بچوں پہ ہونے والا جنسی تشدد اور اسکا ممکنہ تدارک۔۔محمد سعید

ہمارا عمومی رویہ ہے کہ ہم معاشرے میں پائی جانے والی کسی بھی برائی کے اسباب کو اجاگر کرنے تک محدود رہتے ہیں،جبکہ میرے نزدیک سنگین نوعیت کے جرائم کی گنجائش پڑھے لکھے تہذیب یافتہ معاشروں میں زیادہ سے زیادہ ایک یا دو بار ہونی چاہیے۔اگر ہم اسے روک نہیں پاتے تو یقین کیجیے ہم ناکامی کی سطح سے بھی بڑھ کر انجانے میں اس نوعیت کے سنگین جرائم کے تواتر کے ساتھ ہونے کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔زیر نظر تحریر میں ،میں نے ممکنہ حل  پیش کیا ہے،اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ مجموعی طور پر ان گزارشات کو حکام بالا تک کیسے پہنچاتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی اس بے چینی کا تدارک از حد ضروری ہو گیا ہے۔ عام طور پر ہمارا ذہنی میلان یا رجحان ان امکانات کی طرف بڑھتا جا رہا ہے کہ ایسے واقعات و حادثات کے پس منظر میں زیادہ تر غربت کے سبب بروقت شادیوں کا نہ ہونا،جنسی ہیجان انگیز فلموں تک بآسانی رسائی ،کمسن عمر کے بچوں کا اوباش فطرت حیوان نما وحشی انسانوں کے درمیان بہ امر مجبوری کام کرنا جیسے عوامل کار فرما ہیں۔

ضروری نہیں کہ ہر مذموم واقعہ کے پیچھے ایک جیسے محرکات و اسباب ہوں۔المیہ یہ ہے کہ جہاں ریاست دوسرے امور کی انجام دہی میں مشکلات کا شکار نظر آرہی ہے وہیں پر خود اپنے مروجہ ناقص پالیسیوں کے سبب محض جگ ہنسائی کا منہ بولتا ثبوت پیش کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔سردست ہمارا اولین مقصد ایسے واقعات کی مؤثر روک تھام ہونا چاہیے ۔

اچھا آئیے ایک ایسے دردناک واقعہ کے سد باب کے لئے ایک قابل عمل مجوزہ طریقہ کار وضع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔

ایک آٹھ سالہ بچی جنسی ہوس کا نشانہ بننے کے بعد شدید زخمی حالت میں ملتی ہے۔۔بچی مناسب علاج معالجہ کے بعد مجرم کی نشاندہی کے قابل ہو جاتی ہےیادیگر اسباب کی بنیاد پر مجرم پکڑا جاتاہے۔مجرم کے ساتھ تفتیشی کاروائی،ماہرین نفسیات کے زیر نگرانی عمل میں لائی جائے،پکڑے جانے سے لیکر جرم ثابت ہونے اور پھر عدالتی کارروائی کے تمام مراحل یا ٹرائل مکمل طور پر ویڈیو ریکارڈڈ ہوں جو ماہرین نفسیات کی مشاورت کے بعد عوام کے سامنے پیش کیے جائیں،تاکہ عوام ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کو ایک واضح پیغام جائے کہ مجرم کو قرار واقعی سزا دی جا رہی ہے۔مجرم کو جو بھی سزا دی جائے اسے میڈیا پر مشتہر کیا جائے ۔پکڑے جانے سے سزا دینے کے فیصلے کے درمیان زیادہ سے زیادہ تین ماہ کی مدت متعین کی جائے۔حکومت کے لئے لازم ہو کہ ملک بھر میں کہیں بھی جیسے ہی اس طرز کا واقعہ رپورٹ ہو،بالکل ایسے ہنگامی اقدامات قائم کرے جیسے کہ قدرتی آفت سے نمٹنے کے لئے کیے جاتے ہیں۔دور جدید کا کوئی بھی معاشرہ جرائم سے پاک نہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم جدید ترین ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک ایسا نظام وضع کرکے عوام الناس کے اذہان میں نقش کردیں کہ اس کے ارتکاب پر ہر صورت سزا ہی ملے گی۔جب ہم عملی طور پر اس قسم کے نظام انصاف کو رائج کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر نا تو ہمیں سرعام پھانسی دینے کی ضرورت پیش آئے گی اور نہ  ہی اقوام عالم کے سامنے وضاحتیں دینے کی ۔

صرف ایک سال کے لئے ایسے جرائم کی بیخ کنی کے لئے خصوصی عدالتیں اور خصوصی ٹاسک فورسز قائم کی جائیں۔مذہبی،سماجی دانشوروں،صحافیوں اور لکھاریوں کی مدد سے ایسے ڈرامے اور فلمیں بناکر تمام چینلز پر بار بار نشر کیے جائیں تاکہ عوام الناس کے کم پڑھے لکھے طبقہ کے شعور کو بیدار کیا جا سکے۔سولہ سال سے کم عمر بچوں کے  ورکشاپس،گوداموں اور مارکیٹس میں کام کرنے پر پابندی عائد کر دی جائے خلاف ورزی پر بھاری جرمانے کیے جائیں۔

مجرم کی سماجی ہسٹری،ذہنی نفسیات اور ان عوامل کی بابت عوام الناس کو   آگاہ کر نا بہت ضروری ہے تاکہ اس سے ملتی جلتی کیفیات یا اخلاقی برائیوں کو دیکھ کر وہ ازخود ایسے وحشی انسان سے اپنے بچوں کو حتی الامکان دور رکھنے میں کامیاب ہو سکیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

متاثرہ فریق کی دادرسی کے لئے تمام سہولیات حکومت کی جانب سے مفت فراہم کی جائیں یا مجرم کے ذمےبطور جرمانہ عائد کی جائیں۔ایسے واقعات کا شکار بچوں اور بچیوں کو سپیشل ایجوکیشن سینٹر میں خصوصی ماہرین نفسیات کے زیر انتظام سینٹرز میں رکھا جائے تاکہ انکے معصوم اذہان پر پڑنے والے نفسیاتی تناؤ اور دباؤ کا بروقت تدارک کیا جا سکے۔۔بچوں کو مناسب آگاہی دینے کے لئےاس قسم کے واقعات سے پیشگی نمٹنے کے لئے کارٹون فلمیں بنائی جائیں اور بار بار نشر کی جائیں تاکہ وہ اپنے والدین یا بہن بھائیوں کوبلا خوف و خطر کسی بھی ممکنہ وحشت ناک حادثہ رونما ہونے سے پہلے آگاہ کر سکیں۔اگر ہم میڈیا ہی کے سہارے بار بار اس آگہی کے پروگرام کو فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں تو انشاء اللہ محض چند ماہ میں اس کے مثبت اور دور رس اثرات و نتائج مرتب ہوتے دکھائی دینے لگیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply