیروزگاری سے بچنے کے لیے مچھیروں کو ساحل سمندر سے پانچ ناٹیکل میل کے اندر ماہی گیری کی اجازت دی ہے تاکہ وہ اپنا گھر بار چلاسکیں۔ اس سے لوگوں کی خوراک کی ضروریات بھی پوری ہو رہی ہیں۔’انہوں نے بتایا کہ ‘مچھلی کا شکار کر کے واپس آنے والے ہر ماہی گیر کی ساحل پر سکریننگ کی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں میڈیکل ٹیمیں اور رضا کار تعینات کیے گئے ہیں۔ ماہی گیروں کو احتیاطی تدابیر سے آگاہ کرتے ہوئے ان میں پانچ ہزار سے زائد ماسک بھی تقسیم کیے گئے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london


انجمن تاجران بلوچستان کے ترجمان اور کوئٹہ میں جوتوں کے کاروبار سے وابستہ اللہ داد ترین نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ‘حکومت کوئٹہ جیسے بڑے شہر میں بھی اسی طرح کی حکمت عملی اپنائے۔ جوتوں، کاسمیٹیکس، جیولری اور کپڑوں کا کاروبار کرنے والوں کا یہی سیزن ہے، انہیں محدود اوقات میں کاروبار کی اجازت دی جائے۔ تاجروں نے کروڑوں روپے کا مال ادھار پر خریدا ہے۔ یہ مال اگر اب فروخت نہیں ہوگا تو وہ معاشی طور پر تباہ ہوجائیں گے۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply