• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کیا جمہوریت انتخابات جیتنے والوں کی آمریت کا نام ہے؟۔۔آصف محمود

کیا جمہوریت انتخابات جیتنے والوں کی آمریت کا نام ہے؟۔۔آصف محمود

جمہوریت کے فضائل پر تو بہت بات ہوتی ہے، کیا کبھی ہم نے سوچا کہ جمہوریت ہوتی کیا ہے؟ کیا یہ انتخاب میں کامیابی حاصل کرنے والی جماعت کی آمریت کا نام ہے؟ انتخابات ہوئے ، میدان سجا اور پھرایک جماعت کسی بھی طور کامیاب ہو گئی، کیا اب جمہوریت یہ ہو گی کہ جیتنے والا گروہ اپنی آمریت کا نقارہ بجا دے؟پاکستان میں جمہوریت کا دورانیہ مختصر رہا۔یہ یوں ہی آتی رہی ،مقطع میں جیسے کبھی کبھار سخن گسترانہ بات آ جائے۔انتخابات کا نتیجہ سامنے آتا ہے اور ایک گروہ کامیاب ہوتا ہے۔ کارکنان جشن فتح منا کر گھر لوٹتے ہیں تو ’’ فعل ماضی مطلق مجہول‘‘ بن چکے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد اکثریتی گروہ کی اشرافیہ اپنی آمریت قائم کر لیتی ہے ۔باقی کے ایام یہ اشرافیہ اپنے لعل لب پر پان کا لاکھا جماتے گزار دیتی ہے اور ان کے حصے کے سینیئر تجزیہ کار تیغِ ابروئے یار کے قصیدے پڑھتے رہتے ہیں۔ بھٹوکو ان کی موت نے مظلوم بنا دیا ورنہ وہ ہماری تاریخ کے بد ترین جمہوری آمر تھے۔بھٹو اگر اندرون سندھ میں آج بھی زندہ ہے تو اس کا کریڈٹ ضیاء الحق اور مولوی مشتاق کو جاتا ہے ۔ کہانی میں یہ کردار نہ ہوتے تو بھٹو کب کا مر گیا ہوتا۔ سیاسی مخالفین پر جو ظلم بھٹو نے کیے ، ہماری جمہوری تاریخ کا ایک افسوسناک باب ہے۔آج ان کا کہیں تذکرہ نہیں تو اس کی وجوہات اور ہیں۔ بھٹو صاحب نے سیاسی آمریت اور فسطائیت میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی نہیں۔ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کا طریق عمل مختلف تھا مگر یہ بھی جب جب بر سر اقتدار آئے ، عملا ایک اکثریتی گروہ کی آمریت قائم کر دی گئی۔ آمریت صرف یہ نہیں ہوتی کہ سیاسی مخالفین کو اٹھا کر جیلوں میں ڈال دیا جائے ، سیاسی مخالفیں کا پارلیمانی واردات کے ذریعے ناطقہ بند کر دینا بھی سیاسی آمریت ہی ہوتی ہے۔ نواز شریف یہ یہ دونوں کام کیے ۔ یہ انہی کا دور تھا جب احتساب بیورو کے نام سے سیاسی مخالفین کی زندگی جہنم بنا دی گئی۔سیف الرحمن نامی اس کردار کو ، کون بھول سکتا ہے جس کا بنیادی کام ہی سیاسی مخالفین پر سچ جھوٹ کی تمیز کے بغیر مقدمات قائم کرنا تھے۔ عمران خان اقتدار میں آئے تو امید تھی کہ نئی روایات جنم لیں گی لیکن افسوس ایسا نہیں ہو سکا۔ احتساب میں وارفتگی تو ہے ہی ، رویوں میں بھی ایسی تندی ہے جو چیخ چیخ کر اعلان کر رہی ہے کہ کسی سیاسی حریف کا وجود ہمیں برداشت نہیں۔ ان رویوں نے اس سوال کو گویا ایک بار پھر جنم دے دیا ہے کہ جمہوریت کیا ہے ؟ کیا یہ انتخابات جیتنے والے کسی گروہ کی آمریت کا نام ہے؟ عمران خان کو اقتدار ملا اور انہوں نے بلدیاتی ادارے معطل کر دیے۔ کیا یہ ایک جمہوری رویہ تھا؟جیسے عمران خان ووٹ کے ذریعے بر سر اقتدار آئے تھے ایسے ہی یہ بلدیاتی ادارے بھی عوام کے ووٹ کے ذریعے قائم ہوئے تھے۔جس طرح عمران خان کی حکومت آئینی طریقے سے بنائی گئی اسی طرح یہ بلدیاتی ادارے بھی آئین کے تحت قائم ہوئے تھے۔ آئین پاکستان کا آرٹیکل 32 اور آرٹیکل 140 اے بلدیاتی اداروں کے جواز اور تحفظ کے ضامن ہیں۔لیکن یہ ادارے معطل کر دیے۔کیوں؟ کیا اس لیے کہ یہاں حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے لوگ جیت کر آئے ہوئے تھے اور ان کا وجود برداشت نہیں ہو رہا تھا؟سپریم کورٹ حکومت کو متنبہ کر چکی ہے کہ اس کا رویہ آرٹیکل 140 سے متصادم ہے لیکن حکومت کو پرواہ نہیں۔ آج کرونا کا بحران سامنے آیا ہے تو کسی کو معلوم ہی نہیں کس حلقے میں کون کون ضرورت مند ہے۔ مقامی حکومتیں موجود ہوتیں تو گلی گلی تک رسائی ممکن تھی۔ یہ پورا بندوبست معطل پڑا ہے اور اسے بحال کرنے کی بجائے کرونا ٹائیگر فورس بنائی جا رہی ہے۔اسلام آباد میں بھی ایک مقامی حکومت موجود تھی۔ وہ بھی برداشت نہ ہو سکی۔ میئر اسلام آباد کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم نے بچا لیا ورنہ وہ بھی قصہ ماضی ہو چکے ہوتے۔سی ڈی اے اسلام آباد کا ترقیاتی ادارہ ہے لیکن میئر اسلام آباد کا اس پر کوئی اختیار نہیں۔ ڈپٹی میئر اسلام آباد روز چیخ رہے ہوتے ہیں کہ اسلام آباد میں فلاں فلاں علاقے میں کرونا کے حوالے سے اقدامات ناگزیر ہیں لیکن وہ بے بس ہیں اور اسلام آباد کا بادشاہ یہاںکا ڈپٹی کمشنر ہے جس نے ٹوئٹر پر اپنی قابلیت کے گھوڑے دوڑا رکھے ہیں۔ گذشتہ ماہ مسلم لیگ کے چھ اور پیپلز پارٹی کے ایک ایم پی اے نے وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار صاحب سے ملاقات کی۔اس ملاقات پر جب طوفان اٹھا تو مسلم لیگ ن کے نشاط ڈاہا صاحب نے کہا کہ ہم کیا کریں ہم نے حلقے میں کام کروانے ہیں ، لوگوں کا کیا قصور ہے ۔ یہ گویا اس سیاسی روایت کا اعلان تھا کہ ترقیاتی فنڈ اسی کو ملیں گے جو حاکم وقت کے بارگاہ میں نیک چلنی کی یقین دہانی کے ساتھ حاضر ہو گا۔ ترقیاتی فنڈز سے ایم پی ایز کا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے ، یہ بلدیاتی اداروں کا کام ہے۔لیکن اگر بلدیاتی ادارے معطل کر کے یہ فنڈز اراکین اسمبلی ہی کو جاری کیے جا رہے ہیں تو پھر سوال یہ کہ صرف حکومتی اراکین ہی کو کیوں؟ کیا صرف حکومتی اراکین عوام کی نمائندگی کرتے ہیں؟ کیا حزب اختلاف کو ایک صف میں کھڑا کر کے آگ لگا دینی چاہیے؟ یہ معاملہ صرف عمران خان کے دور میں سامنے نہیں آیا۔ کم و بیش ہر دور میں یہ روایت رہی ہے کہ ترقیاتی فنڈ صرف حکومتی گروہ اور اس کے حلیفوں میں تقسیم کیے جاتے ہیں۔یعنی ان حلقوں کے عوام کو سزا دی جاتی ہے جنہوں نے دوسری جماعت کو ووٹ دینے کی گستاخی کی تھی۔نواز شریف دور میں تو اس واردات کو اپنے کمال پر پہنچایا گیا۔ سوال یہ ہے کیا یہ ایک جمہوری رویہ ہے؟ یہ جمہوریت ہے یا انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے گروہوں کی آمریت ہم پر مسلط ہورہی ہے؟ قائد حزب اختلاف بھی عوام کے ووٹ سے آتا ہے۔ لیکن نواز شریف کے دور سے لے کر اب تک ،کیا یہاں کبھی کسی حکمران نے قائد حزب اختلاف کو تسلیم کیا؟ کسی نے اسے جیل میں ڈالا تو کسی کو اس سے بات کرنا گوارا نہیں۔کیا آپ اس رویے کو جمہوریت کہیں گے؟کیا ہماری جمہوریت کی حقیقت بس اتنی سی ہے کہ ہر پانچ سال بعد ایک گروہ انتخابات جیت کر اپنی آمریت کا نقارہ بجا دے؟

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply