کتاب جننے کے مراحل۔۔۔مہدی بخاری

میرا خیال تھا کہ پاکستان میں بچے پیدا کرنا سب سے آسان کام ہے کیونکہ یہاں ان کے بھی بچے ہیں جن کی عقل داڑھ بھی نہیں نکلی (اگر نکلی ہوتی تو شاید سوجھ بوجھ سے کام لیتے) لیکن مجھے اب محسوس ہوتا ہے کہ بچے پیدا کرنے سے بھی آسان کام کتاب پیدا کرنا ہے۔ ایسے ایسے مصنف بنتے جا رہے ہیں جن کی عقل داڑھ تو کیا چہرے پر مونچھ تک نہیں نکلی۔ رہا سوال خواتین کا تو لگتا ہے کتاب جننا آج کل ان کا اوّلین مشغلہ ہے۔

میرا خیال ہے کہ کتابوں اور خاص کر  کتابوں کے افراط زر کی وجہ سوشل میڈیا ہے۔ ہر کسی کو کچھ نہ کچھ لکھنا ہے چاہے وہ قارئین کو پلے پڑے یا نہ پڑے۔ لہذا لکھنے والوں کی مجموعی تعداد پڑھنے والوں سے تجاوز کر چکی ہے۔ چونکہ ردی کا بھاؤ آج کل دس روپے کلو ہے، لہذا کتاب چھاپنا عقلمندی کا کام نہیں، اس لئے e-book فیشن میں ہے۔ یوں بھی pdf بنانے کو کوئی تخلیقی کاوش درکار نہیں ہوتی ،ویسے ہی جیسے آج کل لکھنے میں تخلیق کا کوئی “حمل دخل” نہیں رہا۔

میں مصنفین کے اس بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنا نہیں چاہتا۔ بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ اگر “ادیب” بچہ جننے سے پہلے تھوڑی بہت ٹریننگ لے لیں تو حرج نہیں۔ یہاں میں ہدایت نامہ پیش کرنے کی جسارت چاہوں گا گو کہ میں خود ابھی تک “بانجھ” ہوں مگر کتابیں پڑھ کر خود کو “حاملہ” کرنے کی کوشش میں عمر گزری ہے۔

ادب کو دو حصوں میں بانٹا جا سکتا ہے۔ تنقیدی اور تخلیقی۔ تخلیقی کام چونکہ مشکل ہوتا ہے اس لئے اس کا ذکر بعد میں کروں گا، پہلے تنقیدی حصے سےنمٹ لیں۔

تنقیدی ادب کا مصنف بننے کے لئے کسی خاص مشقت کی ضرورت نہیں صرف اردو میں ایم-اے ہونا کافی ہو سکتا ہے۔آپ کو یہ جان کر خوشی ہو گی کہ تنقیدی کتابوں کو صرف تنقید نگار ہی پڑھتے ہیں اور کوئی نہیں لہذا آپ کچھ بھی لکھ دیں کام چل جائے گا۔ تنقید نگار کا کام تخلیقی ادب میں نقص نکالنا ہوتا ہے اور نقص نکالنا اتنا مشکل کام نہیں جتنا سمجھا جاتا ہے۔ اگر آپ نے کسی عورت کو دال چنتے دیکھا ہو تو آپ کو معلوم ہو گا کہ وہ صاف ستھری دال میں سے بھی ادھر ادھر کرتے ہوئے کنکر نکال ہی لیتی ہے۔

تخلیقی ادب کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ شعری اور نثری۔ شعری ادب تین قسم کا ہوتا ہے۔ پابند شاعری، آزاد نظم، نثری نظم

پابند شاعری: اگر آپ شاعر بننے پر تل ہی گئے ہیں تو پابند شاعری کیجیئے۔ مشکل اس میں صرف یہ ہے کہ وزن کا خیال رکھنا پڑتا ہے اور اس میں گڑبڑ ہونے کا اندیشہ رہتا ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ جب وزن دکاندار کے ترازو سے غائب ہو گیا تو شاعری میں پابندی کیوں ؟۔ اس شاعری میں آسانی یہ ہے کہ سارا سامان ریڈی میڈ مل جاتا ہے۔ ردیف قافیے تیار مل جاتے ہیں۔ معشوق کے جسم کے کون کون سے پرزے حسین ہیں، وصل میں مزا کیوں ہے اور ہجر میں تکلیف کیوں۔ یہ سارے فیصلے اساتذہ بہت پہلے کر چکے ہیں آپ نے بس سامان کو آگے پیچھے یا اوپر نیچے کرنا ہے۔ نہ سمجھے ہوں تو کسی عورت سے پوچھیے کہ پرانی ساڑھی سے غرارہ کیسے بنایا جاتا ہے یا کرتے سے بلاوز کیسے نکلتا ہے۔

آزاد نظم : شروع شروع میں آزاد نظم اسے کہتے تھے جس میں ردیف قافیے یا وزن کی قید نہ ہو، آج کل اسے کہتے ہیں جو سمجھ میں نہ آئے۔ شاعری میں پیچ و خم اتنے زیادہ ہوں کہ پڑھنے والے کا پورا دماغ ان میں الجھ کر رہ جائے اور آخری سطر پر پہنچنے تک اوپر والا سارا مدعا ذہن سے نکل گیا ہو۔ آپ آزاد نظم بالکل آزاد ہو کر لکھیں کوئی سرپھرا اس سے کچھ نہ کچھ مطلب نکال ہی لے گا۔

نثری نظم: شاعری کی یہ صنف آج تک مجھے خود سمجھ نہ آئی، آپ کو کیا سمجھاؤں گا۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی چیز نثر ہے تو نظم نہیں اور اگر نظم ہے تو نثر نہیں۔ آخر تھک ہار کر خود کو سمجھایا کہ اگر کوئی باپ اپنے ناخلف اور الو کے پٹھے بچے کو “فرزند ارجمند” کہنے پر تل جائے تو کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے۔

نثری ادب کی سب سے اہم صنف افسانہ ہے۔ کسی زمانے میں افسانے کا مطلب کہانی ہوتا تھا۔ وہی کہانی جو نانی یا دادی سنایا کرتی تھی۔ آج کل افسانہ حساب کا سوال ہوتا ہے جسے حل کرنے کے لئے فارمولے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مصنف کو آسانی یہ ہے کہ اسے بس سوال لکھ دینا ہے اس کا جواب کیا ہے یہ مصنف کو بھی نہیں معلوم ہوتا۔ وہ فارمولا بھی نہیں جانتا جس سے وہ حل کیا جا سکے۔ مثال کے طور پر مولی کا افسانے میں مطلب عورت بھی ہو سکتا ہے اور سبزی بھی۔

مزاح نگاری: ویسے تو مزاح نگار بننا کوئی مشکل کام نہیں کیونکہ ہمارے سیاسی رہنما اور سرکاری ملازم آئے دن اپنے اوپر ہنسنے کے بے شمار مواقع پہنچاتے رہتے ہیں۔ بس آپ نے ان زندہ لطیفوں کو نثر میں ڈھالنا ہے اور مضمون تیار سمجھیں۔

سفرنامہ: یوں تو اس کو لکھنے کے لئے کم سے کم ایک سفر کرنا اشد ضروری ہے مگر آج کل کئی مصنف اسے گھر بیٹھے بھی اپنی تصوراتی مشق کے زور پر لکھ رہے ہیں۔ آپ چاہیں تو گھر بیٹھے بھی اسے تخلیق کر سکتے ہیں۔ بس جگہوں کے نام اور جغرافیہ ایک بار دیکھ لیجیئے گا یہ نہ ہو کہ جاپان اور جرمنی کی سرحدیں ملا دیں یا سکردو سے نکل کر سیدھا ہنزہ پہنچ جائیں۔

ناول نگاری: یہ نثر نگاری کی مشکل ترین صنف ہے مگر آجکل اگر آپ کے پاس تھوڑا سا بھی دماغ ہے تو تین چار کہانیوں کو گھوٹ کر یکجا کر لیں اور جا بجا مذہب کا تڑکا لگا کر لکھتے جائیں۔ جہاں مذہب کا سہارا لینا ناممکن ہو وہاں جذبہ حب الوطنی سے کام چلایا جا سکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ناول کا اختتام تمام کرداروں کے انجام کے ساتھ ہو آپ اسے “اوپن اینڈ” بھی چھوڑ سکتے ہیں کیونکہ مجھے پتا ہے آپ کے پاس سے خود کہانی کا انجام نہیں نکل سکتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بس لکھیں، لکھیں اور لکھیں۔۔۔ ادب کو تختہ مشق بنائے  رکھیں۔ چنداں شرمانے یا گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ آج کل قارئین بھی ایسے ہیں جیسے مصنف۔ آئیے صدق دل سے اردو ادب کی خدمت میں مشغول ہو جائیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply