بنام گالم گلوچ بریگیڈ۔ ۔ غیور شاہ ترمذی

گالم گلوچ بریگیڈ سے گزارش ہے کہ راقم سمیت دوسرے لکھاریوں کی اپنے مؤقف کے خلاف شائع ہونے والی تحریروں پر اپنے ردِعمل کا اظہار کرنا یقیناً آپ کا حق ہے مگر لکھاری کو گالی دینا ایک غیر اخلاقی طرز ِعمل ہے اور شدید غیر جمہوری رویہ ہے۔ راقم سمیت دیگر لکھاری جب آپ کی پسندیدہ حکومت کے خلاف تحریر لکھتے ہیں، تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ لکھاری کا تعلق اپوزیشن سے ہے۔ دوسروں کا تو معلوم نہیں مگر راقم کو یاد نہیں کہ کبھی بھی کسی حکمران کے دور حکومت میں اُس کے لئے کلمہ خیر تحریر کرنے کی نوبت آئی ہو ،مگر پاکستان کی صحافتی تاریخ میں یہ پہلا موقع دیکھا جا رہا ہے کہ جب بھی تحریک انصاف پر تنقید کی تو انصافینز کی  بڑی تعداد نے کالم کی صحت کو چیلنج کرنے پر تو کوئی توجہ نہیں دی مگر لکھاری کو گالم گلوچ سے ضرور نوازنا شروع کر دیا۔ مسلم لیگ نون کا پچھلا دور حکومت دیکھ لیں یا پیپلز پارٹی کے ادوار کا جائزہ لے لیں۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ لکھاریوں کو حکومت مخالف تحاریر لکھنے کی وجہ سے اس طرح کی منظم گالم گلوچ کا سامنا کرنا پڑا ہو جو تحریک انصاف کے سوشل میڈیا والے اپنی حکومت کے خلاف لکھنے والوں کو نوازتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ پچھلی حکومتوں کا بھی لکھاریوں کو دھمکیاں دینے اور بعض اوقات شدید انتقام کا نشانہ بنانے کے ریکارڈز موجود ہیں مگر یہ پچھلے ادوار ہی تھے جن میں عطاء الحق قاسمی، حیدر جاوید سید،حسن نثار، ہارون رشید، عبدالقادر حسن، منو بھائی مرحوم، حامد میر، جاوید چوہدری، سہیل وڑائچ، رؤف کلاسرہ، عامر متین اور دوسرے صحافی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی حکومتوں کے خلاف لکھتے بھی رہے اور ایکسکلیوسیو سٹوریز بھی بریک کرتے رہے مگر کسی جیالے یا متوالے نے سوشل میڈیا پر اس طرح اُن کی گالیوں سے لبریز ٹرولنگ کی ہو۔

سب سے بڑا اعتراض ’’گالم گلوچ دانشواران‘‘ یہ کرتے ہیں کہ لکھاری اپنے کالم میں ’’با خبر ذرائع‘‘ کے حوالہ سے جھوٹی خبریں نشر کرتے ہیں ،ورنہ وہ اِن باخبر ذرائع کا نام کیوں شائع نہیں کرتے۔ گزارش ہے کہ یہ ’’باخبر ذرائع‘‘ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے ساتھ لکھاری اپنا تعلق لمبی جدوجہد اور رابطوں کے بعد استوار کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں، جو پارٹی اور اداروں کے درمیان موجود ہوتے ہیں اور ہمیں اپنے پارٹی یا ادارہ کی اندرونی خبریں مہیا کرتے ہیں۔ اگر لکھاری اُن کے نام اپنی تحریروں میں ظاہر کرنا شروع کر دیں تو اُس پارٹی یا ادارہ کے بڑے لوگوں کے غیض و غضب سے انہیں ہم کیسے محفوظ رکھ پائیں گے۔ پھر اس کے بعد اس پارٹی یا اُس ا دارہ کی اندرونی خبریں لکھاری کیسے حاصل کر پائیں گے۔ اس لئے لکھاریوں کے باخبر ذرائع کو جاننے کی بجائے لکھاری کی تحریر کی صحت پر بحث کیا کریں اور اُس کی صداقت یا اُس کے جھوٹے ہونے پر بحث کیا کریں۔ یقیناً  کچھ لکھاری ایسے بھی ہوں گے جو اپنی خواہشات کو اپنی تحریروں میں بیان کر دیتے ہیں مگر اُن چند لوگوں کی بنیاد پر اپنی پارٹی کی مخالفت میں لکھنے والے ہر صحافی کو شامل کرنا بھی بددیانتی میں شامل ہے۔ ہر لکھاری کے لکھنے کا اپنا معیار ہو سکتا ہے۔ کوئی بڑے اخبارت کے لئے لکھتا ہو اور کوئی بوجہ خود کو نیوز ویب سائٹس تک محدود رکھتا ہو، مگر یہ ہرگز کوئی معیار نہیں ہے کہ بڑے اخبارات کے لئے کالم لکھنے والے بڑے لکھاری ہوتے ہیں اور جرائد یا نیوز ویب سائٹس کے لئے لکھنے والے چھوٹے لکھاری ہوتے ہیں۔ اچھے اور بُرے لکھاری ہونے کا معیار اس بات سے طے ہونا چاہیے کہ کس لکھاری کی تحریریں زمینی حقائق کے نزدیک ہیں اور اُس کی تحریر جلد یا بدیر درست ثابت ہو جاتی ہو۔اس لئے یہ ہرگز لکھاری کی تحریر کو غلط قرار دینے کا معیار نہیں ہے کہ کون کہاں اپنی تحاریر شائع کرواتا ہے۔

بطور ایک لکھاری کے عرض ہے کہ راقم کی دلی خواہش ہے کہ ہر حکومت اپنا پورا عرصہ مکمل کرے، اور 5 سال تک اپنے وعدوں اور انتخابی منشور کو پورا کرنے کی مکمل جدوجہد کرے۔ اس خواہش کے پورا ہونے کے بیچ میں جو رکاوٹ ہے، اُسے زمینی حقائق کہتے ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ لکھاری زمینی حقائق کو نظرانداز کر دیں اور صرف اپنی خواہشات کو بیان کریں۔ یہ کہنا بھی غلط ہے کہ لکھاری اگر موجودہ حکومت کی مخالفت کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ’’چور کرپٹ اور بدعنوان‘‘ سیاستدانوں کی حمایت کرتا ہے۔ محترم قارئین، یہ جان لیجیے کہ کرپشن، چور اور بد عنوان کہنا کسی لکھاری کا شیوہ نہیں ہوا کرتا۔ یہ کام عدالتوں کا ہوتا ہے کہ وہ کسے چور، بدعنوان یا کرپٹ قرار دیں۔ جب تک کسی کے خلاف مقدمات زیر سماعت ہوں یا اُن کو ابتدائی عدالتوں میں سنائی جانے والی سزاؤں کے خلاف اعلیٰ عدالتوں سے آخری اپیل بھی منسوخ ہو کر سنائی جانے والی سزائیں حتمی قرار نہ پا جائیں تب تک کسی کو غدار، چور بدعنوان یا کرپٹ کہنا اور سمجھنا قانونی و آئینی اعتبار سے ممکن نہیں ہے۔ہمارے یہاں ویسے بھی مخالف سیاستدانوں کو بدعنوان غدار کرپٹ اور چور کہنے کی روایت بہت پرانی ہے۔ بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح رح کی سگی بہن محترمہ فاطمہ جناح رح کے بارے میں جنرل ایوب خان  کے الفاظ تاریخ کا حصہ ہیں جب اُس نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو اپنے خلاف الیکشن لڑنے کی پاداش میں غدار بھی کہا اور انڈین ایجنٹ بھی قرار دیا۔حکمرانوں کو چھوڑیں، یہاں تو عدالتی نظام اس حد تک اپنی ذمہ داریوں سے متضاد چلتا رہا کہ جب پاکستان کے دوسرے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو گورنر جنرل ملک غلام محمد نے زبردستی برطرف کر دیا تو اُس کی بحالی کے لئے کی جانے والی درخواست کو چیف جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت کی روشنی میں خارج کر دیا۔ حالانکہ آئینی طور پر سپیکر قومی اسمبلی مولوی تمیز الدین کی حکومت بحالی کی درخواست کی قانونی حیثیت بہت مضبوط تھی۔ یہاں کے عدالتی نظام میں تو منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت بھی سنا دی اگرچہ انہیں پھانسی دینے والے ججز نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد بالعموم اور جنرل ضیاء کی ہلاکت کے بعد بالخصوص بیانات دئیے کہ بھٹو کو پھانسی کی سزا سنانے کے خلاف اُن پر بہت دباؤ موجود تھا۔ یہ درست ہے کہ اب جسٹس منیر یا مولوی مشتاق والی عدالتیں موجود نہیں ہیں اور نہ یہ سنہ 1950ء یا سنہ 1970ء والی دہائی ہے کہ عدالتوں سے اپنی مرضی کے فیصلے لئے جا سکیں مگر یہ بھی تو عدالتی عمل کا حصہ ہے کہ جب تک ملزم کی حتمی درخواست بھی نامنظور ہو کر اُس کا جرم ثابت نہ کر دے، تب تک ملزم کو مجرم ثابت نہیں کیا جا سکتا۔

گالم گلوچ بریگیڈ کے علاوہ جو شعور رکھنے والے اور سنجیدہ قارئین ہیں، وہ یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے قائدین کی کرپشن کو قانونی لحاظ سے ثابت نہیں کیا جا سکتا مگر وہ کرپٹ ہیں۔ اس لئے اُن کی حمایت کے لئے کچھ نہ لکھا جائے اور تحریک انصاف کی حمایت کی جائے۔ راقم یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اگر کسی ملزم کے خلاف جرم ثابت ہی نہ کیا جا سکتا ہو تو آج کے جدید دور میں وہ مجرم کیسے بن گیا؟۔ یہ بات کیسے مان لی جائے کہ وائیٹ کالر کرائم ثابت ہی نہیں ہوتے۔ کیوں نہیں ہوتے حضور عالی!۔ کیا ہماری اینٹی کرپشن عدالتوں سے رشوت، اختیارات کے ناجائز استعمال اور بدعنوانی کے جرائم میں سرکاری اہلکاروں کو سزائیں نہیں ہوتیں؟۔ کیا نیب کی عدالتوں سے سیاستدانوں کے علاوہ دوسرے لوگوں کو بدعنوانی اور کرپشن کے کیسوں میں سزائیں نہیں ہوئیں؟۔ سیاستدانوں کے خلاف مقدمات چونکہ میڈیا میں زیادہ جگہ پا لیتے ہیں اور ہمارے ملک میں ہر شخص کو ایسی خبروں سے دلچسپی ہوتی ہے، اس لئے ہم ان مقدمات کے نتائج کی طرف زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ چونکہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ طبقہ کو پاکستان کے سب سے بڑے اور مضبوط ترین سوشل میڈیا نیٹ ورک کی حمایت حاصل ہے، اس لئے وہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے لیڈروں پر عائد مقدمات کے حتمی فیصلے آنے سے پہلے ہی یہ پراپیگنڈہ مچائے ہوئے ہیں کہ پاکستانی قانون میں موجود خامیوں اور سقم کی وجہ سے یہ ’’بد عنوان اور کرپٹ‘‘ سیاستدان سزاؤں سے صاف بچ نکلیں گے۔ اگر یہ تاثر درست ہے تو راقم کو یہ یاد کروانے کی اجازت دیجیے کہ مرکز، پنجاب خیبر پختونخوا  میں آپ کی اپنی حکومتیں ہیں اور بلوچستان میں آپ اتحادی بن کر حکومت میں موجود ہیں۔ اس لئے کوئی ادارہ آپ کے ہاتھ نہیں باندھ رہا۔ اپنی حکومتوں سے کہیے کہ وہ ان حکومتوں میں ایسی قانون سازی کریں کہ وائیٹ کالر کرائم سے متعلق تمام نقائص دور ہو جائیں اور کوئی کرپٹ یا بدعنوان سزا سے بچ کر کبھی نہ نکلے۔

خیبر پختونخوا  میں تو تحریک انساف کو دو تہائی اکثریت موجود ہے تو اس نیک کام کا آغاز وہاں سے شروع کر لیں۔ ایک کھلے راز کی بات عرض کر دوں کہ اگر ایسی قانون سازی کا آغاز خیبر پختونخوا  اسمبلی سے بھی نہ ہو سکے تو یہ یقین کر لیجیے گا، کہ تحریک انصاف کا کرپشن کے خلاف جدوجہد کا جہاد محض ایک سیاسی حربہ ہی تھا جو انتخابات میں کامیابی کے لئے چاہیے تھا، وگرنہ کرپشن کی روک تھام اور اس کے خلاف سخت قانون سازی کرنے میں تحریک انصاف کا کردار بھی باقی جماعتوں کی طرح ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو تحریک انصاف کے سنجیدہ قارئین اس بات کا جواب دیں کہ عمران خان نے کیوں انہوں نے اپنے چند چہیتے لوگوں کے خلاف اپنی پارٹی کے انتہائی ایمان دار اور معزز لوگوں کی طرف سے مرتب کردہ دھاندلی کی رپورٹ کو تو مسترد کر دیا تھا مگر جب سپریم کورٹ نے انہیں نااہل قرار دیا تو بھی وہ کوئی ایکشن لینے کی ہمت نہ کر سکے کیونکہ یہ چہیتے لوگ اُن کی پارٹی میں الیکٹبلز کو شامل کروا رہے تھے اگرچہ وہ کرپٹ اور بدعنوان ہی کیوں نہ ہوں؟۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ جب پہلی دفعہ تحریک انساف میں الیکشن کرایا گیا تو جہانگیر ترین اس کے سیکرٹری جنرل منتخب ہو گئے تھے۔ پارٹی کے پرانے لوگوں نے اس الیکشن میں دھاندلی کی شکایت کی تو عمران خان نے جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین احمد کی سربراہی میں انکوائری ٹربیونل بنا دیا۔ ٹربیونل کے سامنے گواہ اور ثبوت آ گئے کہ پارٹی الیکشن میں دھاندلی ہوئی اور ووٹ خریدے گئے۔ اسی کی بنیاد پر ٹربیونل نے اپنے تحریری فیصلے میں جہانگیر ترین، پرویز خٹک، علیم خان اور نادر لغاری کو پارٹی سے خارج کرنے کی سفارش کی لیکن عمران خان نے اپنے ہی بنائے گئے اس ٹربیونل کی رپورٹ مسترد کر دی۔سندھ ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس وجیہ الدین احمد اور تحریک انساف کے بانی رکن اکبر ایس بابر کو اتنا خوار کیا گیا کہ وہ تحریک انصاف چھوڑ گئے اور انہوں نے تحریک انصاف کے خلاف مختلف اداروں کو درخواستیں بھی دیں۔ سنہ 2017ء میں جہانگیر ترین کی سپریم کورٹ سے نا اہلی اور سنہ 2019ء میں علیم خاں کی نیب میں گرفتاری نے جسٹس وجیہ الدین احمد ٹربیونل کو سچا ثابت کر دیا لیکن عمران خان نے جہانگیر ترین کو کچھ عرصہ پہلے تک گلے لگائے رکھا اور اب جہانگیر ترین کی ناراضگی اور رخصتی کے بعد علیم خاں کو دوبارہ گلے لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

انصافینز کی طرف سے آج کل چینی اور آٹا بحران کے خلاف جاری کردہ حکومت کی رپورٹ پر دادو تحسین کے ڈونگرے برسائے جا رہے ہیں مگر گزارش یہ ہے کہ انسافینز کا یہ خیال بالکل غلط ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور اُن کے ہم نواؤں نے کوئی بہت بڑا کمال کیا ہے یا چینی اور آٹے کی قیمتوں میں اچانک اضافے کی وجوہات پر کمیٹیوں کی ابتدائی رپورٹس جاری کر نے کی پاکستان کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ درست ہے کہ ماضی کی حکومتوں نے اخلاقی جرأت کے فقدان کے باعث اس طرح کی رپورٹس جاری کرنے سے گریز کیا مگر ایف آئی اے کے افسر واجد ضیاء کی سربراہی میں قائم کی جانے والی کمیٹیوں کی رپورٹ میں ایسی کوئی نئی بات نہیں جو پاکستانی عوام کو پہلے سے معلوم نہ تھی۔ نامور صحافی حامد میر لکھتے ہیں کہ وزیراعظم کی طرف سے یہ رپورٹس جاری ہونے سے پہلے ہی پاکستان کا گستاخ اور بدتمیز میڈیا پچھلے کئی ماہ سے وہ تمام حقائق عوام کو بتا رہا تھا جو واجد ضیا کی رپورٹ میں بھی شامل ہیں اور میڈیا کی ان گستاخیوں سے تنگ آکر حکومت نے فروری 2020ء میں دو کمیٹیاں تشکیل دیں تاکہ چینی اور آٹے کی قیمتوں میں ناجائز اضافہ کرکے منافع خوری کرنے والوں کو بےنقاب کیا جا سکے۔وفاقی کابینہ کے ایک اجلاس میں (جہانگیر ترین لابی مخالف ) وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے وزیراعظم کو یاد دلایا تھا کہ آپ نے چینی اور آٹے کا بحران پیدا کرنے والوں کو بےنقاب کرنے کے لئے جو کمیٹیاں تشکیل دی تھیں ان کی رپورٹیں عوام کے سامنے لانے کا وقت آگیا ہے۔علی محمد خان کے اس مطالبے پر کئی پیشانیوں پر بل پڑ گئے اور بات ختم ہو گئی لیکن پھر یہ ہوا کہ واجد ضیاء کی یہ رپورٹیں میڈیا تک پہنچ گئیں۔ ’’ہم ٹی وی‘‘ پر محمد مالک نے ان رپورٹوں کو بریک کر دیا اور جب میڈیا پر ان رپورٹوں کا چرچا شروع ہو گیا تو حکومتی ترجمان مشکل میں پڑ گئے۔ اگر تردید کرتے تو میڈیا ان رپورٹوں کا متن دکھانا شروع کر دیتا، تردید نہ کرتے تو بھی مصیبت بنتی، لہٰذا مجبوری کے عالم میں حکومت نے ابتدائی رپورٹ کو جاری کرنے کا فیصلہ کر لیا تاکہ کچھ داد سمیٹی جا سکے۔اصل کریڈٹ حکومت کا نہیں بلکہ میڈیا کا ہے جس نے حکومت سے پہلے اس رپورٹ کو بےنقاب کر دیا۔ حکومت کا کریڈٹ یہ ہے کہ (اِس دفعہ) اُس نے یوٹرن لینے سے گریز کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اوپر بیان کی گئی مثالوں کی طرح والے زمینی حقائق وہ سب سے بڑا محرک ہوتے ہیں جولکھاریوں کو حکومت کے خلاف جاتے مؤقف پر تحاریر لکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ تحاریر کوئی سازشی تھیوری نہیں ہوتی اور نہ یہ لکھاری کے دلی جذبات یا خواہشات کا عکس ہوتی ہیں۔ یقیناً اِس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ سازشیں دنیا میں ہوتی ہی نہیں۔ بالکل ہوتی ہیں کیونکہ جب سے انسانی تاریخ شروع ہوئی ہے، انسانی سوچ اور فکر، سازشی نظریات کے گرد گھومتی دکھائی دیتی ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں میں سازشی نظریات میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔ سوشل میڈیا اور واٹس ایپ گروپ سازشی نظریات سے بھرے پڑے ہیں۔ تحریک انصاف حکومت کے خلاف جو کچھ بھی بیشتر لکھاری لکھ رہے ہیں وہ زمینی حقائق کی بنیاد پر ہی لکھ رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا مجاہدین کی جانب سے ان تحریروں کی مخالفت میں گالم گلوچ جیسے شدید ردعمل کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ وہ خود کو “غیر محفوظ” سمجھنا شروع ہو چکے ہیں۔ یہ غیر فطری نہیں ہے بلکہ خود کو محفوظ سمجھنا انسان کی بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ تحریک انصاف حکومتوں کی جانب سے غیر متوقع انتہائی بری کارکردگی اور اپنی جماعت کی اسٹیبلشمنٹ سے اتنی جلدی شدید اختلافات کی خبریں منظر عام آنے نے اُنہیں حکومت جانے کے خوف میں مبتلا کردیا ہے۔ آمدنی میں عدم مساوات، سیاسی عدم استحکام، کورونا جیسے وبائی مرض کے مہلک واروں اور بےروزگاری و اقتصادی بدحالی کی وجہ سے پیدا ہونے والی شدید سیاسی بے چینی اور دیگر سماجی مسائل کی وجہ سے تحریک انساف کے حامی اپنی حکومت کو محفوظ نہیں سمجھ رہے۔ جب کوئی شخص خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگتا ہے تو وہ ہر چیز کو شک کی نظر سے دیکھنا شروع کر دیتا ہے کیونکہ پریشان کن جذبات اور سازشوں پر یقین کا آپس میں ایک براہ راست اور مضبوط تعلق ہے۔اپنی حکومت کے بہت جلد چلے جانے کے خوف یا پریشانی میں مبتلا ہوئے گالم گلوچ بریگیڈ والے دشنام طرازی جیسے غلط عقائد کا سہارا لے چکے ہیں جو اُن کے جذبات کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ایسے لوگ دماغ کی بجائے دل سے زیادہ سوچتے ہیں۔ ان کے سوچنے اور سمجھنے کے عمل پر عقل سے زیادہ جذبات کا غلبہ ہوتا ہے جس کہ وجہ سے وہ حکومت مخالف شائع ہونے والی تحریروں کو سازشی تھیوریاں ماننے لگ چکے ہیں مگر یہ درست نہیں ہے بلکہ یہ صرف اُن کے جذبات کے ترجمانی ہی ہے۔ بدقسمتی سے جب ایسے افراد کسی قسم کے دباؤ یا بحران کا شکار ہوتے ہیں تو اُن کے شعور کا دائرہ تنگ ہو جاتا ہے۔ اندرونی خوف اور پریشانی کا حل اپنی حکومت کی کارکردگی کو بہتر بنانے کی کوششیں کرنے کی بجائے وہ غصہ سے تنقید کرنے والوں کو گالیاں نکالنا شروع کر دیتے ہیں۔ اپنے مسائل کا حل اپنے اندر دیکھنا واقعی ایک مشکل اور محنت طلب کام ہے جب کہ اپنی پریشانیوں کا حل تنقید نگاروں اور مخالف لکھنے والوں کو گالیاں دینا بہت آسان ہے۔ یہ ایک کھرا سچ ہے کہ آج کے سوشل میڈیا کے دور میں حکومت پر تنقید کرنے کو سازشی نظریات قرار دینے سے بچنا بہت مشکل ہے لیکن اس پر کسی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔ اس کے لئے گالم گلوچ بریگیڈ کو سب سے پہلے پڑھنے اور تحقیق کی عادت ڈالنی پڑے گی۔ کسی قسم کی معلومات پر فوری اور منفی ردعمل کی بجائے سوچ سمجھ کر مدبرانہ قدم اٹھانا ہو گا۔ بدگمانی سے بچنا اور جذبات پر قابو پانا ہو گا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہیں اپنی صحبت تبدیل کرنی پڑے گی۔ مثبت اور پُرامید لوگوں سے ساتھ اُٹھانا بیٹھنا شروع کریں اور ایسے لوگوں سے خود کو دور رکھیں جو ہر وقت مایوسی کی باتیں کرتے ہیں اور شکایتی قیصدے پڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے تمام دوستوں سے گزارش ہے کہ گالم گلوچ مسائل کا حل نہیں ہوتے بلکہ مسائل سے فرار کا راستہ ہوتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply