ڈوگز ریسٹورنٹ ۔۔ربیعہ سلیم مرزا

دوپہر کا وقت تھا موڈی نامی کتا پینٹ شرٹ پہنے، سیٹی پہ اپنی پسند یدہ دھن بجاتا ریسٹورنٹ کے اندر داخل ہوا۔
Bum bum boo, bum bum boo
Every tension on my. Shoe۔
Bum. Bum. Boo, bum bum. Boo

If. You feel any tension,
Then, i. Give u. A. Mention.
Bum bum. Boo, bum. Bum. Boo.

Keep two. Hands, on your eyes.
Give. A. Sweet. ,glowy smile.

And say!

Bum bum boo, bum. Bum boo.
Every. tention. On my shoe.
Bum bum boo, bum bum boo

ریسٹورنٹ کی ویٹرس سونی جو ایک اسمارٹ کتیا تھی وہ موڈی کو دیکھتے ہی مسکرادی..
“ہیلو سونی ! کیسی ہو، آج کھانے میں کیا ہے؟ آج تو کافی رش ہے۔ ” موڈی اسے دیکھتے ہی خوش ہوکر پوچھنےلگا۔
“زنگر برگر اور کوک “سونی نے اٹھلا کر مینو بتایا
پانچ منٹ بعد ہی دوسری ویٹرس مونی نے اس کے سامنے کھا نا لا کے رکھ دیا ۔۔
موڈی ایک اعلیٰ نسل کا فل سائز کتا تھا۔ وہ انسانوں سے بھی بات کر سکتا تھا ۔
موڈی کی یہ خوبی پروردگار کا تحفہ تھی ۔..

اس نے اس کا بہترین فائدہ اٹھایا اور یہ ریسٹورنٹ اس نے سڑک پر پھرتے آوارہ کتوں کی بحالی کیلئے قائم کیا تھا ۔ یہاں پر تمام کتوں اور ان کی فیملیز کو تین ٹائم فری کھانا فراہم کیا جاتا ۔ اس کیلئے شہر کے امیر اور نرم دل حضرات ان کی مدد کرتے اور کھانے پینے کی اشیاء انھیں خیرات کر دی جاتیں ۔ اس کے لیے موڈی کو بذاتِ خود جا کر مخیّر حضرات سے اکیلے کمرے میں ،رو برو بیٹھ کر بات کرنی پڑتی ۔

پہلے پہل تو لوگ ایک کتے کو کپڑے پہنے اور باتیں کرتے دیکھ کر حیران ہوتے ۔ پھر اس کی سماجی خدمات دیکھ کر بہت متاثر ہوتے ۔ بہرحال موڈی کا ریسٹورنٹ چل رہا تھا ۔ سونی اور مونی وہاں کی کرتا دھرتا تھیں ۔

ہال میں دھیما دھیما میوزک چل رہا تھا ۔ کچھ فیملیز ابھی بھی کھانا کھا رہی تھیں ۔مونی انہیں بھی کھانا پیش کر رہی تھی ۔ ریسٹورنٹ میں ایک وقت میں ایک ہی ڈش بنتی تاکہ پیسوں اور کھانے کا ضیاع نہ ہو ۔

” موڈی، آپ Honey And Bee Factory میں گئے تھے، نئے ڈونر سے ملاقات کیسی رہی؟ “، سونی نے پاس آکر پوچھا۔
“بس مناسب ہی رہی “۔موڈی کچھ اداس ہو گئے ۔” ان کا کہنا تھا کہ یہاں انسانوں کا کھانا پورا نہیں پڑ رہا تو کتوں کے لئے ہم کیا کریں ؟ پھر بھی انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ کریں گے “۔
اچانک دیوار پر لگی سکرین پر خبریں دکھائی دینے لگیں ۔رات کو ایک ڈوگ فیملی، بمعہ دو بچوں کے ،سڑک پار کرتے بس کے نیچے کچلے گئے ۔کوئی بھی بچ نہ سکا ۔
تمام ہال میں خاموشی چھا گئی اچانک مونی بولی۔
” موڈی! آپ کسی ڈونر سے بات کیوں نہیں کرتے کہ وہ کتوں کی رہائش کا بھی انتظام کریں ۔ اگر ریسٹورنٹ بن سکتا ہے تو ان کے لئے چھوٹے چھوٹے گھر بھی تو بنائے سکتے ہیں ۔
موڈی سوچ میں پڑ گئے، “کسی سے بات کر کے دیکھتا ہوں “دو دن بعد ہی honey and the bee کمپنی سے فون آ گیا۔مسٹر موڈی جلدی سے تیار ہو کر وہاں پہنچے ۔
فیکٹری کے مالک نے راشن کی فراہمی کی ہامی بھرلی تھی تو موڈی بولے، ”
” سر،آپ درختوں سے شہد اتارنے کا کام کرتے ہیں ۔اگر کچھ لکڑی مل جاتی تو ہم کتوں کے لئے گھر بنا لیتے۔ہمیں کہیں نہ کہیں سے کھانا تو مل ہی جاتا ہے مگر رہنے کی جگہ نہیں ۔ہمارا تو واش روم بھی سڑکوں پر ہوتا ہے۔جس سے لوگوں کو اور ہمیں پرابلم ہوتی ہے،اور اکثر ہم گاڑیوں کے نیچے آکر مارے جاتے ہیں ۔کوئی ہمیں اٹھا کر ہاسپٹل نہیں لے جاتا۔ ہمارے بھی چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ۔ ہر شہر میں ہمارے لئے ہسپتال ہونے چاہئیں ۔آوارہ گردی اور بیروزگاری کے باعث کئی کتے پاگل ہو کر لوگوں کو کاٹ لیتے ہیں ۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

فیکٹری مالک نے مدد کرنے کا وعدہ کیا اور کچھ دن بعد کچھ کارپینٹرز کو ڈوگز ریسٹورنٹ بھیجا کہ وہ ریسٹورنٹ کے ساتھ ملحقہ زمین پہ کچھ گھر تعمیر کریں ۔ ہر فیملی کے لئے ایک گھر بنے گا ۔تمام کتوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور وہ مسٹر موڈی کے لئے نعرے لگاتے رہے ۔
مسٹر موڈی خوش ہو کر گانے لگے۔
Bum bum boo, Bum bum boo
Every tention, on my shoe.

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply