• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ڈاکٹر بلند اقبال “ٹوٹی ہوئی دیوار “میں کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔۔عبدالستار

ڈاکٹر بلند اقبال “ٹوٹی ہوئی دیوار “میں کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔۔عبدالستار

ڈاکٹر بلند اقبال کثیر الجہت صلاحیتوں کے مالک ہیں ،چیزوں کو دیکھنے اور سمجھنے کا ایک منفرد انداز رکھتے ہیں اور ان کا یہی منفرد پن ان کی تحریروں اور باتوں میں بھی نظر آتا ہے ۔پیشے کے اعتبار سے ایک کامیاب اور قابل ڈاکٹر ہیں ،مگر ادب ،شاعری ،لکھنااور سوچنا ان کا اوڑھنا بچھونا ہے، کیونکہ آپ ہندوستان اور پاکستان کے نامی گرامی شاعر اور ادیب حمایت علی شاعر کے بیٹے ہیں ۔جیسے انگریزی میں کہا جاتا ہے کہ “A tree is known by its fruit ” آپ کی شخصیت اور فکر میں حمایت علی شاعر کی واضح شبیہ ملتی ہے ۔جیسے حمایت علی شاعر کا ایک مقبول شعر ہے ۔

میں اپنی بازیافت کہوں یا خدا کہوں

جی چاہتا ہے جو بھی کہوں،برملا کہوں

اپنی بات کو برملا اور واضح طور پر کہنے کا مَلکہ آپ کواپنے عظیم والد کی طرف سے ورثہ میں ملا ہے اور اسی ورثہ کا اظہار ہمیں آپ کی تحریروں ،کتابوں اور مختلف ٹی وی شوز میں بھی نظر آتا ہے ۔ڈاکٹر بلند بہت سارے ٹی وی شوز بھی کرچکے ہیں اور آج کل کینیڈا ون ٹی وی پر”دی لائبریری وِد ڈاکٹر بلند اقبال” کے نام سے پروگرام کر رہے ہیں ۔کچھ عرصہ پہلے انہوں نے مجھے کینیڈا سے اپنی کچھ کتابیں بھیجیں جو ان کی اس بندہ ء ناچیز سے محبت کا ایک خوبصورت اظہار ہے اور گاہے بگاہے ان سے ٹیلی فونک گفتگو بھی ہوتی رہتی ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

گزشتہ دنوں ان کے ایک خوبصورت ناول “ٹوٹی ہوئی دیوار”کا تقریباََتیسری بار مطالعہ کیا تو جو کچھ مجھے اس خوبصورت ناول سے علمی فیض ملا وہ میں مختصر انداز میں شیئر کرنا چاہوں گا ۔ٹوٹی ہوئی دیوار کو ایک استعارہ کے طور پر ڈاکٹر بلند نے لیا ہے ۔یہ ٹوٹی ہوئی دیوار روایات کی وہ بوسیدہ دیوار ہے ،جو کہ حالات کے بے رحم تھپیڑوں کی وجہ سے خستہ حال ہو چکی ہے اور اس خستہ حال دیوار کے سوراخ کی اوٹ میں سہمی سہمی اور خوف زدہ نظروں سے وہ معصوم نگاہیں جھانک رہی ہیں ،جنہوں نے مستقبل کا بوجھ ابھی اپنے کندھوں پر اُٹھانا ہے ۔اس سہمی ہوئی اور ڈری ہوئی نگاہ کا نمائندہ اس ناول کے مطابق ادریس کا بیٹا ننھا عثمان ہے ۔ننھا عثمان جو کہ ابھی بہت چھوٹا ہے اور اسکے دل کی چھوٹی سی سلیٹ پر ابھی نفرت ،مذہبی منافرت ،شیعہ ، سُنی اور احمدی فرقوں جیسی تفریق کی شبیہ بھی نہیں اُبھری مگر اس ننھی سی عمر میں وہ اپنے باپ ادریس کو ایک ایسے شخص پر تشدد حتٰی کہ جلاتے ہوئے بھی دیکھتا ہے جس پر فقط الزام تھا کہ وہ گستاخِ رسول ہے۔اس سارے وحشت ناک منظر کا اثر ننھے سے دماغ پر بہت بُرا پڑتا ہے اور وہ کم عمری میں ہی ایک طرح سے ذہنی مریض بن جاتا ہے ۔ناول کے دوسرے دو کردار یونیورسٹی کا ایک روشن خیال پروفیسر واحدی ہے اور دوسرا کردار نوجوان نسل کی بیدار مغز طالبہ ثانیہ کا ہے ۔پروفیسر واحدی اور ثانیہ کے درمیان لیپ ٹاپ پر ہونے والی چیٹ معاشرے میں پیدا ہونے والی تفریق چاہے اس کا تعلق مذہب سے ہو ،نسل سے ہو ،فرقہ سے ہو ،سیاست سے ہو یا معاشرتی رسوم و رواج سے ہو یا پھر محبت کی شادی سے ہو ،بڑے ہی کمال کا ڈائیلاگ ہے ۔اس میں وہ تمام باتیں ڈائیلاگ کی گئی ہیں جو کہ ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں میں شجِرممنوعہ کا درجہ اختیار کر چکی ہیں ۔ناول کے تیسرے دو اہم کردار جوکہ ثانیہ اور دلیپ کے درمیان ایک محبت کی صورت میں پروان چڑھتے ہیں ۔ثانیہ مسلمان جبکہ دلیپ ایک سِکھ ہے مگر محبت ان سب نفرت کی لکیروں سے آزاد ہوتی ہے ۔ان دونوں محبت کرنے والوں کے درمیان مذہب اور ذات پات کا نظام اور والدین کی دقیانوسی والی سوچ رکاوٹ بنتی ہے مگر یہ نئی نسل کے پڑھے لکھے اور باشعور نمائندے روایات کی ان بے نام دیواروں کو گرا کر ایک ہونے کا اعلان کرتے ہیں ۔اپنے اپنے والدین کی اناؤں کی وجہ سے جب ثانیہ اپنا مذہب چھوڑ کر سِکھ ہونے کا اور دلیپ اپنا مذہب چھوڑ کر مسلم ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں تو اس موقع پر ثانیہ بہت ہی خوبصورت انداز میں کچھ یوں اظہار کرتی ہے “محبت اپنی ذات میں بڑی خود غرض ہوتی ہے اور میں تمہاری غرض میں مبتلا ہوں ۔تم ہندو ،عیسائی ،سِکھ ہو یا مسلمان مجھے جب تم سے محبت ہوئی تھی تو میں نے رامائن کا پاٹ یا قرآن کی آیت میں تمہیں نہیں پایا تھا ۔تمہاری زبان پنجابی تھی مگر اس میں تم نے مجھ سے محبت کا اظہار کیا تھا ۔تمہارا مذہب سکھ اور میرا اسلام تھا مگر دونوں کے رب کی آخری منزل محبت تھی ۔نسل اور مذہب جسموں سے گزر کر جب روح تک پہنچتے ہیں تو وہ کچھ نہیں بچتے صرف محبت بن جاتے ہیں “چوتھے دو اہم کردار پروفیسر واحدی اور اسکا ایک روشن خیال دوست ناظر عزیزی ہے ۔ناظر عزیزی ہنستے ہوئے پروفیسر واحدی سے ایک سوال پوچھتا ہے جس کے جواب میں واحدی کہتا ہے کہ “ضرورت ایجاد کی ماں ہے بالکل اسی طرح اقتصادیات باپ ہے اور اسکی بہت ساری بیویا ں ہیں ۔ان میں سے جو سب سے زیادہ خوبصورت ہے اسکا نام مذہب ہے ۔اس کی دوسری بیوی کا نام قومیت ہے ،تیسری بیوی زبان اور چوتھی بیوی کا نام رسم ورواج ہے ،اب جسے چاہے وہ بازار میں لے آئے اسکا کوئی دین ایمان تھوڑا ہی ہے “اس ناول کا پانچواں اہم ترین کردار پروفیسر واحدی اور اسکی محبوبہ صوفیہ کے درمیان ہے ۔ان دونوں کا پیار بھی روایات کی بھینٹ چڑھ کر ناکام ہوجاتا ہے ۔ان دونوں کی محبت کے درمیان بھی مذہبیت کی آہنی دیوار آڑے آتی ہے ۔اس ناول میں پروفیسر واحدی کا کردار بہت ہی اہم ہے جوکہ ایک وقت میں کئی محاذوں پر لڑتا ہے اور بیدار مغز انسان کا یہ المیہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے سامنے ہونے والی ظلم و زیادتی پر خاموش نہیں رہ سکتا ۔ان روایتی دیواروں کو مسمار کرنے کے لیے پروفیسر واحدی اپنی کلاس کے طلباء میں بصیرت کی روشنی پھیلانے کی بھر پور کوشش کرتا ہے ۔بلند اقبال کا یہ ناول ایک ایسا آئینہ ہے جس میں تمام معاشرتی تفریقوں کا عکس واضح طور پر نظر آتا ہے ۔اس ناول میں ڈائیلاگ میں جو زبان استعمال کی گئی ہے وہ بہت ہی کلئیر اور بولڈ ہے ۔اس ناول میں وہ سب کچھ ہے جس کی ہماری آج کی نسل کو پڑھنے کی بہت ضرورت ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply