بہار اب کے برس جب آنکھ کھولے گی
مِلیں گی اُس کو اپنے گرد فصلیں زرد موسم کی
وہ دیکھے گی
کہ مجذوبی میں اُس پر کیسی شامِ غم اُترتی ہے
جو فرقت کی قیامت ایک عالم پر گزرتی ہے
جو دُکھ رنگین پت جھڑ کے
بند آنکھوں کے پپوٹوں پر اُبھرتے ہیں
جو قصّے ہوش آنے پر شجر اُس کو سناتے ہیں
وہ خود اِس بار دیکھے گی
جو رُت پیڑوں سے اُتری ہے
وہ ہر بستی پہ چھائی ہے
ہجومِ آدمِ رنگیں گماں، اپنے گمانوں میں
کہیں گھر کے کواڑوں ، بند دروازوں کا قیدی ہے
گریزاں کھڑکیوں کی بھنچتی پلکوں کے عقب میں گم
کچھ اندیشوں سے دھندلائے ہوئے شیشوں کی اُلجھن میں
خزاں کا رُت گزیدہ ہے
جہاں عارض دہکنے تھے
وہاں دامن دریدہ، آبدیدہ ہے
گُلِ صد رنگ سے بازو کشیدہ ہے
کہاں کی رنگ پاشی اور گُل پاشی
یہاں آدم گلے ملنے سے عاری ہے
جدائی جبر ہے یا اختیاری ہے
مگر ناظر ہے خود منظر
بہار آئی ہے پیڑوں پر
تو بستی کے لیے پت جھڑ کا عالم ہے
مکانوں پر ہیں بیلیں زرد اِستادہ
چمن گلزارِ حیرت ہے
چھلکتے رنگ کے نشّے
سے بےخود سبز دھُن پر بھی
خزاں کا رقص جاری ہے
مگر موسم، تغیّر ہے
نئی کونپل تو پھوٹے گی
بہار اب سوئے یا اونگھے
یہ بستی پھر سے جاگے گی
نئی پوشاک پہنے گی
زمیں پر صحبتِ رنگیں کا موسم پھر سے آئے گا
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں