• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(اٹھائیسواں دن)۔۔گوتم حیات

کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(اٹھائیسواں دن)۔۔گوتم حیات

سکول کے زمانے میں ہم لوگ کوکنگ کے پروگرام بھی بہت رغبت سے دیکھتے تھے۔ دو ہی چینل تھے پی ٹی وی پر “کوکب خواجہ کا باورچی خانہ” آتا تھا اور این ٹی ایم پر “ڈالڈا کا دستر خوان”۔ میرا سکول دوپہر کا تھا اس لیے میں آرام سے صبح کے وقت دکھائے جانے والے تقریباً سب ہی پروگراموں کو دیکھتا اور جیسے ہی گیارہ بجتے  سکول جانے کی تیاری شروع کر دیتا۔ ان دنوں ٹی وی پر ایک بوڑھی سی خاتون اپنی ہی عمر کے ایک مرد کے ساتھ تقریباً ہر ہفتے کسی نہ کسی پروگرام میں بطور مہمان مدعو ہوتیں۔ وہ ٹی وی پر اپنے بچپن کے قصے سناتیں، قیام پاکستان سے پہلے کیا ہوتا تھا، قیام پاکستان کے بعد ہم کس مشکل سے پاکستان آئے اور پھر یہاں پر خوب محنت کر کے آج اس مقام پر پہنچے وغیرہ وغیرہ۔ شروع میں مجھے ان کی باتوں کی زیادہ سمجھ نہیں آتی تھی، ہم سب بہن بھائی بس ان دونوں سے متاثر تھے، اکثر گھر پر ان دونوں کے لکھے ہوئے ڈرامے دیکھ کر ہم خوب بحث کرتے۔ وہ بوڑھی خاتون زیادہ تر دوسروں کی تحریروں سے ماخوذ ڈرامے لکھتیں۔ جب ڈرامہ ختم ہوتا اور اس پر ماخوذ لکھا ہوتا تو میں اپنی بڑی بہن “اپّی” سے پوچھتا کہ یہ ماخوذ کا مطلب کیا ہے تو وہ ہمیں سمجھاتیں کہ۔۔
“اس ڈرامے کی کہانی اے آر خاتون کے ناول سے لی گئی ہے اور اس کو ڈرامے کی طرز فاطمہ ثریا بجیا نے دی ہے اس لیے اس کام کو ماخوذ کہا جائے گا، آسان لفظوں میں کسی اور کی لکھی ہوئی چیز کو تم تھوڑا سا تبدیل کر کے جب کسی کے سامنے پیش کرو گے تو اس کام کو ماخوذ کہا جائے گا”۔
ان ہی دنوں ہمیں یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ ڈالڈا کا دستر خوان والی “زبیدہ آپا” بھی فاطمہ ثریا بجیا کی بہن ہیں اور ان کے ساتھ جو آدمی ہوتا ہے وہ ان دونوں کا بھائی ہے جسے دنیا انور مقصود کے نام سے جانتی ہے۔
فاطمہ ثریا بجیا اکثر اپنے انٹرویو میں کہا کرتی تھیں کہ۔۔
“میں نے پانچ برس کی عمر میں چاولوں کو دم لگانا سیکھ لیا تھا، چھ برس کی عمر میں قورمہ بنانا اور سات برس کی عمر میں رفو کرنا ہمیں سکھا دیا گیا تھا اس کے علاوہ گُھڑ سواری، تیر چلانا اور صوفوں کو پالش کرنا ہم نے گیارہ سال کی عمر تک سیکھ لیا تھا”، پہلے پہل ہم ان باتوں سے بہت مرعوب ہوتے بلکہ میٹرک کلاس تک یہ ہمارے آئیڈیل ہی رہے، لیکن کالج کے زمانے میں جب کُھل کر ان چیزوں کا جائزہ لیا تو ہمیں خود پر افسوس ہوا کہ ان جیسوں کو ہم نے اپنا آئیڈیل بنایا ہوا تھا۔

ہم بہن بھائی اب بڑے ہو رہے تھے لیکن ان تینوں کا انداز ویسا ہی تھا۔ یکسانیت سے بھرپور، مصنوعی انداز لیے ہوئے ٹی وی پر ان کے وہی قصے کہانیاں کہ “بچپن اس طرح گزرا، پھر ہم پاکستان آگئے محنت کر کے آج اس مقام پر پہنچے۔۔۔” سکول سے کالج اور کالج سے یونیورسٹی کا زمانہ بھی ہمارا گزر گیا لیکن ان “تینوں ہونہاروں” کی باتیں ویسی کی ویسی ہی رہیں۔

یونیورسٹی کے دنوں میں اکثر ہم لوگ آرٹس کونسل جاتے تو وہاں پر بھی مختلف پروگراموں میں وہ تینوں ہمیں نظر آتے۔ لیکن ہم ان کی باتوں سے پہلے ہی اُکتائے ہوئے تھے، اس لیے میری اور صائمہ کی یہی کوشش ہوتی کہ جتنا ممکن ہو ان کے پروگراموں سے بچنا ہی بہتر ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ ان تینوں “برگزیدہ تعلیم یافتہ اور ہنر مند شخصیات” کی ایسے گروپ کے ساتھ سیاسی وابستگی تھی جس کو ہم سخت ناپسند کرتے تھے اور آخر کیوں نہ کرتے کہ ہم نے بہت سے “بےگناہوں” کو اس گروپ کی غیر انسانی پالیسیوں کی بدولت قتل ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔
اُس وقت ہمیں یہ بات بہت پریشان کرتی تھی کہ اتنا پڑھ لکھ کر لوگ اپنے اردگرد ہونے والی ناانصافیوں کو آخر کیوں نظرانداز کر کے خاموش تماشائی بن جاتے ہیں۔۔۔ کیوں یہ “تعلیم یافتہ لوگ” ایسے سیاسی گروپس کی حمایت کرتے ہیں اور ان کے ساتھ فخر سے بیٹھتے ہیں جن کا کام ہی تعصبات کو فروغ دینا ہے۔۔۔ان باتوں کو سوچتے ہوئے مجھے نوشی گیلانی کا ایک شعر یاد آرہا ہے۔۔۔
قیادتوں کے جنوں میں جن کے قدم لہو سے رنگے ہوئے ہوں،
یہ میرے بس میں نہیں ہے ،لوگو ان کو عزتِ مآب لکھوں!

اب میں واپس  سکول کے زمانے میں چلتا ہوں ،تو ایک شام چھٹی کے وقت ہم سکول سے نکل کر وین میں بیٹھے تو سڑک پر معمول سے زیادہ لوگوں کا رش تھا، دکانیں بند ہو چکی تھیں اور لوگ گھر جانے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کا بےچینی سے انتظار کر رہے تھے۔ ہم جب گھر پہنچے تو امی نے بتایا کہ آج شہر میں بینظیر کے بھائی کو کسی نے قتل کر دیا ہے، اس لیے حالات خراب ہیں۔ وہ زمانہ بےفکری کا تھا ہمیں زیادہ سمجھ نہیں تھی لیکن اس بات کا اندازہ ضرور تھا کہ لوگ دشمنی میں ایک دوسرے کو قتل کردیتے ہیں۔ مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے بعد تین، چار دن تک ہمارا  سکول بھی بند رہا تھا۔ اس واقعے کے تقریباً ایک دو سال بعد حکیم محمد سعید بھی شہر میں قتل کر دیے گئے۔ ان کے قتل کا ذاتی طور پر مجھے دکھ ہوا کیونکہ میں “نونہال” کو شوق سے پڑھتا تھا۔ یہ بات بھی میرے علم میں تھی کہ نونہال کے خالق حکیم صاحب ہی ہیں اور کچھ سال پہلے حکیم محمد سعید ہی کی سربراہی میں مجھے ایک ٹیبلو میں فقیر بننے کی سعادت بھی نصیب ہوئی تھی۔

وہ ایک چھوٹا سا ٹیبلو تھا جس میں علامہ اقبال کی مشہور نظم “لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنّا میری” پر ہم بچوں کو ایکٹ کرنا تھا، بیک گراؤنڈ میں یہ نظم چلتی اور ہم لوگ باری باری مختلف کرداروں میں  سٹیج پر نمودار ہوتے، اس ٹیبلو کے لیے ہمارے  سکول سے تقریباً بیس، پچیس لڑکے، لڑکیوں کو سلیکٹ کیا گیا تھا۔ کسی کو پری بنایا گیا، کسی کو جگنو، کسی کو شمع، کسی کو ضعیف غرض نظم کی مناسبت سے ڈھیروں کردار تھے۔ مجھے اس ٹیبلو میں فقیر کا کردار سونپا گیا۔ ہماری ٹیچرز نے ہم سب پر کافی محنت کی تھی، چھوٹی چھوٹی چیزوں کو بہت باریک بینی سے وہ ہمیں سمجھاتیں کہ اس طرح چلنا ہے، گھبرانا بالکل نہیں ہے، سٹیج پر ایک دوسرے سے تعاون کرنا ہے، چہرے کے تاثرات کردار کے مطابق ڈھالنا ہے وغیرہ وغیرہ۔ جس روز ہمیں پروگرام میں پرفارم کرنا تھا اس دن ہماری ٹیچرز نے ہم سب بچوں کو خوب میک اپ کر کے تیار کیا اور پھر ہم لوگ تاج محل ہوٹل (ریجنٹ پلازہ) میں پرفارمنس کے لیے روانہ ہوئے۔ وہاں پر شہر بھر سے مختلف  سکولوں کی ٹیمیں آئی ہوئی تھیں۔ پروگرام کے آخر میں حکیم محمد سعید نے سب  سکولوں کی ٹیموں کے ساتھ باری باری گروپ فوٹو بھی بنوائی۔ ہم سب بہت خوش تھے حکیم محمد سعید کو اپنے سامنے دیکھ کر، اس پروگرام میں تاجکستان، ازبکستان سے بھی ثقافتی طائفوں نے شرکت کی تھی۔

اس ٹیبلو کی وجہ سے مجھے “لب پہ آتی ہے دعا بن کے” سے ایک خاص قسم کی عقیدت ہے۔ بہت سال گزر گئے لیکن میں ابھی بھی اس نظم کو بہت شوق سے سنتا ہوں۔ کچھ سال پہلے سوشل میڈیا پر ایک انڈین فرینڈ صائم بھٹ سے میرا رابطہ ہوا، وہ ہندی فلموں میں بھی گلوکاری کر چکا ہے، فلم مرڈر میں اس کے گیت کو کافی شہرت بھی ملی تھی۔ ان دنوں وہ “صوفی  سٹوڈیو” اور “ساتھ دو” کے نام سے موسیقی کو امن کے حصول کا ذریعہ بنا کر مختلف شہروں میں پرفارم کر رہا ہے، میری شدید خواہش تھی کہ وہ اقبال کی نظم “لب پہ آتی ہے” کو بھی اپنے مخصوص انداز سے گا کر ریکارڈ کرے۔ کچھ دن پہلے میں نے اپنی اس خواہش کا اظہار اس سے کیا، جس پر اس نے مجھے کہا کہ ٹھیک ہے میں ضرور اس کو اپنی آواز میں ریکارڈ کروں گا لیکن اس کی کلاسک دھن کو تبدیل کیے بغیر، میں نے کہا ہاں مجھے تو بس تمہاری آواز میں یہ نظم چاہیے۔۔۔

آج دوپہر کو صائم کی طرف سے مجھے ایک میسج موصول ہوا، علامہ اقبال کی “لب پہ آتی ہے” نظم کا آڈیو اپنی آواز میں ریکارڈ کر کے اس نے بھیجا ہوا تھا۔ میں نے فوراً ڈاؤن لوڈ کر کے وہ سنا اور سنتا ہی چلا گیا۔ مجھے بیحد خوشی ہوئی صائم نے میری خواہش کو پورا کیا۔

سرحد پار سے “لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری” کی طرح ہم انسان بھی یوں ہی بغیر کسی پابندی کے سفر کر سکتے۔۔۔ جغرافیائی طور پر سرحدوں میں بٹے ہوئے ہم انسان ایک دوسرے کے کتنے قریب ہیں۔ ایک دوسرے کی خواہشات پلک جھپکتے ہی پوری ہو جاتی ہیں، کاش ہماری دسترس میں ان خونی سرحدوں کو مٹانا بھی لکھا ہوتا!

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply