ٹرمپ کی حماقت آمیز تقریر۔۔۔عبدالباری عطوان

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر کے بارے میں دو بنیادی نکتے یہ ہیں: ایک ان کی تقریر کا اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی تقریر سے مکمل ہم آہنگ ہونا اور دوسرا ایران کے خلاف جنگ کی آگ شعلہ ور کرنے کی کوشش۔ امریکی صدر نے اپنی تقریر میں یہ دعوی کیا کہ ایرانی حکومت ایک سرکش اور ڈکٹیٹر رژیم ہے جو شدت پسندی کو ترویج دے رہی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے متعلق اہم فیصلہ کر چکے ہیں لیکن فی الحال اسے منظرعام پر نہیں لائیں گے۔

جنرل اسمبلی میں امریکی صدر کی تقریر کے تناظر میں کئی سیاسی ماہرین یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیلی لابی کے سامنے سرتسلیم خم کرتے نظر آ رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ وہ ایران سے کئے گئے جوہری معاہدے سے پیچھے ہٹ جائیں۔ امریکی صدر نے اپنی تقریر میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو امریکی تاریخ کا بدترین معاہدہ قرار دیا ہے۔ دوسری طرف امریکہ کی جانب سے ایران سے جوہری معاہدہ ختم کئے جانے کی صورت میں یہ امکان پایا جاتا ہے کہ ایران اپنی جوہری سرگرمیاں دوبارہ شروع کر دے جن میں وسیع حد تک یورینیم کی افزودگی بھی شامل ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے بھی تقریر کی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم کی تقریر امریکی صدر کی تقریر سے کچھ گھنٹے قبل انجام پائی ہے۔ اپنی تقریر میں بنجمن نیتن یاہو نے امریکہ پر زور دیا کہ وہ ایران سے انجام پانے والے جوہری معاہدے کو ختم کر دے۔ دوسری طرف اسرائیل کے چیف آف آرمی سٹاف نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ ایران پر فوجی حملے کی مکمل منصوبہ بندی کر چکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایران کی حمایت یافتہ تنظیم حزب اللہ لبنان اسرائیل کیلئے پریشان کن حد تک خطرناک ہے۔ اسرائیل کے چیف آف آرمی سٹاف کا بیان اتفاقی نہیں بلکہ اقوام متحدہ میں اسرائیلی وزیراعظم کی تقریر سے ہم آہنگی رکھتا ہے۔

ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کئے گئے موقف کی اسرائیل کے علاوہ کوئی بھی حمایت نہیں کرے گا۔ حتی یورپی ممالک اس بارے میں امریکی صدر کی مخالفت کر رہے ہیں۔ فرانسوی صدر نے امریکہ سے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی پابندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاہدے کو توڑنا بہت بڑی سیاسی غلطی ثابت ہو گی۔ اسی طرح روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے بھی ایران سے جوہری معاہدے کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے موقف پر پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے تمام ممالک پر اس معاہدے کی پابندی کا زور دیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ جنرل اسمبلی میں ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر اسرائیلی ڈکٹیشن تھی اور اس کا مقصد امریکہ اور دنیا کو ایک اور تباہ کن جنگ میں دھکیلنا ہے۔ یہ جنگ خاص طور پر مشرق وسطی میں شروع کی جا سکتی ہے۔ آغاز کی صورت میں اس جنگ کی سب سے بڑی قربانی مسلمان اور عرب باشندے ہوں گے۔ البتہ جن ممالک میں امریکہ کے فوجی اڈے قائم ہیں وہاں زیادہ جانی نقصان کا خطرہ پایا جاتا ہے۔

ایران ہر گز امریکہ کی جانب سے جامع جوہری معاہدے کی خلاف ورزی پر خاموش نہیں بیٹھے گا کیونکہ اس معاہدے کیلئے ایران نے 5+1 گروپ سے پانچ سال مذاکرات کئے ہیں۔ لہذا ایرانی صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں ایران تمام آپشنز پر غور کرے گا جن میں فوری طور پر معطل شدہ جوہری سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنا بھی شامل ہے۔ اسی طرح سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے سربراہ جنرل محمد علی جعفری نے امریکہ کو خبردار کیا ہے کہ ایران پر دہشت گردی، شدت پسندی اور انتشار پھیلانے کی حمایت جیسے بے جا الزامات کا دردناک جواب دیا جائے گا۔

اہم نکتہ یہ ہے کہ شام اور پورے مشرق وسطی خطے میں اپنے منصوبوں کی مکمل ناکامی نیز شمالی کوریا کی جانب سے جدید میزائل تجربات اور انتہائی ترقی یافتہ جوہری ہتھیاروں کے تجربات کے باعث درپیش چیلنجز کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر مشرق وسطی کا رخ کیا ہے اور اس خطے میں بڑی جنگ شروع کرنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو پورا یقین ہے کہ اس نئی جنگ کے تمام اخراجات خام تیل کی دولت سے مالامال خلیجی عرب ریاستیں ادا کریں گی جبکہ امریکی عوام کو بھی اس جنگ کے نتیجے میں کوئی نقصان پہنچنے کا خطرہ موجود نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس نئی جنگ کے آغاز میں بنیادی کردار اسرائیلی حکام ادا کر رہے ہیں۔ انہیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ خطے میں کسی بھی نئی جنگ کے آغاز کی صورت میں اس کے شعلے انہیں بھی اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایران، شام اور جنوبی لبنان میں سینکڑوں میزائل اسرائیلی شہروں اور شہریوں کو نشانہ بنانے کیلئے تیار کھڑے ہیں۔ دوسری طرف اگر خطے میں کوئی نئی جنگ شروع ہوتی ہے تو بے شک یہ خطے کی سب سے بڑی، فیصلہ کن اور آخری جنگ ثابت ہو گی۔ امریکہ تو جنگ کے آغاز کی صورت میں اپنی فوجیں اور جنگی کشتیاں فوری طور پر خطے سے خارج کر سکتا ہے لیکن کیا اسرائیلی حکام نے یہ سوچا ہے کہ وہ بھاگ کر کہاں جائیں گے؟ کیا وہ سب بھاگ کر امریکہ چلے جائیں گے؟لہٰذا اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مکمل طور پر اسرائیلی لابی کے ہاتھ میں کھلونا بن چکے ہیں اور اس طرح وہ آگ سے کھیل رہے ہیں۔ وہ جو آگ خطے میں لگانا چاہتے ہیں ممکن ہے اس میں لاکھوں بیگناہ انسانوں کی جانیں ضائع ہو جائیں۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply