کالج کے دوستوں کی باتیں اور یادیں۔۔ڈاکٹر محمد شافع صابر

کہتے ہیں کہ انسان کو اپنی فیملی تو بنی بنائی ملتی ہے، جبکہ دوست وہ خود بناتا ہے۔ یہ دوست ہی تو ہوتے ہیں جو مشکل میں ہمارا ساتھ نبھاتے ہیں۔خوشی میں ہمارے ساتھ ہنستے ہیں تو غمی میں ہمارا دکھ بھی بانٹتے ہیں۔ کالج کے دوست، ہمیشہ کے دوست بن جاتے ہیں۔ ہمارا کالج بھی ختم ہوئے تین مہینے ہونے کو آئے ہیں، گویا سب بہترین مستقبل کے لیے کوشاں ہیں، ملاقاتیں تو نہیں ہوتیں  البتہ بھلا ہو انٹرنیٹ کا، ایک دوسرے کے حال چال کا پتا چلتا رہتا ہے۔ یہ فیسبک نے جو، سالوں پرانی یادوں کو دوبارہ دکھانے کا سلسلہ شروع کیا ہے، یہ ہنستے ہنساتے بندے کو بھی اداس کر دیتا ہے، آج ایسے ہی ایک پانچ سال پرانی تصویر دیکھی ،تو میں ماضی میں کھو گیا، کالج کے سب دوست بے انتہا یاد آئے۔

اسداللہ سے میری ملاقات کالج کے دوسرے دن ہوئی، یہ میرے ساتھ والے شہر کا تھا، بیچ بھی اکھٹا آ گیا، اور یہ ملاقات ،دوستی اور بعد میں بھائی میں کیسے بدلی، پتا ہی نہیں چلا ۔کالج کے پانچ سالوں میں ہم تین سال روم میٹ بھی رہے۔ اسد کی شکل میں اللہ نے دوست نہیں بھائی دیا، جس سے یادوں کو بیان کرنے کے لیے الفاظ کم ہیں۔ کالج ختم ہونے کے بعد بھی میرا اور اسد کا روزانہ رابطہ ہوتا ہے۔ میرے گھر والوں کو مجھ سے زیادہ اس کی فکر ہوتی ہے۔

ابوبکر ابراہیم، کالج کا تیسرا دن تھا ، یہ صاحب پیچھے سے اٹھ کر آئے،میرے پاس آکر بولے، جی کیا میں اُدھر، آپ کے پاس بیٹھ سکتا، میں نے کہا، ہاں کیوں نہیں ۔یہ وہ واحد دن تھا، جب ان صاحب نے مجھ سے تمیز سے بات کی تھی۔ ہم بینچ میں کیا بیٹھے، دوست ہی نہیں، جگری یار بن گئے۔ یہ واحد آدمی تھا جو سب کے سامنے بھی مجھے جگت مارنے سے بھی باز نہیں آتا تھا۔ کلاس میں اسداللہ، ابو بکر اور میرا گروپ ہوا کرتا تھا۔ ابوبکر نے ہمیں دھوکا بھی دیا۔۔ لیکن ہم نے کبھی اسے اس بات کا کبھی بتایا نہیں ۔ میری اس سے زیادہ، اس کے والد محترم سے دعا سلام ہے۔ اسکا ڈیری فارم تھا تو یہ دودھ کا رسیا تھا۔

سائیں یوسف، ہماری کلاس کا بی بی سی ریڈیو، gossip boy،یوسف کو اگر کہیں سے کوئی بات پتا چل جاتی، تو یہ صاحب بہادر، اس بات کو مرچ مسالہ لگا کر جب تک پوری کلاس کو بتا نہ دیں، انہیں سکون نہیں ملتا تھا، میں اسے دادی کہتا تھا، کیونکہ اس میں ساری عادتیں ہی ایسی تھیں، اسے مہران کار کا بڑا شوق تھا، جب بھی بیٹھا مہران کے سوا کسی اور کار میں نہیں بیٹھا، موٹا تھا، تو پانچ سموسے کھا کر ڈائیٹ کوک پیتا تھا کہ زیادہ موٹا نہ  ہو جائے۔

شاہ زیب مغل، ہماری کلاس نہیں بلکہ کالج کا سب سے خوبصورت لڑکا۔۔سفید رنگ، کالے بال، سفید شلوار قمیض پہنے، اس کی ادا ہی سب سے نرالی تھی۔جب وہ ہنستا تھا تو لڑکیوں کی دھرکنیں تھم جاتی تھیں ۔ فیکٹریوں کا مالک تھا، تو ہر کسی کی نظر میں تھا، اس لیے ہم اس پر رشک کرتے تھے۔

صائم، قد چھوٹا تھا، لیکن زبان بڑی تھی۔ معصومیت اتنی کہ غلط کام کر کے بھی بچنے کی کوشش کرتا تھا۔ فئیرویل کے موقع پر جب، اس نے اظہار خیال کیا تو اس کے پسینے چھوٹے پڑے تھے۔ہم ٹور پر گئے، ہم سب کے موبائل فونز کی بیڑیاں ختم ہو گئیں، جبکہ اس کی بیڑی 99فیصد  تھی، ہمیں آج تک اس راز کی سمجھ نہیں آئی۔

فراز اور فرحان، یہ دونوں جگری یار تھے، فرحان کا ماتھا اتنا بڑا تھا کہ اس پرپورا جہاز لینڈ کر سکتا تھا، دماغ میں کوڑا بھرا ہوا تھا، لوگ شریف سمجھتے تھے لیکن اندر کیا چل رہا ہوتا تھا، ہمیں پتا تھا۔ فراز کا ایک ہی پلس پوائنٹ تھا کہ اسکے پاس آئی فون تھا۔

محسن راجا، یہ کمال کا صفائی پسند تھا، سردی ہو یا گرمی، روزانہ نہاتا تھا۔ سردیوں کو بھی، ملک شیک پیتا تھا۔گردن کافی لمبی تھی تو اس کو ٹھنڈ سے بچانے کے لیے مفلر لپیٹ لیتا تھا، راجا بڑا خوش قسمت تھا، جس کام میں بھی ہاتھ ڈالتا، کامیابی اسکے قدم چومتی۔ ایک ایک پیسے کا حساب رکھتا تھا۔

ذیشان اور عثمان! ذیشان کمال کا کھلاڑی تھا، جبکہ عثمان کبھی بھی کالج وقت پر نہیں آیا۔یہ صاحب نیند کے رسیا تھے۔۔تونیند کے لئے جرمانہ بھر لیتے تھے ۔
سعد، یہ ہماری کلاس کے سب سے شریف النفس انسان، کلرک اور منشی تھے، ہر ٹیچر سے نوٹس کی کاپیاں لیکر ہمیں دیتے تھے ۔یہ اسائنمنٹ بناتے تھے اور پوری کلاس اس کی نقل کرتی تھی۔نوٹس بورڈ روازانہ کی بنیاد پر دیکھتے تھے۔ کمال کے مفت خورے بھی تھے۔

شاہ زیب اشفاق، ان صاحب کی فائنل ائیر میں منگنی ہو گئی، بجائے ہمیں بلانے کے، ہم سب کو بلاک کر دیا، وہ تو بھلا ہو CID کا، ہمیں اس خبر کا پتا چل گیا، منتیں کر کے ان سے ٹریٹ لی۔مٹھائی ابھی تک نہیں کھلائی۔ کنجوس رج کے تھے اور غصہ تو بالکل بھی نہیں کرتے تھے۔

تابش، ہم انہیں ارسطو کہتے تھے ۔پوری  کلاس  ایک طرف، ان کی لاجک ایک طرف، گیمنگ کے فین تھے کشمیر گئے، موٹے تھے، ہائکنگ کرتے گر گئے ۔ کمال کے مقرر تھے۔
رامش، باقی پیزا کھاتے تھے، یہ پیزے کا اندھا دھند قتل کرتے تھے۔بیحد پیٹو تھے، کھانا کھاتے  کم، فیسبک پر لگاتے زیادہ تھے۔تصاویر لگانے کے بیحد شوقین تھے ۔ ان کا سرکل جان لیوا تھا۔یہ دو سال ہاسٹل میں، میرے روم میٹ بھی رہے ۔

یہ تھے میرے کالج کے دوست اور انکی باتیں، یہ تو کچھ بھی نہیں، ان پر جتنا لکھوں اتنا ہی کم ہے۔ انکے ساتھ بیشمار یادیں جڑی ہیں ۔ گویا رابطہ تو پہلے جیسے نہیں، لیکن جب بھی بات ہوتی ہے تو ہم سب ہنس پڑتے ہیں۔کالج کے حسین پل یاد کرتے ہیں ،تو افسردگی کی ایک لہر پورے جسم پر چھا جاتی ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ کالج کے پانچ سال نہیں پانچ منٹ تھے، جو پلک جھپکتے ہی گزر گئے ۔ اب کوئی کسی جگہ مصروف تو کسی جگہ، یہی تو زندگی ہے کہ آپکو چلتے ہی رہنا ہے بس۔

ٹھہریے، میرے کالج میں یہ ہی دوست نہیں تھے، اور بھی کافی لوگ تھے، لیکن بیچ مختلف ہونے کی وجہ سے انکے ساتھ وہ تعلقات نا بن سکے، جو ان لوگوں کے ساتھ تھے۔یہ سب اب بھی رابطے میں ہیں۔ابھی تو ہم دوستوں کے گروپ lbs کی بڑی باتیں ہیں جو پھر سہی۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ تو صرف دوست تھے، اگر دشمنوں، مخالفین اور شریکوں کی بات کروں تو وہ لاتعداد تھے، ان پر لکھنے کو نہ  دل ہے اور نہ ہی ٹائم!
دوستی کےمتعلق ،جناب ناصر کاظمی کا یہ لازوال شعر، میرے جذبات کی صحیح  ترجمانی کر رہا ہے۔۔
وہ کوئی دوست تھا اچھے دنوں کا
جو پچھلی رات سے یاد آ رہا ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply