الف کو گناہ سے بچائیں ۔۔یاسر پیرزادہ

الف ایک صالح انسان ہے، بے حد شریفانہ زندگی گزارتا ہے، پنج وقتہ نمازی ہے، پرہیزگار ہے، کوئی شرعی عیب اس میں نہیں، شراب کے اسے ہجے نہیں آتے اور سگریٹ وہ مدت ہوئے چھوڑ چکا ہے۔

صبح وقت پر دفتر جاتا ہے، وقت پر واپس آتا ہے، اپنا کام پوری دیانتداری سے کرتا ہے، نماز کے بہانے دفتر سے غائب نہیں ہوتا، رمضان میں کوئی اضافی چھٹی نہیں لیتا، زندگی میں کبھی ایک روپیہ رشوت نہیں لی، حق حلال کی تنخواہ میں گزارا کرتا ہے اور اپنی خواہشات کو لگام دے کر رکھتا ہے، کبھی یہ لگام اُس کے ہاتھ سے چھوٹنے لگتی ہے تو وہ تہجد کے وقت اٹھ کر دو نفل پڑھتا ہے اور اپنے رب سے دعا کرتا ہے کہ اس کے دل سے طمعِ دنیا ختم کر دے۔

ایسا کرنے سے اسے کچھ سکون مل جاتا ہے۔ چند برس پہلے ایک چھوٹا سا مکان اسے ترکے میں ملا تھا، یہ واحد پراپرٹی تھی جو زندگی میں اُس کی ملکیت میں آئی تھی، الف نے خدا کا شکر ادا کیا کہ اب کم از کم کرائے کے مکان سے تو چھٹکارا مل جائے گا مگر چند ماہ بعد ہی اکلوتی بیٹی کی شادی طے ہو گئی، جمع پونجی تو تھی کوئی نہیں، سو وہی مکان بیچ کر بیٹی کی شادی کر دی اور جو رقم بچی اُس کا ایک سستی ہاؤسنگ اسکیم میں پلاٹ خرید لیا اور باقی پیسوں کی ایک سیکنڈ ہینڈ گاڑی۔

پھر وہی ہوا جو ایسے شریف آدمیو ں کے ساتھ ہوتا ہے، کچھ عرصے بعد الف نے جب پلاٹ بیچنا چاہا تو معلوم ہوا کہ وہ پلاٹ نہیں فقط کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے، موقع پر کوئی زمین ہی نہیں۔ روپوں کی ضرورت تھی چنانچہ گاڑی اونے پونے داموں ایک جاننے والے کو بیچ دی، اُس نے ڈیڑھ لاکھ روپے ہاتھ میں دیے اور ’’باقی ایک ماہ بعد‘‘ کہہ کر ایسا غائب ہوا کہ پھر شکل نہیں دکھائی۔

الف نے جانا کہ اِس میں بھی ’’کوئی نہ کوئی بہتری ہو گی‘‘ اور صبر شکر کرکے چُپ ہو گیا۔ الف کی بیوی بھی بہت نیک اور پارسا عورت ہے، کبھی اُس بھلی مانس نے اپنے شوہر سے بے جا فرمائش نہیں کی، اُس کی محدود تنخواہ میں وہ خوش ہے، کوشش کرتی ہے کہ کسی طرح آمدن میں اضافہ کرکے وہ اپنے شوہر کاہاتھ بٹائے مگر تاحال کامیاب نہیں ہو سکی۔

کچھ عرصہ پہلے اُس نےکسی موٹیویشنل اسپیکر کی گفتگو سے متاثر ہو کر ’’گھر کے بنے ہوئے لنچ باکس‘‘ دفاتر میں مہیا کرنے کا کام شروع کیا تھا، اُس کا خیال تھا کہ دفتروں میں کام کرنے والے لوگ یہ لنچ باکس منگوا لیاکریں گے تو اُس کا کام چل جائے گا مگر ایسا نہیں ہوا، وہ نیک بی بی ہمت ہار کر گھر بیٹھ گئی۔ اب محلے کی دو چار بچیوں کو ٹیوشن پڑھا کر چند ہزار روپے کما لیتی ہے اور کبھی تو وہ بھی نہیں۔

دونوں میاں بیوی جب متمول لوگوں کی زندگیوں کا اپنی زندگی سے موازنہ کرتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ آخر انہوں نے ایسا کون سا گناہ کیا ہے جس کی پاداش میں وہ گھٹ گھٹ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، کیوں چھوٹی چھوٹی خواہشات کے لیے وہ ترس رہے ہیں، کیا تقویٰ کا اِس زندگی میں کوئی انعام نہیں؟ وہ حسرت سے اپنے اردگرد خوشحال لوگوں کو دیکھتے ہیں اور حیرت سے اُن کی باتیں سنتے ہیں۔

کوئی کہتا ہے اُس پر ﷲ کا خاص کرم ہے، کوئی کہتا ہے سب اُس کی ماں کی دعا ہے، کوئی کہتا ہے یہ اُس کی ایمانداری کا انعام ہے، کوئی کہتا ہے کہ وہ خوش نصیب ہے، کوئی کہتا ہے کہ یہ اُس کی محنت کا پھل ہے اور کوئی کہتا ہے کہ اُس نے اپنی ذہانت سے کامیابی حاصل کی ہے۔

الف سوچتا ہے کہ اگر یہ سب لوگ ٹھیک کہتے ہیں تو پھر اُس نے خدا کی کون سی حکم عدولی کی جس کی وجہ سے وہ ﷲ کے کرم سے محروم رہ گیا، بہت کوشش کے باوجود اسے کوئی ایسی بات یاد نہیں آتی۔ پھر وہ سوچتا ہے کہ ماں تو اُس کی بھی تھی، دعائیں تو وہ بھی بہت مانگتی تھی، اُس کی ماں کی دعائیں کیوں قبول نہیں ہوئیں! اور یہ بات بھی اُس کے لیے الجھن کا باعث ہے کہ ایمانداری کا صلہ ملتا ہے، اگر ایسا ہے تو اُسے اب تک یہ صلہ کیوں نہیں ملا!

اسے یہ خیال بھی آتا ہے کہ شاید یہ کوئی آزمائش ہو، مگر پھر یہ آزمائش آخر کب ختم ہوگی، زندگی ختم ہونے کو آ گئی ہے۔ کسی نے اسے کہا کہ اچھا ہے اِس زندگی میں مشکلات ہیں، اگلی زندگی کا امتحان آسان ہوگا، یہ بات بتانے والا خدا کا نیک بندہ ایک کروڑ کی گاڑی میں بیٹھا ٹائروں کی ہوا چیک کروا رہا تھا اور الف اپنی ناکارہ موٹر سائیکل کا پنکچر۔

ایک دوست نے قناعت پسندی کا درس دیا اور الف کو سمجھایا کہ دنیا میں لوگوں کے دکھ اُس سے کہیں بڑے ہیں، وہ شکر کرے کہ صحت مند ہے، معذور نہیں۔ الف اسے کیا بتاتا کہ وہ روزانہ اپنے رب کا کتنا شکر ادا کرتا ہے۔

الف نے یہ باتیں بھی سن رکھی ہیں کہ دنیا میں وہ لوگ ناکام ہوتے ہیں جو محنت نہیں کرتے، ہر شخص کو زندگی بدلنے کا موقع ملتا ہے مگر ہر کوئی اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھا پاتا، بدقسمتی کو خوش قسمتی میں بدلنے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ کسی خوش قسمت کے ساتھ نتھی ہو جائیں۔

نیک اور بے گناہ لوگ مصیبت اور پریشانی کا شکار اِس لیے ہوتے ہیں کیونکہ خدا نے انہیں دنیا میں وسیلہ بنا کر کوئی بڑا کام لینا ہوتا ہے اور ضرور ی نہیں کہ ہر دولت مند شخص پُرمسرت زندگی گزارے، غربت میں رہ کر بھی خوشی حاصل کی جا سکتی ہے۔

شاید یہ تمام باتیں ہی درست ہوں مگر الف اب اِن باتوں سے مطمئن نہیں ہوتا، اسےکسی ایسے شخص کی تلاش ہے جو اِس گورکھ دھندے کا مطلب سمجھا سکے، اب تک تو اسے کوئی نہیں ملا، اگر آپ میں سے کسی کے پاس الف کے سوالوں کو جواب ہو تو اسے ضرور بتائیں، ورنہ ہو سکتا ہے الف گناہ کے راستے پر چل نکلے!

Advertisements
julia rana solicitors

جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply