اسلام کو مسجد سے گھر لے آئیں۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

مذہب اور سائنس کا تعلق کیا ہے؟ اس حوالے سے بہت زیادہ نظریات پائے جاتے ہیں۔ روشن فکر لوگ مذہب کو زیادہ سے زیادہ اتنی اہمیت دینے کو تیار ہیں کہ یہ اخلاقی خیالات کا مجموعہ ہے، جن کی انسان کی اجتماعی زندگی میں تو کوئی حیثیت نہیں ہے، مگر انفرادی زندگی میں انسان اس پر عمل کرسکتا ہے۔ سائنس تخلیق خدا کو جاننے کی جستجو کا نام ہے اور مذہب انسان کی فکری رہنمائی کرتا ہے، تاکہ انسان دنیا و آخرت کی سعادت حاصل کرسکے۔ مذاہب کی تاریخ بہت قدیم ہے، ایک مغربی سکالر کے بقول دنیا میں آج تک کوئی ایسی بستی دریافت نہیں ہوئی، جس کا کوئی مذہب نہ ہو۔ اسی طرح سائنس بھی ابتدائے آفرینش سے انسانی دماغ میں پنپتی رہی ہے۔ اگرچہ لیبارٹریاں نہیں تھیں، یوں تجربات نہ تھے، مگر سوچ و فکر اور تدبر سے کام لیا جاتا تھا۔ مذہب اور سائنس کی کوئی لڑائی نہیں ہے، بلکہ دونوں کے میدان الگ الگ ہیں۔ بعض مقامات پر سائنسی نقطہ نظر کسی مذہبی نظریہ یا عمل کے بظاہر مدمقابل نظر آتا ہے۔

کرونا کو ہی لے لیں، ایک وباء کی صورت اس وقت پوری دنیا اس کی لپٹ میں ہے۔ ویسے تو انسان سو سال بعد کسی وباء کی لپٹ میں ہے اور دنیا کی معیشت کی چوکیں ہل رہی ہیں۔ سیاسی، مذہبی اور ثقافتی اثرات اتنے ہیں کہ دنیا اب قبل از کرونا اور بعد از کرونا میں تقسیم کی جا رہی ہے۔ بڑے پیمانے پر ترجیحات تبدیل کی جا رہی ہیں۔ اب صحت کا شعبہ بھی قومی سلامتی کے باب میں داخل ہو رہا ہے۔ کیپٹل ازم کو سب کچھ سمجھنے والے امریکی نظام نے بھی گاڑیاں بنانے والی بڑی کمپنی کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ انجن بنانے کی بجائے مریضوں کے لیے وینٹیلیٹر بنائے اور وہ ایسا کرنے پر مجبور ہوئی۔ چند دن پہلے آپ نے میرا جسم میری مرضی کے بہت سے نعرے سنے ہوں گے، اب وہ نعرے لگانے والی چند خواتین نظر ہی نہیں آتیں، جانے کس کونے میں قرنطینہ ہوئے بیٹھی ہیں۔؟ جو بے حجابی کی تحریک چلا رہی تھیں، وہ منہ پر ماسک لگائے عملی طور پر نقاب کیے گھوم رہی ہیں۔

اقوام متحدہ جسے بنیادی انسانی حقوق میں قرار دیتا تھا، چلنے پھرنے کی آزادی، جو ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور اس سے سلب نہیں ہوسکتی، سوائے عدالتی حکم کے۔ اب دنیا بھر کے تمام اہم ممالک آزادی کے اس تصور کا گلا گھونٹ چکے ہیں۔ میرے علم میں نہیں کہ کسی ملک نے شخصی آزادی کے اس نظریئے پر عمل کیا ہو، بلکہ اب تو گھروں سے باہر نکلنے پر جرمانے عائد کیے جا رہے ہیں۔ عجب ہے جیسے پہلے کسی شخص سے اس کی آزادی سلب کرنے کے لیے عدالت کو وجہ بتانا ضروری ہوتا تھا، آج اس کے برعکس کسی شخص کو فریڈم آف مومنٹ کے لیے انتظامیہ کو وجہ بتانا ہوتی ہے کہ میں اس لیے گھر سے باہر نکلا ہوں۔

پاکستان میں پہنچ کر مسئلہ عجیب صورتحال اختیار کر لیتا ہے۔ کرونا ایک متعدی بیماری ہے، جو ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہو کر بڑی تیزی سے معاشرے کو اپنی لپٹ میں لے لیتی ہے۔ حکومت نے فیصلہ کیا کہ نماز باجماعت فقط مسجد کی انتظامیہ کے چار پانچ لوگ ادا کر لیں گے، باقی تمام لوگ گھروں میں نماز ادا کریں۔ نماز جمعہ کے بارے میں بھی یہی کہا گیا اور آگے ماہ رمضان آرہا ہے تو تراویح اور دیگر اجتماعات کے حوالے سے بھی ماہرین کی رائے یہی تھی کہ یہ نہیں ہونے چاہییں۔ کراچی میں مفتی منیب الرحمن اور مفتی تقی عثمانی نے علمائے کرام کی نمائندگی کرتے ہوئے کانفرنس کی، جس میں مساجد کو دوبارہ کھولنے کا اعلان کیا۔ اس اعلان سے ملکی سطح اس بحث نے جنم لیا کہ جب ڈاکٹرز اور ماہرین ایسے اجتماعات سے منع کر رہے ہیں اور مذہبی قائدین اس کے انعقاد کا کہہ رہے ہیں تو کس کی مانیں۔؟

سادہ لوح لوگوں کو توکل کے وہ معنی بار بار سمجھائے گا، جن کو توکل نہیں صرف حماقت ہی کہا جا سکتا ہے، کیونکہ تدبیر توکل کے خلاف نہیں ہوتی۔ ٹی وی چینلز کی دن رات کی نشریات میں اس بات پر فوکس کیا گیا کہ مذہبی لوگ پاکستان کو کرونا جیسی وبا سے دوچار کرنا چاہتے ہیں اور اس حوالے سے عملی طور پر یہ دلیل دی گئی کہ حکومت اور ماہرین نے رائے دی تھی کہ تبلیغی اجتماع منعقد نہ ہو، جب اسے کیا گیا تو نتائج سب کے سامنے ہیں۔ کرونا ان تبلیغی جماعت کے لوگوں کے ذریعے پورے پاکستان میں پھیل گیا۔ بڑے پیمانے پر ریاستی مشینری کو استعمال کرکے تبلیغی جماعت کے لوگوں کو قرنطینہ سنٹرز میں منتقل کیا گیا۔

مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آتی کہ جانے کیوں علمائے کرام کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ یہ انسانی جان کا معاملہ ہے، جس میں عام حالات کے احکامات نہیں ہوں گے۔ مسجد میں نماز ادا کرنا اور دیگر مذہبی اجتماعات اسلام کی اساس ہیں اور عام حالات میں کوئی مسلمان ان سے دستبردار ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا، مگر اب ایسا نہیں ہے۔ ان حالات کو سمجھنا ہوگا کہ اب پاکستان پر خدانخواستہ کسی اسلام دشمن کا قبضہ نہیں ہے، جو اسلام دشمنی میں شعائر اسلام پر پابندی لگا رہا ہے۔ اب یہاں مسلمانوں کی حکومت ہے، کمزوریاں اپنی جگہ میں، اکثر لوگ خود نماز پڑھنے والے ہیں۔ اب ہماری حکومت عام مسلمانوں کی جان کے تحفظ کے لیے یہ اقدامات کر رہی ہے، جس کی پیروی کرنا ضروری ہے۔ بازار میں رش یا دیگر کسی حکومتی غلط فیصلے کی بنیاد پر خود غلط فیصلہ نہیں کرنا چاہیئے، جس سے معاشرے میں تباہی آئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حکومت کو دیگر لوگوں کی طرح علمائے کرام کو بھی کوئی امدادی پیکج دینا چاہیئے، یہ سفید پوش لوگ ہیں۔ ماہ رمضان میں تراویح پڑھا کر یہ پورے سال کا رزق اکٹھا کرتے ہیں۔ اسی طرح مدارس اس ماہ میں زکواۃ جمع کرکے غریب اور مستحق طلباء کے لیے وسائل مہیا کرتے ہیں۔ اب اگر وہ عوام سے کٹتے ہیں تو اگلا پورا سال انہیں کسمپرسی میں گزارنا ہوگا۔ علمائے کرام کو بھی چاہیئے کہ وہ انسانی جان کے حوالے سے اسلامی نظام قانون کی حساسیت کو سمجھیں اور محض ضد سے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ نہ کریں، جب خانہ کعبہ اور مسجد نبوی ﷺ کو بند کر دیا گیا اور اسلام کو کوئی خطرہ نہیں ہوا تو پاکستان کی مساجد وباء کے دوران بند ہونے سے بھی اسلام کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اہل اسلام سے گزارش ہے کہ ہمت کریں، وہ اسلام کو مسجد سے گھر لے آئیں اور اسے اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں نافذ کر دیں۔ ایک محلے میں جہاں ایک مسجد ہوا کرتی تھی، اب ہر گھر ہی مسجد بن جائے، جہاں اللہ کا سجدہ ہو رہا ہو۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply