• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کالعدم تنظیموں کا الیکشن لڑنا ، تحفظات اور حقائق۔۔۔طاہر یاسین طاہر

کالعدم تنظیموں کا الیکشن لڑنا ، تحفظات اور حقائق۔۔۔طاہر یاسین طاہر

کالعدم تنظیموں کا الیکشن لڑنا ، تحفظات اور حقائق
طاہر یاسین طاہر
خود فریبی کے سوا کچھ بھی نہیں۔وہی گروہ جو آپ کی اصل طاقت ہیں ،ان کی علیحدگی پہ آپ کو تحفظات؟تاریخ کسی کی رشتہ دار نہیں ہوتی۔یہ بحث اپنی جگہ موجود ہے کہ تاریخ ِ عالم سے لے کر تاریخ ِ اسلام تک میں کہاں کہاں جھول ہے۔ہم مگر بہت پیچھے، بہت دور تک نہیں جائیں گے۔زمینی حقائق سے ربط کیا جائے تو بہت سی چیزیں آشکارا ہیں۔ پورا سچ نہ تو اسٹیبلشمنٹ کو گوارا ہے اور نہ ہی کسی سیاسی و مذہبی جماعت کو۔ بلکہ ہم میں سے کسی کو بھی پورا سچ گوارا نہیں۔سب کے اپنے اپنے سچ ہیں، اور اپنے اپنے اخبار نویس۔چند ایک ایسے بھی ہیں جو نہ تو اسٹیبلشمنٹ کو گوارا ہیں نہ کسی سیاسی جماعت کو پسند،مذہبی جماعتوں کی فتویٰ کاریاں بھی ان ہی کے لیے ہیں۔یہ قصہ صرف روس کے خلاف افغان جنگ سے شروع نہیں ہوتا۔کالعدم گروہ صدرِ اسلام سے موجود رہے۔مثلاً خوارج کا گروہ اسلام کا پہلا کالعدم گروہ تھا۔
یہ کون نہیں جانتا کہ نون لیگ کی سیاسی قوت کا انحصار کالعدم تنظیموں کے ووٹ بینک پر ہے۔نون لیگ کے ایک صوبائی وزیر پر تو باقاعدہ کالعدم تنظیموں کی سرپرستی کا بھی الزام ہے جس کا وہ آج تک کوئی مناسب اور معقول جواب نہ دے سکے۔میرے لیے یہ بات حیرت افروز ہے کہ نون لیگ کے “کالعدم سربراہ” میاں نواز شریف کو کالعدم تنظیموں کے الیکشن لڑنے پر تحفظات ہیں۔سابق وزیر اعظم جو ،اب “کالعدم” ہو چکے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ کالعدم تنظیموں کی انتخابی سرگرمیاں سب کے لیے باعث ِ تشویش ہونی چاہئیں۔بعض فرقہ وارانہ سوچ کی حامل جماعتوں کے امیدواروں کی این۔ اے 120 کے ضمنی الیکشن میں شرکت ہمارے لیے لمحہ فکر یہ ہے۔سیاست میں یہ رحجان خطرناک ہو سکتا ہے۔کالعدم جماعتوں سے رابطوں کا نقصان جمہوری جماعتوں کو ہی ہو گا۔اس طرح کے واقعات سے جمہوری قوتوں کو نقصان پہنچے گا،جس سے ملکی حالات عجیب رخ اختیار کر سکتے ہیں۔ملک اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔یہ سابق وزیر اعظم صاحب کے خیالات ہیں۔
کاش انھوں نے اس سے پہلے بھی کالعدم تنظیموں، ان کے کارندوں،اور ہمدردوں بارے ایسا ہی سوچا ہوتا۔یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ اگر سیاسی و غیر سیاسی قوتیں ہوش کے ناخن لیتیں تو ملک میں 70 سے زائد ایسی جماعتیں اور تنظیمیں بنتی ہی نہ، جنھیں بعد میں کالعدم قرار دیا جانا ضرور ہوتا۔کالعدم جماعتوں سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے پیپلز پارٹی،ایم کیو ایم اور اے این پی، کسی حد تک اچھی لگتی ہیں۔ اگرچہ مذکورہ جماعتوں نے بھی مولوی صوفی محمد والی کالعدم شریعت محمدی سے ایک معاہدہ سوات کے نام سے کیاتھا، جسے مولوی صوفی محمد نے مینگورہ گراونڈ میں اپنی تقریر کے ذریعے پارہ پارہ کر دیا تھا۔نون لیگ کی ساری سیاسی تاریخ ہی دائیں بازو کے ووٹروں کی ہے۔ذرا کوئی بتائے کہ بائیں بازو کی کتنی تنظیمیں ہیں جو کالعدم قرار پائی ہیں؟ کالعدم لشکر جھنگوی کے لیے کون نرم گوشہ رکھتا ہے؟ کالعدم سپاہ صحابہ کے مرحوم ملک اسحاق کس سیاسی جماعت کے صوبائی وزیر کی گاڑی میں گھوما پھرا کرتے تھے؟یہ تو ابھی کل کی بات ہے، جب پی ٹی آئی اور ڈاکٹر طاہر القادری نے اسلام آباد میں حکومت کے خلاف ایک مشترکہ دھرنا دیا تھا تو کالعدم جماعتیں ہی نون لیگ کے حق میں مظاہرہ کرتی پائی گئی تھیں۔کیا کالعدم لشکر طیبہ سے نون لیگ کی ہمدردیاں کسی سے ڈھکی چھپی بات ہے؟کیا کالعدم جماعۃ الدعوہ جو اسی لشکر طیبہ کی شاخ ہے اسے لاہور میں سرگرمیاں جاری رکھنے سے کبھی نون لیگ کی صوبائی حکومت نے منع کیا؟ حتیٰ کہ کالعدم اہلسنت والجماعت تک سے نون لیگ کا انتخابی و سیاسی اشتراک اور مفادات مشترک ہیں۔
اب مگر جب حلقہ این-اے 120 میں سے ملی مسلم لیگ کا امیدوار میدان میں اترا تو نون لیگ کے “کالعدم سربراہ” کو کالعدم تنظیموں کی سیاسی سرگرمیوں پر شدید تحفظات ہونے لگے ہیں۔ملی مسلم لیگ، جسے پاکستانی سیاسیات کے طالب علم مِنی مسلم لیگ،ہی کہتے ہیں، ابھی تک باقاعدہ رجسٹرڈ سیاسی جماعت نہیں ہے۔کیا واقعی میاں نواز شریف صاحب اور ان کی سیاسی جماعت یہ سمجھتی ہے کہ کالعدم اور فرقہ وارانہ تنظیمیں ملک، جمہوریت اور انسانیت کے لیے خطرہ ہیں، کیا واقعی؟یہ تو ابھی کل کی بات ہے جناب، جھنگ سے کالعدم سپاہ صحابہ کے سربراہ حق نواز جھنگوی کا بیٹا مسرور جھنگوی ضمنی انتخابات میں، کامیاب ہوا اور اس نے جمعیت علمائے اسلام (ف) میں شمولیت اختیار کر لی۔ یہ وہی سپاہ صحابہ ہے جو بچے جنتی جنتی کالعدم اہلسنت والجماعت تک آن پہنچی ہے۔مسرور جھنگوی جس مذہبی سیاسی جماعت میں شامل ہوا ہے ،وہ جماعت نون لیگ کی اتحادی جماعت ہے۔ کیا میاں صاحب کو وہاں کالعدم اور فرقہ وارانہ مزاج و ذہنیت کا نمائندہ نظر نہیں آ رہا؟ وفاق میں مسلم لیگ نون کی حکومت ہے، اور اس حکومت کے ہوتے ہوئے کالعدم تنظیمیں جلوس اور ریلیاں نکالیں تو اسے کیا سمجھا جائے؟یہی نا کہ کالعدم تنظیموں کو وفاقی حکومت کی پشت بانی حاصل ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سیاست کاری اور چیز ہے، بیان بازی کر کے فوج کو بد نام کرنااور یہ تاثر دینے کی کوشش کرنا کہ حلقہ این -اے 120 میں کالعدم تنظیموں کو فوج نے انتخابی مہم میں اتارا، ایک خطرناک کھیل ہے۔بے شک اسٹیبلشمنٹ سے شدید غلطیاں ہوئی ہیں، مگر یہ فوج ہی ہے جس نے دہشت گردوں کا نیٹ ورک توڑا ہے۔ ابھی بہت سا کام باقی ہے اور فوج کر رہی ہے۔ نون لیگ نے تو حکومت میں آتے ہیں کالعدم تحریک طالبان سے مذاکرات شروع کر دیے تھے۔اگر نون لیگ بھی واقعی شدت پسندی اور فرقہ واریت کو ختم کرنا چاہتی ہے تو بسم اللہ کرے۔ سب سے پہلے اسلام آباد میں بیٹھے داعش کے اس ہمدرد کو پکڑے جس کے مدرسے سے داعش کے حق میں ویڈیو پیغام نشر ہوئے اور جو اپنی ذات میں ایک سرکاری خطیب، یعنی وفاقی حکومت کا ملازم ہے۔وزرت عظمیٰ سے جاتے ہی آپ کو جمہوریت کا دکھ ہونے لگا ہے۔ آپ کو کالعدم تنظیمیں بھی نظر آنے لگی ہیں۔مگر یہ وہی کالعدم تنظیمیں ہیں، جنھیں آپ نے پال پوس کے بڑا کیا، ان کے ووٹ لیے اور انھیں سیاسی، سماجی اور معاشی فوائد دیے۔ایسے لمحوں میں اکثر میں نواب شیفتہ کو یاد کرتا ہوں۔
افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی
خوف ِ فسادِ خلق سے نا گفتہ رہ گئے

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”کالعدم تنظیموں کا الیکشن لڑنا ، تحفظات اور حقائق۔۔۔طاہر یاسین طاہر

  1. It is very sad to say that including Noonleageu, every political party sheds herself under the help of any banned party or gang at the time when they see fading away from the scene. as the writer showed his doubts that all the banned and ill legal militants organisations are under the soft hand of these political parties specially noon league, which is pro taliban and its supporters. just for the sake of vote.

Leave a Reply