اساتذہ کا استحصال روکا جائے۔۔آغرؔ ندیم سحر

اس وقت وفاقی وزیرِ تعلیم شفقت محمود ہیں اور پنجاب میں وزرتِ تعلیم کا قلم دان جناب مراد راس کے پاس ہے۔
یہ دونوں شخصیات پاکستان میں تعلیمی معیار کو بلند کرنے اور شرح خواندگی کے اضافے کے اس خواب کو شرمندہ تعبیر بنانے کے لیے کوشاں ہیں، جو نئے پاکستان میں ہمیں عمران خان نے دکھایا ہے بلکہ اگر میں یہ کہوں تو شاید بیجا نہ ہو کہ عمران خان اس ملک کے واحد وزیر اعظم ہیں جنہوں نے سب سے  زیادہ تعلیم پر زور دیا اور اپنے ہر دوسرے روز کے قومی خطاب میں  نوجوانوں کو موضوعِ گفتگو بنایا۔عمران خان کا یہ خیال کہ کسی بھی ملک کی ترقی میں تعلیم بنیادی کردار ادا کرتی ہے اور شاید عمران خان یہ بھی جانتے ہی ہوں کہ تعلیمی ترقی میں اساتذہ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔

میں نے گزشتہ کالم میں وزیر تعلیم سے گزارش کی تھی کہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے‘اساتذہ  کو نکالنے میں لگ گئے ہیں، اور کرونا کے لاک ڈاؤن میں اساتذہ کا استحصال نہیں ہونا چاہیے۔اس کالم کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب نے بھی نوٹیفکیشن جاری کیا اور مراد راس نے پریس کانفرنس بھی کی کہ کوئی نجی تعلیمی ادارہ کسی استاد کو ان چھٹیوں میں فارغ نہ کرے۔مگر ان نوٹیفکیشنز کے باوجود پھالیہ، ڈسکہ، سمبڑیال، گوجرانوالہ سمیت کئی شہروں میں نجی اداروں نے اساتذہ کو راتوں رات نوکریوں سے فارغ کر کے حکومتی آرڈرز کی دھجیاں اڑائیں، جس پر یقیناً  ایکشن ہونا چاہیے۔ میرے اس کالم کے بعد ایپسا (آل پاکستان پرائیویٹ سکولز ایسوسی ایشن)کے سینٹرل پریذیڈنٹ میاں شبیر احمد اورسید طاہر شاہ نے رابطہ کیا اور پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی بے حسی کا رونا رویا‘پییف کی بے حسی کی کہانیاں پچھلے ایک ماہ سے گردش کررہی ہیں بلکہ جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے‘کوئی نہ کوئی واقعہ نظر سے گزر رہا ہے اور اس دفعہ تو یہ جان کر شدید حیرانی ہوئی پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن سے وابستہ سٹوڈنٹس جن کی تعداد اکتیس لاکھ ہے‘جن میں چھبیس لاکھ آن ریکارڈ ہیں اور پانچ لاکھ وہ طلبا ہیں جو مارچ 2019 میں داخل ہوئے،سب کا مستقبل خطرے میں ہے۔

سوال یہ ہے کہ فی الوقت پییف کے انڈر سات ہزار چھے سو سکولز کام کر رہے ہیں جن میں اساتذہ کی تعداد ساڑھے چار لاکھ کے قریب ہے،اور ان ساڑھے چار لاکھ اساتذہ کو پچھلے تین ماہ سے تنخواہیں نہیں دی جارہی ہیں ،بلکہ لاک ڈاؤن سے پہلے اساتذہ کے احتجاج پر پنجاب کے وزیر تعلیم مراد راس نے تنخواہیں دینے کا وعدہ بھی کیا مگربعد میں صرف ایک ماہ کی تنخواہ جاری ہوئی اوہ وہ بھی بے تحاشا کٹوتیوں کے بعد‘بلکہ کئی اداروں کو وہ بھی نہ مل سکی۔یہ ساری صورت حال ایک طرف‘ پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن ملحقہ تعلیمی اداروں کوفی بچہ550روپے اداکرتی ہے جس میں ادارہ مالکان نے ادارے کے تمام اخراجات اور بچوں کی کتب اور یونیفارم تک کے تمام معاملات دیکھنے ہوتے ہیں، یعنی آپ اندازہ کریں کہ اس جدید دور میں ایک بچے کو ساڑھے پانچ سو میں نا صرف کوالٹی ایجوکیشن دی جا رہی ہے بلکہ ادارہ بھی چل رہا ہے۔

مسئلہ یہاں  یہ آیا کہ نومبر میں حکومتی ٹیم مانیٹرنگ کے لیے جاتی ہے،اس دفعہ جب مانیٹرنگ کی گئی تو ان7600  سکولز میں مانیٹرنگ کے دن جو بچے غیر حاضر تھے‘حکومت نے ان کو فیک کہہ دیا۔اب ان تعلیمی اداروں کے مالکان کا کہنا ہے کہ یہ کہاں کا انصاف ہے؟بچہ یوں توداخل ہے اور روٹین میں اس کی حاضری بھی ٹھیک ہے لیکن اگر وہ درمیان میں غیر حاضر ہوا ہے یا مانیٹرنگ کے دن غیر حاضر تھا تو اسے فیک کہہ کر ان تین لاکھ بچوں کا معاوضہ روک لیاجائے۔بلکہ چھبیس لاکھ بچے جو آن دی ریکارڈ ہیں‘ان میں سے بھی حکومت صرف تئیس لاکھ بچوں کی فیسیں ادا کر رہی ہے جبکہ باقی تین لاکھ بچے فری میں ہیں اور مزید جو بچے مارچ2019 کے بعد انرول ہوئے جن کی تعداد پانچ لاکھ ہے‘ان کا بھی کوئی والی وارث نہیں۔آج کرونا کی وجہ سے حکومت غریبوں  سے ہمدردی جتا رہی ہے اور بارہ ہزار روپے حکومت جیب سے ادا  کررہی ہے ‘اس کے باوجود کہ حکومت کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ایسی صورت حال میں وہ ساڑھے چار لاکھ اساتذہ کہاں جائیں؟کیایہ حکومت کی ذمہ داری نہیں؟ حکومت ایک طرف غربت جیسے اس عظیم چیلنج سے نبرد آزما ہے اور دوسری جانب اساتذہ کا استحصال کیا جا رہا ہے جو اس قوم کی سب سے بنیادی کمیونٹی ہیں اور جن کی بدولت ہی قوم کی ترقی اور قوم کا وقار بحال ہو سکتا ہے۔مجھے کیوں لگتا ہے کہ حکومت محض دبنگ نعرے بازی ہی کرنے میں لگی ہے‘جتنی امیدوں سے اس حکومت کو قبول کیا گیا تھا اور جتنی توقعات لگائی گئیں تھی ان میں سے بہت سی ادھوری رہ گئیں۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ حکومت کوئی واضح کام نہیں کر رہی مگر حکومت تعلیم جیسے بنیادی شعبے کو نظر انداز کیوں کر رہی ہے؟۔اگر پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کےذریعے چلنے والے تقریباً ساڑھے سات ہزار تعلیمی اداروں کو بند کر دیا جاتا ہے تو اکتیس لاکھ بچوں کی تعلیم ختم ہو جائے گی اور پھر آپ اندازہ کریں کہ ہماری شرح خواندگی جو پہلے ہی قابلِ افسوس ہے وہ کہاں رکے گی؟۔جس تیزی سے پاپولیشن بڑھ رہی ہے اور یہ ملک جس طرح بچے پیدا کرنے کی نرسری بنتا جا رہا ہے‘ایسے میں ان بچوں کو بھی سڑک پہ لے آئیں گے جو پییف کے ذریعے پڑھ رہے ہیں تو پھر تعلیمی پستی کا رونا کس سے روئیں گے؟۔جس قوم کے اساتذہ ہی سڑکوں پہ اپنے حقوق کے لیے نکل آئیں‘اس قوم کی پستی کا اندازہ آپ خود لگا لیں۔پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن اگر ان سات ہزار اداروں کو ختم کرتی ہے تو یقینا ً 14 لاکھ والدین اور31 لاکھ بچے سڑکوں پہ نکل آئیں گے اور جناب عمران خان کی حکومتی پالیسیوں پر نوحہ کناں ہوں گے اور ایسی صورت میں حکومت کچھ نہیں کر سکے گی۔وزیر تعلیم کا پریس کانفرنس کے دوران کہنا کہ یہ ادارے تو سارے نون لیگ کے ہیں،کیا مضحکہ خیز جملہ نہیں؟حالانکہ جناب کو بغض سے کام لینے کی بجائے ان 31 لاکھ بچوں کو دیکھنا چاہیے تھا جو سب کے سب پاکستانی تھے اور بچے تو یوں بھی غیر سیاسی ہوتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

باقی جہاں تک سوال ہے کہ یہ تمام ادارے نون لیگ کے ہیں تو یہ جان لیں کہ یہ پراجیکٹ پرویزالٰہی نے غلام حید ر وائیں کے دور میں شروع کیا تھا سو نون لیگ یا کسی بھی سیاسی مخامصمت کو مدنظر رکھنے کی بجائے یہ سوچنا چاہیے کہ یہ بچے اس قوم کا مستقبل ہیں اور ان ااساتذہ کا قومی ترقی میں سب سے بنیادی کردار ہوتا ہے۔وزیر تعلیم مراد راس کی اس حوالے سے پریس کانفرنس اگرچہ درجنوں سوالات کو جنم دیتی ہے مگر ان سوالات اور کانفرنس پر بات نہیں کرنا چاہتا۔ہاں اتنا ضرور کہوں گا کہ جو بورڈ آپ نے تحلیل کیا‘ اتنا بتا دیں کہ کیا اسمبلی کے ایکٹ کے تحت وجود میں آنے والے خودمختار ادارے کے بورڈ کو ختم کرنے کا اختیار کس کے پاس ہوتا ہے؟یعنی ایسا بورڈ آف ڈائریکٹرز جس میں سات حکومتوں کے سیکٹریز ہوں،آپ کے ایم پی ایز اور عالمی شہرت کے حامل بورڈز ممبرز ہوں ان پر آپ کس بنیاد پر عدم اعتماد کر رہے ہیں؟۔بلکہ یہاں تک جناب مراد راس نے کہہ دیا کہ مجھے بہت لوگ کہہ رہے ہیں مگر پھربھی میں بورڈ آف ڈائریکڑز کو تبدیل کروں گا تو جناب تبدیل کریں لیکن خداراتعلیمی حوالے سے ہم پہلے ہی ایک پسماندہ ترین قوم ہیں اور دنیا کی ان چند قوموں میں آتے ہیں جو اپنے کل بجٹ کا سب سے کم حصہ تعلیم پر خرچ کرتی ہیں تو مزید بیڑا غرق ہونے سے بچائیے۔حکومتوں کی بنیادی ذمہ داری اپنے باسیوں کے لیے تعلیمی اور صحت کی بنیادی سہولیات کو یقینی بنانا ہوتا ہے مگر افسوس یہاں معاملہ بالکل الٹ ہے۔عمران خان اس قوم کی آخری امید ہیں اور اگر یہ امید بھی ٹوٹ گئی تو یقین جانیں یہ قوم دوبارہ کسی ایماندار پہ بھی یقین نہیں کرے گی‘اس قوم کا اعتماد بحال کیا جائے اور استاد کو بھی انسان سمجھا جائے‘اس کے ساتھ بے حسی والا رویہ ختم کیا جائے۔14 لاکھ والدین‘31 لاکھ بچوں اور 4 لاکھ اساتذہ کا استحصال روکا جائے۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply