کرونا وائرس: اغیار کی سازش۔۔ذیشان نور خلجی

یہ مملکت خدا داد ہے۔ دنیا کی پانچ سو بہترین یونیورسٹیاں اسی خطہ ارضی پر ہیں۔ شرح خواندگی سو فیصد ہے۔ لوگ بہت محنتی ہیں اور بس کام، کام اور کام پر یقین رکھتے ہیں۔ عوام حکومت پر اعتماد کرتے ہیں اور حکومت بھی ہر وقت ان کی فلاح کے لئے کوشاں رہتی ہے۔ ملک کا ہر کمانے والا شہری ٹیکس ادا کرتا ہے۔ حکومت کے پاس اتنے فنڈز ہیں کہ ہر سہ ماہی ایک کثیر رقم خیرات کی مد میں تیسری دنیا کے ممالک کو دی جاتی ہے۔ شہریوں کا معیار زندگی بہت بلند ہے۔ یہاں صحت کی تمام سہولیات میسر ہیں اور صفائی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ شخصی حقوق کی حفاظت کی جاتی ہے۔ حکمران عوام کے سامنے جواب دہ ہیں۔ یہاں مکمل مذہبی آزادی ہے۔ ہر کوئی اپنے مسلک کے مطابق چار دیواری میں مذہبی رسومات کی ادائیگی کر سکتا ہے۔ یہاں کا خلائی مشن ‘پتاسا’ مریخ سے آگے کی دنیا کی کھوج میں ہے۔ یہاں کے لوگ اپنی خوشحال زندگی میں ایسے مگن ہیں کہ دنیا کے دیگر ممالک کی انہیں فکر چنتا ہی نہیں۔

یہ تیسری دنیا کا ترقی پذیر خطہ ہے۔ برطانیہ اور امریکہ جیسے ملک اس میں شامل ہیں۔ خال خال یونیورسٹیاں ہونے کی وجہ سے یہاں شرح خواندگی بہت کم ہے۔ گو اب نئی یونیورسٹیاں بن رہی ہیں لیکن ان میں بھی رٹہ سسٹم اور سفارش کا ناسور پھیلا ہوا ہے۔ یہاں کے لوگ کاہل ہیں اور عمل سے زیادہ باتوں پہ یقین رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ کو ہر چوراہے پہ ایک دو سیاسی تجزیہ نگار اور دانشور مل جائیں گے۔ یہاں عموماً مارشل لاء لگا رہتا ہے اور سیاستدان بوٹ پالش پہ یقین رکھتے ہیں لیکن اگر خدا نخواستہ کوئی جمہوری حکومت قائم بھی ہو جائے تب بھی یہ حکمران عوام کا خون چوسنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے سو لوگوں کا حکومت پر سے اعتبار اٹھ چکا ہے اور ٹیکس دینے والے  کم  ہی ملتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک سے جو امداد آتی ہے وہ سیاستدانوں کے اقرباء تک ہی محدود رہتی ہے۔ سنا ہے اب یہ لوگ زکوٰۃ پہ بھی ہاتھ صاف کرنے لگے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں جس پیشے کو مسیحائی کہا جاتا ہے یہاں وہ لوگ قصائی کہلاتے ہیں لہذا صحت کی سہولیات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں ،یوں دوا نہ ہونے کے باعث سر عام لوگوں کو مرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ پان کی پیک، گٹکے کی تھوک، نسوار کی  چٹکیاں اور سگریٹوں کے ٹوٹے سرعام پڑے ملتے ہیں ،سو صفائی کی سہولیات بہت ناقص ہیں۔ لیکن اپنے تئیں لوگ بہت پاک صاف بنے پھرتے ہیں لہذا کوڑا کرکٹ عموماً ہمسائے کے گھر کے آگے ہی پھینکا جاتا ہے۔

یہاں شخصی آزادی کا تصور ابھی پورے طور پنپ نہیں سکا اس لئے جب کوئی ریاستی اداروں کے زیر عتاب آتا ہے تو نامعلوم افراد میں شمار ہونے لگتا ہے۔ یہاں کے عوام مذہب پسند ہیں لیکن ہر مسلک کی اپنی اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد ہے لہذا کسی اختلاف کی صورت میں ہر دو طرف سے بے دریغ اینٹیں چلتی ہیں سو یہاں اینٹوں کے نرخ بھی بلند ترین سطح کو چھو رہے ہیں۔ یہاں کے خلائی مشن کا نام ‘ سپارکو’ ہے۔ لیکن یہاں کے لوگ چاند پہ جانے کو ایک افواہ سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے۔ اس باب میں ان کے پاس تسلی بخش دلیل موجود ہے کہ انہیں عید، شب برات پہ تو چاند دکھائی دیتا نہیں سو ان کے خیال میں وہاں جانا محال ہے۔ یہاں کے لوگوں کی فطرت بہت مختلف طریقے سے نمو پائی ہے جیسا کہ یہ لوگ پائلٹ کی بجائے جہاز بننا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ یہ لوگ ترقی یافتہ ممالک کے حسد میں مبتلا ہیں لہذا جب کبھی ان پہ ان کے اپنے ہی کرتوتوں کے سبب کوئی آفت آن پڑتی ہے تو یہ ان ترقی یافتہ ممالک کو مورد الزام ٹھہرا دیتے ہیں اور اپنے نامساعد حالات کو ان کی سازش قرار دیتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ابھی حال ہی  میں کرونا وائرس کی جو آفت ٹوٹی ہے اس میں بھی امریکہ اور یورپ کے ممالک کا ہی ہاتھ ہے۔ لیکن اس دفعہ اللہ کا کرنا کچھ ایسا ہوا ہے کہ یہ بلا ان پہ ہی ٹوٹ پڑی ہے۔ اور ہمارے جیسے ترقی یافتہ اور صف اول کے ملک اس وبائی سازش سے ابھی تک محفوظ ہیں۔ اگلے دن نجی نیوز چینل پہ خبر چلائی گئی کہ ان کے وزیراعظم بورس جانسن اسی وائرس کے باعث وفات پاگئے ہیں وہ تو اللہ کا شکر ہے کہ بعد میں اس خبر کی تردید کر دی گئی ورنہ ہم جیسے سادہ لوح ترقی یافتہ لوگوں نے تو ان کی چالوں اور سازشوں کو سمجھ ہی نہیں پانا تھا۔
دعا ہے خداوند کریم ہمارے ملک کو ان جیسے تیسری دنیا کے غریب ممالک کی سازشوں کے شر سے محفوظ رکھے۔
سارے مل کے بولو، آمین !

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply