ربوہ میں مسلمانوں کا رہنا کیسا ہے۔۔پروفیسر راشد علی

نوٹ :مضمون نگار کے خیالات سے مکالمہ کا اتفاق ضروری نہیں اور مضمون آزادی اظہار رائے کی پالیسی کے تحت شائع کیا جا رہا ہے:

پچھلے دنوں راشد احمد صاحب کا کالم نظر سے  گزرا۔ جس کا عنوان تھا پاکستان میں احمدی ہونا کیسا ہے ۔۔اس کالم میں انہوں نے اپنے دل کی بھڑاس نکال کراپنے آ پ کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، کیونکہ میں ان  کا ہم  نام بھی ہو ں اور ان کے شہر کا رہنے والا بھی ، اس لئے مجھے لگا کہ مجھے تصویر کا دوسرا رخ بھی پیش کرنا چاہیے۔ یہ میرا پہلا تجربہ ہے اور ہوسکتا ہے میری تحریر میں کچھ فنی نقائص رہ جائیں، سو میں امید کرتا ہوں کہ  قارئین اس سے صرف نظر کریں گے۔

میری پیدائش 1971 میں ربوہ شہر میں ہوئی ،والد صاحب ایک سرکاری ملازم تھے اور ان کی پوسٹنگ ا سی شہر میں ہوئی تھی ،اس کا مطلب یہ ہواکہ  1974 میں جب    ربوہ ریلوے  سٹیشن پر احمدیوں نے فیصل آباد میڈیکل کالج کے طلباء کو خون میں نہلا دیا تھا ،اس وقت میں صرف تین سال کا تھا اور میری فیملی کو وقتی طور پر فیصل آباد شفٹ ہونا پڑا تھا، کیونکہ اس کے بعد یہ شہر مسلمانوں کے رہنے کے قابل نہ رہا تھا۔ اسّی کی دہائی کے اوائل میں میرے والد صاحب   نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد ربوہ کچہری میں بطور وثیقہ نویس کام کرنا شروع کردیا ،وہاں پر ایک اور وثیقہ نویس بھی تھا،جو   احمدی تھا ،اس نے وہاں مذہبی تعصب پھیلاتے ہوئے   یہ مشہور کردیا کہ چونکہ میرے والد صاحب غیراحمدی ہیں، اس لئے وثیقہ نویسی کے لئے اس کو ترجیح دی جائے، نتیجتاً میرے والد صاحب کو وہاں سے چنیوٹ کچہری میں آنا پڑا ۔ربوہ میں رہتے ہوئے جیسے جیسے میں ہوش سنبھالتا گیا میرے کانوں میں دو الفاظ محفوظ ہوتے گئے، جو کہ مجھے اور میرے جیسے دوسرے مسلمانوں کو دیکھ کر احمدی حضرات بڑی حقارت سے بولتے تھے، “غیر احمدی اور سرکاری مسلمان “۔۔میں جہاں بھی جاتا تھا وہاں پہلے ہی یہ اطلاع دے دی جاتی تھی کہ یہ غیر احمدی ہے۔

میں نے پرائمری تک تعلیم احمدیہ یو کے  سکول میں حاصل کی تھی اور ایک دفعہ ایک کوئز پروگرام جو کہ فضل عمر پبلک  سکول میں منعقد ہوا تھا، اس میں مَیں نے فرسٹ پوزیشن حاصل کی لیکن جب پروگرام آرگنائزر کو پتہ چلا کہ میں غیر احمدی ہوں تو انہوں نے مجھے فرسٹ کی بجائے سیکنڈ پرائز دیا اور میرے سکول کی پرنسپل نے خاص طور پر مجھے بتایا کہ میں نے مہمان خصوصی سے ہاتھ نہیں ملانا کیونکہ میں غیر احمدی ہوں، مہمان خصوصی مرزا ناصر احمد کی ہمشیرہ تھیں۔ یاد رہے کہ مرزا ناصر احمدیوں کے تیسرے خلیفہ تھے اور ہوسکتا تھا کہ ایک غیر احمدی بچے سے ہاتھ ملانے سے ان کا دھرم بھرشٹ ہو جاتا۔اس کے علاوہ میں جہاں کہیں بھی جاتا تھا وہ احمدی مبلغین اور مربی میرے ساتھ بحث کرنا شروع کر دیتے تھے، کہ مجھے اپنا مذہب تبدیل کرکے  احمدی ہوجانا چاہیے ۔

ربوہ کے ایک مشہور احمدی ہومیوپیتھک ڈاکٹر راجہ نذیر احمد ظفر مرحوم یہ خواہش لے کر ہی دنیا سے چلے گئے ،میں جب کبھی ان کے کلینک پر جاتا تھا وہ سارے مریضوں کو چھوڑ کر گھنٹوں میرے ساتھ بحث کرتے ،نتیجہ اللہ کے فضل سے ہمیشہ صفر ہی رہا۔

میرے پاس بہت سے ایسے واقعات   ہیں جن کو میں یہاں طوالت سے بچنے کے لئےنہیں لکھ رہا ہوں، احمدیوں کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اقلیت نہیں سمجھتے، بلکہ وہ خود کو اصلی مسلمان اور باقی دنیا کے تمام مسلمانوں کو کافر سمجھتے ہیں اور ان کی تبلیغ کا بنیادی نقطہ بھی یہی ہے جو ظاہری بات ہے ہم مسلمانوں کے لیے ناقابلِ  قبول ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر آج وہ اپنے آپ کو اقلیت ڈکلیئر کر دیں تو انہیں وہ تمام حقوق مل جائیں گے جو اقلیتوں کو پاکستان میں حاصل ہیں ۔ابھی احمدیوں کو صرف یہ یاد رکھنا چاہیے ربوہ میں اُن کی اُگائی نفرت کی فصل سے اُنہیں بھی پھل ملتا رہے گا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”ربوہ میں مسلمانوں کا رہنا کیسا ہے۔۔پروفیسر راشد علی

  1. میں احمدی نہیں ہوں لیکن اس کالم کو پڑھ کر اتنا محسوس کر سکتا ہوں کہ مکالمہ نے اسکو مجبوری میں شائع کیا ہے۔ صرف اس لیے شائع کر دیا تاکہ یہ تاثر نا جائے کہ احمدیوں کی سائیڈ لی گئی ہے۔ یہ بونگیاں کم از کم مکالمہ میں شائع نہیں ہونی چاہیں تھیں۔ جواب ہی دینا تھا تو بہت ہیں اور بہت کچھ کہا جا سکتا ہے لیکن نہیں جی۔ وہی ہمیشہ کی طرح جذباتی سنی سنائی باتیں

  2. اس مضمون کے جواب میں دو کمینٹس ہیں اور دونوں کسی حقیقی واقع کے بجائے صرف میں نہ مانوں کی ردیف میں لکھے گئے ہیں۔ جبکہ میرے جیسے کئی مسلمانوں نے اس سے زیادہ بھی سنا ہوا ہے۔ لیکن میں لکھ نہیں رہا کیونکہ میں خود اس کا چشم دید گواہ نہیں۔لیکن یہ مضمون نگار تو خود وہیں کہ رہاشی ہیں ان کی بات کی تردید میں نہ مانوں کہہ کر نہیں کی جاسکتی۔

Leave a Reply to عابد Cancel reply