نام عبید الرحمن، عرفیت بڑے بھائی، عمر72 برس، رنگت آبنوسی (شیشم کی لکڑی کے رنگ کی) اردو زبان بولتے ہیں۔سیٹھوں میں زندگی گزری۔راز داری کے اہتمام اور کسی کام سے انکار نہ کرنے کی وجہ ان اہل زر کی نجی زندگی میں بہت دخیل رہے۔ کوئی مجرا، کوئی بسنت، سن 70 سے 80 کی دہائی میں تھائی لینڈ کا کوئی دورہ نہ چھوڑا۔
تھائی لینڈ میں یہ عیاشی کا بہترین دور تھا ۔یہ وہ زمانہ تھا جب بنکاک ائیرپورٹ پر کسٹم افسر ایکسٹرا آمدنی کے لیے لڑکیاں آپ کے ہوٹل پر لے آتے تھے۔ان دنوں ہمارا روپیہ ہمارے ایمان کی طرح مضبوط تھا۔ ایک روپے کے تین بھات ملتے تھے۔ اب ہمارا ایمان اور روپیہ ہلکا پڑگیا تو بھات بھاری پڑ گیا۔ پانچ روپے کا ایک بھات ملتا ہے۔ وہاں کے ایکسچینج والے پاکستانی روپیہ لیتے بھی نہیں۔
اب ان کی اپنی لڑکیاں اس پیشے سے باہر نکل آئی ہیں۔ ہلاک شدگان شہوت کی دل جوئی کے لیے وہ اب پاس پڑوس کے ممالک کی لڑکیوں کو خوش دلی سے ویزہ دیتے ہیں اور اپنے کسی ادارے کے ماتحت جسم فروشی کی سہولت فراہم کرتے ہیں۔

عبید الرحمن عرف بڑے بھائی کو بیٹے کی شادی کے موقعے پر دل کا دورہ پڑا۔ہمارے ایک دوست نے ذکر کیا تو ہم نے انہیں سرکاری سول ہسپتال میں اپنے شاگرد ڈاکٹر باری خان (انڈس ہسپتال والے) کو کہہ کرعلاج کی بہترین سہولت دلا دی۔تب سے ہمارے مرید ہیں۔مزاج بہت شائستہ ہے۔ہماری کتابوں کو بیڈ سائیڈ بک بنا رکھا ہے۔
عبید الرحمن عرف بڑے بھائی سے ہم نے ایک دن پوچھ لیا کہ جو آپ کے دو عدد بڑے بھائی ہیں وہ آپ کو کیا کہتے ہیں تو جھینپ کر کہنے لگے”بڑے بھائی“۔
ہم نے کہا شرمندہ نہ ہوں ،منو بھائی کی بیوی بھی انہیں منو بھائی کہتی تھی۔دادا کے نام سےمیمنوں کا ایک مشہور فیملی گروپ ہے ۔اس کی عورتیں بھی دادا کہلاتی ہیں جیسے نفیسہ دادا ،مہ جبین دادا،ایسی ہی ایک خاتون کی ایک اردو سپیکنگ دوست سے شادی ہوگئی تو ہم نے پوچھا کہ”تیری بیوی لبنٰی دادا کیسی ہے؟۔ کہنے لگا ”گھر میں بھی ہر وقت دادا گیری کرتی رہتی ہے“۔ہم نے بڑے بھائی کو تسلی دی کہ اکثر افراد کو اپنے نام سے بہت الجھن ہوتی ہے۔۔



آئیں ایک چھوٹا سا Detour کریں تاکہ آپ کو پتہ چلے کہ دنیا میں کیا ہورہا ہے۔
جن میڈیا والوں کو آپ نے سر پر بٹھایا ہوا ہے۔ان کو باہر کے ترازو میں تولیں تو پتہ چل جائے گا ،اپنے ہی اخبار کی ردی کے بھاؤ بکیں گے۔ میراکپتان برطانیہ کی اشرافیہ میں بہت اٹھا بیٹھا سویا جاگا ہے۔ اسے ان سب کا پتہ ہے۔ اس لیے وہ ان کو کھنگارتا نہیں۔
آپ کو یاد ہوگا سرکار میں آنے سے پہلے جب کوچہء سیاست کے خارزاروں میں پی ٹی آئی رضیہ سلطان بن کر بھٹکتی تھی تو یہ اردو میڈیم اینکر اور صحافی انہیں بہت عزیز تھے۔ کپتان نے ان کو انتخابات سے پہلے استعمال بھی خوب کیا۔اب کپتان ان سے اتنا کیوں بدکتے ہیں۔ اس کی وضاحت مانگی تو ان کے عشق میں ہلکان ہمارا پرویز خٹک کی عمر جتنا یوتھیا دوست کہنے لگا ،اب آپ کا کیاخیال ہے میڈیا کے ان استعمال شدہ ٹوائلیٹ پیپرز کو سرکاری ڈنر میں سجا کر گلدان کے ساتھ مہمانوں کے سامنے رکھ دیں۔ ہم طاقت کے ستون ہیں۔کچھ ماہ رک جاؤ ،جب یہ چیاؤں چیاؤں کرتے کتورے ٹانگ اٹھا کر تمہارے ساتھ ستون والا سلوک کریں گے تب مزہ آئے گا۔
واشنگٹن۔امریکہ میں صحافیوں کا دنیا کا سب سے پرانا اور معتبر کلب ہے ،سن 1885 سے قائم۔کل65 ممبرز۔ “Grid Iron Club” ۔ ہر صحافی اس کا ممبر نہیں ہوسکتا۔ممبر شپ by invitation only ہوتی ہے۔۔اس کا سالانہ عشائیہ آسکر ایوارڈ کے ریڈ کارپیٹ جیسا ہوتا ہے۔ سن 1885 سے ایک آدھ کے سوا امریکی صدر اور دوسری پارٹی کے نامزد نمائندہ بھی شریک ہوتا ہے۔یہ وائٹ ٹائی افیئرہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ڈریس کوڈ یعنی لباس کے معاملے میں کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ ہماری شلوار قمیص میں لتھڑی اشرافیہ سے تو شاید ہی کوئی جاپاتا۔یہ بہت ہی سخت کوڈ ہے اس کے بعد بلیک ٹائی افیر ہوتا ہے جو نسبتاً ہلکی پابندی والا ہوتا ہے۔ اس ڈنر پر صدر یا دوسرے کسی فرد کو سٹیج پر طلب کیا جاسکتا ہے۔اس دوران مدعو کیے جانے والے مہمان کو کوئی ایسی حرکت یا تقریر کرنا ہوتی ہے جس سے ان کی کّھِلی(کھل۔ لی تمسخر مذاق اڑے)۔اوباما کو گانا نہیں آتا ،ان سے فرمائش کی گئی تھی کہ وہ گانا سنائیں۔کلنٹن بھی آئے تھے جانے ان سے کیا کہلوایا گیا۔ جس کو سن کر سامنے بیٹھی اہلیہ ہیلری کلنٹن شرم سے پانی پانی ہوگئی تھیں ۔
آپ کو یاد ہے نا ہم عبید الرحمن عرف بڑے بھائی کے بڑے بھائیوں کا انہیں بڑا بھائی کہنا اور ان کا ہمارے پوچھنے پر جھینپنے پر حوصلہ دلانا تھا۔
عام طور پر “Grid Iron Club” کے سالانہ عشائیے میں خواتین کو مدعو نہیں کرتے۔تقاریر میں ڈرٹی جوکس کی اجازت ہوتی ہے۔ سماجی لغت کا لحاظ کم خیال رکھا جاتا ہے۔ کسی خاتون نے آنا ہے تو یہ سب مسلراکرجھیلنا ہوگا ایک بہت شیطان سی اداکارہ ہوتی تھی۔Lucille Ball۔ ستر کی دہائی میں اس کا ہفتہ وار شو “Here is Lucy” نے پی ٹی وی پر بہت اودھم مچارکھا تھا۔اب منحوس مارے چینل ایک مہذب انگریزی پروگرام نہیں دکھا پاتے۔ حکومت کو چاہیے کہ چالیس کے قریب ان لوزر چینلز کو بند کردے۔سارا دن اس نے کہا ،میں نے کہا، قسم کے شو چلتے رہتے ہیں، جس میں درجہ سوئم کے بکواس کے ماہر سیاسی نمائندے بیٹھے ہوتے ہیں۔ پی ٹی وی کے بیس برس جو سن 1967 سے سن 1987 پر محیط تھے وہ بہت یاد آتے ہیں۔ موسیقی، شوز، ڈرامہ، مزاح تفریح اور علمیت کیا نہیں تھا۔
Lucille Ball کی شرط تھی کہ اس کی موجودگی میں کوئی ایسا لفظ نہیں کہا جائے گا جسے عام گفتگو میں گالی مانا جاتا ہو۔
صدر نے جب سالانہ عشائیے پر تقریر شروع کی تو کمال کا نکتہ نکالا۔ کہنے لگے کہ ہماری آج کی مہمان خصوصی کی خاص ہدایت تھی کہ آج ہم کوئی(Profanityغلیظ گستاخی والا لفظ) اپنی تقریر میں استعمال نہیں کریں گے۔اس ہدایت اور فرمائش پر میں ان کا نام پورا نہیں لے رہا اور کیوں کہ ان کے نام میں ایک ایسی گالی چھپی ہے جو مردانگی کا استعارہ ہے۔ان کی تکریم میں صرف انہیںMiss Lucile Testicle پکارنے پر اکتفا کروں گا۔ یہ سننا تھا کہ محفل کو تا دیر اپنی ہنسی روکنا محال ہوگیا تھا۔
آئیں عبید الرحمن عرف بڑے بھائی کی بات کریں، ہمارا اصل موضوع تو وہی ہیں۔
کل ایک نامحرم نمبر سے کال آئی تو دل کو لگا جانے کیا حالات ہوں ،ہوسکتا ہے صبا کا بیلنس ختم ہونے کو ہو ،ہمارے پاس ایک سو روپے کا کارڈ موجود ہے وہ دے دیں گے۔ بچی خوش ہوجائے گی۔
دوسری طرف کی مردانہ ہیلو میں خوف اور ہچکچاہٹ کی ملی ہوئی گندھاوٹ تھی جیسے گلے میں پھنس کر برآمد ہوا ہو۔ ”ہم نے پوچھا کہ کون بول رہے ہیں؟“
ایک سازشی سرگوشی کے لہجے میں کہنے لگے ۔” آپ کی امنگوں بھری، خوشیاں بانٹتی جواں عمر آواز سننے کو فون کیا تھا۔ہم جیسے دکھیاروں کے لیے آپ امید کا چراغ ہیں۔“
ہم نے اصرار کیا کہ اگر نام بتادیں گے تو اس ٹمٹاتے چراغ ِ سحری کی لو کچھ دیر مزید بھڑک اٹھے گی۔
گندھی ہوئی آواز میں کہا ’بڑے بھائی‘ بول رہا ہوں طبیعت بہت اداس تھی سوچا آپ کو سن لوں تو دل بہل جائے گا۔
بڑے بھائی کی زندگی قدرے آسودہ ہے۔سیٹھوں کی محفلوں میں سٹاک اور بکیز کے یارانوں نے خوشحال اور نہال کردیا ہے۔آرام دہ زندگی گزارتے ہیں ۔ایام آتش فشانی یعنی پرانے زمانے کی کچھ خواتین سے اب بھی سلام عشق کا سلسلہ جاری ہے۔جب جب سہولت میسر ہو انہیں سر سے پاؤں تک چوم لیتے ہیں۔ہم نے پوچھا تھا کہ ان پرانی خواتین سے اب بھی یاد اللہ ہے تو کوئی خاص وجہ ؟۔ کہنے لگے آپ بے رحم افسروں کو پرانے ململ کے کرتے،سوراخ والی بنیان پرانے تکیے، پرانے کوٹ سوئیٹر کی اپنائیت کا کیا پتہ۔
ہم نے اداسی کا پوچھا تو کہنے لگے کورونا کی وجہ سے ڈر بھی بہت لگتا ہے۔اکثر تو رات کو خوف کے مارے میں اے سی تیز کرکے رضائی اوڑھ کے بیوی سے منہ دوسری طرف کرکے سوجاتا ہوں“۔
ہم نے چھیڑا” 72 برس کا میرا بچوکڑا مرنے سے ڈرتا ہے۔ آپ نہیں مروگے تو کون عالیہ بھٹ، ماہرہ خان، اور مراد سعید مریں گے“۔
”موت سے تو سبھی ڈرتے ہیں“۔ بڑے بھائی نے اپنی بات پر قدم جمائے رکھے۔
ہم نے کہا رات کے کسی پہر ہم آپ کی زندگی کی دعا مانگیں تو اللہ میاں کو کیا بھاؤ بتائیں۔ کون سا فگر Quoteکریں ،کیا کہیں اے رب کائنات سید الانبیا آخر الزماں کے صدقے بڑے بھائی کو92 برس تک 192 برس تک،999 برس تک زندہ رکھ۔ ہم میمن اللہ کو ایک دم صحیح فگرز بتاتے ہیں اس لیے کاروبار میں برکت دیتا ہے۔ تم مہاجروں کی طرح یہ نہیں کہتے کہ تھوڑا ہے تھوڑے کی ضرورت ہے۔


کہنے لگے وہ تو علیم الصدور ہے۔ مالک کائنات ہے اسے فگر کوٹ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟۔ ہم نے کہا اس سے چھیڑ چھاڑ نہ کیاکریں تو بہتر ہوگا۔
خواجہ گیسو دارز بندہ نواز جو چشتی سلسلے کے بزرگ اور خواجہ حسن برہاں غریب کے خلیفہ تھے وہ کہتے تھے کہ ایک ڈوبزرگ اور خواجہ برہان الدین حسن غریب کے خلیفہ تھے وہ کہتے تھے کہ ایک ڈوم (مراثی) نے ایک رات دعا مانگی کہ یہ جو آنگن میں چھوٹا سا بیری کا درخت ہے یہ سونے کا ہوجائے۔ صبح ہوئی تو درخت واقعی سونے کا ہوچکا تھا۔علیم خان اور اسد عمر کی طرح دوبارہ وزارت ملنے پر خوشی سے ناچنے لگا۔بیوی کو کہنے لگا۔ دیکھو ہماری دعا سے یہ بیری سونے کی ہوگئی۔میری سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ لوگ اندھے کیوں نہیں ہوجاتے جو اللہ سے چھوٹی چھوٹی چیزیں مانگتے ہیں۔ تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ مراثی اندھا ہوگیا۔
کہنے لگے کہ سچ کہوں ”مرنے کو جی نہیں کرتا۔
ہم نے کہا تو پھر کیا دیپکا پڈوکون کے ساتھ اس عمر میں گھومر ڈالنے کو کرتا ہے۔آرزو کیا ہے کہ میلانیا ٹرمپ طلاق لے کر آپ سے شادی کرلے۔محمد بن سلمان کی جگہ شاہ سلمان کے مرنے پر آپ کو بادشاہ بنادیا جائے
کھسیانے ہوکر کہنے لگے ایسا کچھ نہیں؟
”کہنے لگے آپ کیسے خوش رہتے ہیں۔آپ کی آمدنی بھی ہم سے کم ہے۔بچے بھی باہر ہیں، بیگم بھی زیادہ لفٹ نہیں دیتیں۔
ہم نے نشتر لگایا ”ویسے ہم اے۔ سی تیز کرکے رضائی اوڑھ کر بیوی سے منہ دوسری طرف کرکے نہیں سوتے۔ “
”طنز نہ کریں بات کا جواب دیں ہماری بات دل پر نہ لیں۔ٹرمپ کو میلانیا ٹرمپ لفٹ نہیں دیتی تو آپ کی ہماری کیا بساط “ بڑے بھائی التجا بھرے لہجے میں کہنے لگے
ہم نے کہا ہم نے تین معاملات کامل اللہ پر چھوڑ دیے ہیں۔۔
پہلا جو کچھ ہمارے پیٹ کے لیے بنا ہے وہ ہمارے ہی پیٹ میں جائے گا۔ یہ بات ہمیں مدینے میں روضہ رسول پر ایک بہت صاحب رسائی بزرگ صوفی عبدالمالک نے دعا کے ساتھ سمجھادی تھی۔
دوسرا اسٹیبلشمنٹ وزیر اعظم کو نہ ہم سے پوچھ کر ہٹائے گا نہ ان کی جگہ ہم کو وزیر اعظم یا آئی ایس آئی کا پہلا سویلین چیف لگائے گا ،نہ ہی بزدار کو وزیر اعظم اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر ہٹائیں گے۔
تیسرا موت ہم سے پوچھ کر نہیں آئے گی، جس طرح ہماری پیدائش میں ہمارا کوئی دخل نہیں تھا اس طرح ہماری موت میں بھی ہماری مرضی نہیں چلے گی سو عبادت اللہ کی وہ بھی زیادہ نہیں۔ یوں سمجھیں جو محفل زیادہ اچھی ہو وہاں اپنی مرضی سے زیادہ دیر نہیں بیٹھتے، اس طرح جانماز کو بھی ہر وقت بچھا کر نہ رکھیں۔اطاعت رسول اکرم ﷺکی وہ بھی خاص طور پر کردار اور دعوت کے حوالے سے۔خدمت خلق کی جہاں تک ممکن ہو مگر خلقت کو بھی سر پر نہیں بٹھانا۔
حریص ہیں باز نہ آئے۔ بیوی بچوں کا کچھ نہیں کہا آپ نے۔۔۔
ہم نے کہا وہ یوں ہے کہ لوگوں سے کم ملیں۔اولاد سے کوئی امید نہ رکھیں۔ وہ گھر سے چلے گئے ہیں تو اب واپس نہیں آئیں گے۔ہم بھی تو اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر سول سروس اکیڈیمی لاہور چلے گئے تھے ۔بیوی زندہ ہے مگر اس کے اندر کی عورت بہت پہلے سے مرچکی ہے۔اس کی قبر کشائی کرکے Cause of Death والا سرٹیفکیٹ نہ ڈھونڈیں۔
فون یکایک کٹ گیا۔۔۔۔۔
ایک گھنٹے بعد فون آیا تو لہجہ معذرت خواہانہ تھا، کہنے لگے”آپ سے گفتگو کے دوران سپیکر آن تھا۔ پتہ ہی نہ چلا کہ بیوی بیٹی کب پیچھے آن کر کھڑے ہوگئے۔ نگاہ پڑی تو دونوں خشمگیں نگاہ سے گھوررہی تھیں۔ میں نے گھبراکے ڈس کنیکٹ کردیا۔ دونوں یک زبان ہو کر آپ کو برا بھلا کہہ رہی تھیں۔آج کی Dose لاک ڈاؤن کے لیے کافی ہے۔جیتا رہا، حالات ٹھیک رہے تو قدم بوسی کو حاضر ہوؤں گا ،ورنہ اپنا سلام آخر ہے“۔
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں