• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اصل  عذاب کورونا نہیں ہے۔۔چوہدری نعیم احمد باجوہ

اصل  عذاب کورونا نہیں ہے۔۔چوہدری نعیم احمد باجوہ

جہالت کا علاج کیا ہے۔ صاحبان عقل  کہیں گےعلم علاج ہے۔ پر اتنا  بے تحاشا  علم پڑھنے اور ہزاروں کتابوں کی  ورق گردانی کرنے  کے دعوؤں کے باوجود   جہالت  کیوں ڈیرے ڈالے بیٹھی ہے ۔اپنے گھر کی راہ لیتی  کیوں نہیں۔علم کی میراث  کے   نام نہاد  دعویدار سر تا پا جہالت میں  لتھڑے ہوئے کیوں ہیں  ؟ علم جہالت کا علاج تو ہوگا،پر ہمارے ہاں نہیں شاید کہیں اور۔  پڑھے لکھے جاہل  اور   تجاہل عارفانہ کی اصطلاحیں بھی ہمارے ہی جبہ پوشوں پر صادق آتی ہیں ۔

مارچ کےدنوں میں بڑا غلغلہ  تھا کہ حکومت علم  و حکمت بانٹنے والے  اکتالیس ہزار “مبلغین”  کی تلاش میں ہے ۔ جو گُل انہوں نے کھلائے اس کے نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں او رمزید آئیں گے ۔  چلیں ان  کو مرفوع سمجھیں کہ فہم و فراست  کی بلند تر سطح پر فائز ہونےکی وجہ سے  چھوٹے موٹے وائرس کوانہوں نے  درخور اعتنا نہ سمجھا ۔ پر یہاں تو  حکومت کے وظیفہ خوارجنہوں نے مشکل وقت میں  عوام کی بھلائی کی خاطر حکومت کی پالیسیوں کی حمایت کرنا تھی ،اَڑے ہوئے ہیں ۔ خم ٹھونک کر مد مقابل آبیٹھے ہیں ۔ پوچھنا تھا کہ اولی الامر کی کھلم کھلا  نافرمانی کرنے  اور ملکی قانون سےسرعام بغاوت کا اعلان کرنے والوں پر  ملکی خزانے کے  بیت المال سے لیا گیا مشاہرہ  حلال رہتا ہے  کہ نہیں ۔  اور ہاں بھلا وجہ کی  اکڑ اور ہٹ دھرمی کس کی  امتیازی شان ہے ، مجھے کہنے کا یارہ نہیں آپ بھی چپ رہیں ۔۔ بس سمجھ لیں۔

ہمارے بزرگ علما کرام بضد ہیں کہ مساجد کھلی رکھنا اور نماز باجماعت ادا کرنا ضروری ہے ۔ کوئی  ان سے پوچھ لے کہ  حضرت  مساجد  میں دیے گئے گزشتہ  ہزاروں لاکھوں سجدوں نے کیا بگاڑ لیا ہے آپ کا۔پر ایسا رند کہاں سے لائیں جو سوال کو زبان دے پائے۔سجدہ تو ٹھہرا  عاجزی کا انتہائی مقام۔ اس سے آگے عجز وانکسار  کی کوئی راہ بچتی نہیں ، لیکن یہاں تو گنگا ہی الٹی بہتی ہے۔  جس مولانا کے سر پرجتنا بڑا پگڑوہ اتنا بڑا متکبر۔

کورونا اور مولانا سے وہی  بچ پائیں گے جو دور رہیں گے۔  کورونا کی ویکسین کے لئے دنیا سر توڑ کوشش کر رہی ہےاو راُمید قوی ہےکہ جلد یا بدیر کوئی حل نکل آئے گا  ۔  پر سوچیے اس وائرس کا   جو سر غرور سے  خارج ہو کر خناس کی شکل میں  عوام کے دماغوں میں  سرائیت کر گیا ہو۔ جو اپنی جون ہر لمحہ بدلنے کی صلاحیت رکھتا  ہو۔ جو وقت کی دھار دیکھتا اور چڑھتے سورج کو سلام کرتا  ہو،صرف اپنے مفادات عزیز رکھتا ہو ۔ کبھی  سرِ بازار کھڑے ہو کر دھڑلے سےہر ایک کو ہاتھ ملانے کی ترغیب دیتا ہو  اور دوسرے  ہی لمحے سافٹ وئیر کی تبدیلی  کے بعد احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا کہتا ہو۔ جوکبھی منبر پر چنگھاڑے توکبھی بھیگی بلی بن جائے۔ کبھی دیگ میں پنا ہ لے تو کبھی داڑھی صاف کروا کر جان بخشی چاہے۔ جو  پرائی اولادوں کو  جہاد کے نام پر نکال لائے اور پھر  حسب ضرورت   ا پنا سر بچانے  کے لئے مریدوں  کو انگاروں پر لوٹتا چھوڑ کر  برقعہ میں  پناہ گزین ہو جائے۔

تراویح ایک نفل عباد ت جو دراصل تہجد کی ایک آسان شکل   کمزوروں بوڑھوں اور محنت کشوں کے لئے اپنائی گئی کہ صبح نہ اٹھ سکو تو کم ازکم سونے سے پہلے پڑھ  لو۔بھلے یہ نفل ہو یا سنت لیکن مذہبی افراد اور اداروں کا سیزن تو رمضان ہی ہے۔ اور کس کو اپنا سیزن لگانے کی فکر نہیں ہوتی ۔ اس لئے کچھ کر لو مولانا تو سیزن لگائے گا۔ کوئی بچے یا مرے سیزن تو لگے گا۔کیونکہ اگر ایک بار تراویح کا معاملہ ان کے ہاتھ سے نکل کر  گھروں میں منتقل ہو گیا تو پھر اگلے سال کون پوچھے گا۔ اگر ہر گھر میں نماز باجماعت پڑھانے والا پیدا ہو گیا ۔ اگر لوگ جنازے خود پڑھانے لگے۔ تو ان مولانا کی دہائیوں کی معاشرے کو تقسیم در تقسیم کرکے راج کرنے کی سا ری محنت غارت جائے گی ۔ ان کادہائیوں کا سفر کھوٹا ہو جائے گا ۔

ہاں کورونا نے  پتا نہیں ابھی دنیا میں کیا کچھ کرنا ہے پر  نام نہاد  علما کے جو لبادےاس نے اتار دئیے ہیں  وہ تاریخ کا حصہ رہیں گے۔ مزید عیب عیاں  ہونا ابھی باقی ہیں  بس دیکھتے جایئے۔ فلم ا بھی باقی ہے اور پارٹی بھی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

کورونا وائرس تو پھر بھی لیبارٹری میں دکھائی دے جاتا ہے  اور جلد یا بدیر کوئی علاج دریافت ہو جائے گا۔  ہمارے معاشرے  کا اصل  عفریت  جب تک پکڑا نہیں جاتا ۔ جب تک اس کی کوئی  ویکسین بن نہیں جاتی ہماری نسلوں کی کا چڑھاوا اس کے چرنوں  پہ  چڑھتا رہے گا۔

Facebook Comments

چوہدری نعیم احمد باجوہ
محبت کے قبیلہ سے تعلق رکھنے والا راہ حق کا اایک فقیر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply