سُنی سنائی۔۔مرزا یاسین بیگ

دو رحمانوں اور وبا پر منافع نے حکومت کو پریشان کردیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رویت  ہلال کمیٹی والے مفتی منیب الرحمان اور جنگ کے ساتھ جیو کی لوح رکھنے والےمیر شکیل الرحمان اس وقت حکومت کے لیے پریشانی کا باعث بنے ہوئے  ہیں ۔ مفتی صاحب سے پریشانی ان کے کُھلا پھرنے کی وجہ سے ہے، اور میرِ جنگ سے پریشانی انہیں جیل میں بند کرنے کی وجہ سے ہے ۔

خود عمران خان اس لۓ پریشان ہیں کہ وہ وزیراعظم بن گۓ ہیں اور ہر کوئی  انہیں کہہ رہا ہے کرونا کرونا ۔کچھ کرونا مگر ان کا تجربہ صرف چندے اور مس یا مسزچندا جمع کرنے تک ہے ۔ اب کرونا کو بنیاد بناکر وہ چاہتے ہیں کہ رمضان المبارک کی تمام مالی سعادتیں وہی جمع کرلیں جبکہ مولوی و مفتی اڑے ہوۓ ہیں کہ مساجد اور فطرانے نذرانے اور شکرانے کے بکس کھلے رہیں گے ۔ اس لۓ آج کل پاکستان میں جانیں اور حکومت جانے کا حقیقی خطرہ منڈلا رہا ہے۔ اس بار رمضان میں شیطان بھی بند ہوتا ہے یا نہیں اس پر بھی مسلمان اتنے ہی شک و شبہے میں مبتلا ہیں جتنا شک و شبہ انھیں کرونا کی اصلیت پر ہے۔

ابھی دو ماہ پہلے تک پاکستان میں جتنے بھی کیسز آرہے تھے وہ نیب کے کیسز ہوتے تھے اور اب کرونا کے کیسز ہیں ۔ نیب کے اختیارات کرونا وائرس نے چھین لۓ ہیں اور وہ بھی نیب کی طرح اندھادھند جسے چاہے اسے نشانہ بنارہا ہے ۔

کرونا سے نمٹنے کیلۓ پوری دنیا کی طرح ہماری حکومت نے بھی لاک ڈاؤن کا فرمان جاری کیا مگر نافرمان عوام نے ایک نہ سنی ۔ سڑکوں پر کاروں اور ٹی وی چینلز پر تجزیہ کاروں کی پہلے جیسی ہی چہل پہل ہے ۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں حقیقتاً ایک دن کیلئے بھی لاک ڈاؤن نہیں ہوا، ہماری شیردل عوام نے کبھی بھی لاک ڈاؤن کو دل سے نہیں مانا، لاک ڈاؤن میں حکومت نہیں عوام ناکام ہوئی جو گھروں میں رہنے کو تیار نہیں ہے۔ ہم پاکستانی دلوں اور رشتوں میں تو ہمیشہ فاصلہ رکھتے ہیں مگر سماجی فاصلہ رکھنا ہمارے بس کی بات نہیں۔

ادھر امریکہ نے جس طرح ڈبلیو ایچ او پر کورونا وائرس سے نمٹنے میں ناکامی کا ملبہ ڈالا ہے اس پر چین اور روس بہت غصے میں ہیں ۔ یہ غصہ اتنا ہی زیادہ دکھائی  دے رہا ہے جتنا کہ آج کل گھر میں بیٹھے شوہروں اور بیویوں کو ایک دوسرے پہ آرہا ہے ۔ آج کئی  گھروں سے یہ خبر آئی ہے کہ کچن کے آدھے برتن ٹوٹ چکے ہیں اور سالن و بچے جلے بھنے بیٹھے ہیں ۔ مجھے بھی اپنے کچن سے کچھ جلنے کی بو آرہی ہے۔ اس لۓ انور شعور کے اس قطعہ کے ساتھ آج کی سنی سنائی  ختم کرتا ہوں کہ

Advertisements
julia rana solicitors

وبا میں بھی منافع کی ہوس پر
کسی کو کیا بھلا شرم آرہی ہے
خریداری ہے بازاروں میں کم کم
مگر مہنگائی بڑھتی جارہی ہے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply