دانتے کی ڈیوائن کامیڈی۔۔جمال خان

دانتے کی شہرہ آفاق بے مثل شاہکار ،” ڈیوائن کامیڈی کے بارے میں محترم ستار طاہر ایک جگہ لکھتے ہیں کہ یہ ایک ایسی تصنیف ہے جو اپنے پڑھنے والوں سے خاصا ذوق،علم ،پس منظر اور تاریخ و دینیات کے بارے میں بھی بہت کچھ جاننے کا  مطالبہ کرتی ہے ۔جب تک پڑھنے والا بہت سی معلومات کا مالک نہ ہو اور بہت اچھا شعری ذوق نہ رکھتا ہو، وہ اس عظیم فن پارے سے پوری طرح مستفید نہیں ہوسکتا ۔بڑی شاعری کے مطالبے بھی یقیناً بڑے ہوتے ہیں ۔

یقیناً محترم ستار طاہر کی رائے سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا ۔۔مگر میں اس میں صرف اتنا اضافہ کروں گا کہ دانتے کی “ڈیوائن کامیڈی” کو پڑھنے کے لئے بہت حوصلہ اور ہمت چاہیے کہ کتاب میں جس طرح ” عذاب جہنم ” کے واقعات بیان کیے گئے ہیں انہیں پڑھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے ۔( ہوسکتا ہے کچھ قارئین نے ” پاکستان میں شائع ہونے والی ایک خوفناک کتاب “موت کا منظر مرنے کے بعد کیا ہوگا” پڑھی ہو۔۔۔ انہیں ڈیوائن کامیڈی میں ” عذاب جہنم ” کے بیان کیے گئے مناظر شاید اس کتاب سے بھی زیادہ خوفناک لگیں )۔

اس کتاب کا ایک خوبصورت ترجمہ ” طربیہ خداوندی “کے نام سے جناب عزیز احمد نے کیا تھا۔ جس کا لنک اس تحریر کے آخر میں دیا جارہا ہے ۔۔ قارئین اس “طربیہ خداوندی” میں دانتے کے حالات زندگی کے بارے میں بھی پڑھ سکتے ہیں ۔یہاں پر دانتے کی” ڈیوائن کامیڈی اور اسلام” پر جو سیر حاصل تبصرہ محترم ستار طاہر صاحب نے کیا تھا وہ اپنی جگہ ہمیں دعوت فکر دے رہا ہے ۔وہ لکھتے ہیں ۔
“ہمارے ہاں کے محققوں اور عالموں کو یہ توفیق نہیں حاصل ہوئی کہ وہ دانتے اور اس کے لازوال شاہکار ” ڈیوائن کامیڈی” پر اسلام کے گہرے اثرات کا سراغ لگاتے اور اس پر تحقیق کرتے ۔لیکن پچھلی آٹھ نو دہائیوں سے بعض یورپی مستشرقین نے اس پر شاندار اور قابل قدر کام کیا ہے ۔اس ضمن میں سب سے اہم کتاب پروفیسر ماگئیل آسین کی”اسلام اینڈ ڈیوائن کامیڈی ہے” ۔

پروفیسر کی تحقیق یہ ہے کہ دانتے نے ڈیوائن کامیڈی کے نفس مضمون اور اس کی بیشتر تفصیلات اسری اور معراج نبوی کی روائیتوں سے مستعار لی ہیں ۔” جہنم کا جو نقشہ دانتے نے کھینچا ہے وہ ابن عربی کی کتابوں میں بیان کیے گئے نقشے سے بہت ملتا جلتا ہے ۔

دانتے نے ڈیوائن کامیڈی میں جس شہر کا ذکر کیا ہے عیسائی تصورات میں اس سے پہلے اس کا کوئی سراغ نہیں ملتا، جب کہ اسلامی روایت میں ایک شہر آتشی کا ذکر موجود ہے اور دانتے نے اسی تصور سے استفادہ کیا۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب معراج پر گئے تو جبرائیل ان کے ہم رکاب تھے “ڈیوائن کامیڈی” میں دانتے ورجل کو اپنا رہنما بناتا ہے۔ لیکن جنت میں وہ بیاترچے کو اپنی رہنمائی کا فرض سونپتا ہے۔معراج نبوی میں ایک ایسا مرحلہ آتا ہے کہ جب جبرائیل ایک مقام پر مولانا روم کی زبان میں کہتے ہیں کہ “اس سے آگے میں جاؤ ں  تو میرے پر جل جائیں گے۔
اور اس کے بعد آپ ﷺ اکیلے ہی آگے بڑھتے ہیں ۔

ڈیوائن کامیڈی میں بھی دانتے بیاترچے کے ساتھ ایک ایسے مقام پر پہنچتا ہے جس سے آگے بیاترچے نہیں جاتی بلکہ دانتے کو اکیلے ہی جانا پڑتا ہے ۔پروفیسر آسین کی تحقیق یہ ہے کہ یہ مماثلت اتفاقیہ  نہیں بلکہ واقعہ معراج سے لی گئی ہے ۔

شیخ اکبر محی الدین ابنِ  عربی کی دو تصانیف کا بھی “ڈیوائن کامیڈی” پر گہرا اثر ہے ۔۔ایک تو الاسرالی مقام ا لاسرالی” اور دوسری کا نام ہے “فتوحات مکیہ”مختصر یہ کہ یقینی امر ہے کہ دانتے پر شیخ اکبر ابن عربی کا بے حد اثر ہے ۔

ابنِ  عربی بتاتے ہیں کہ شیطان کو یہ سزا دی گئی ہے کہ وہ برف میں جما ہوا گل رہا ہے ۔چونکہ وہ آتشی مخلوق ہے اس لئے اس کے لئے اس سے سخت سزا کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی ۔ڈیوائن کامیڈی کے جہنم میں دانتے بھی شیطان کو برف میں دھنسا اور گلتا ہوا دکھاتا ہے ۔

ڈیوائن کامیڈی ایک طویل نظم ہے جو تین حصوں پر مشتمل ہے ۔جہنم ،اعراف اور بہشت ۔۔
“دانتے کاجہنم کیا ہے “۔۔
دانتے مایوسی کے گرداب میں پھنسا ہے کہ اسے ورجل دکھائی دیتا ہے جو دانتے کی محبوبہ بیاترچے کی آرزو پر دانتے کی راہنمائی کے فرائض انجام دینے کے لئے دوسری دنیا سے آیا ہے اور یوں سفر شروع ہوتا ہے ۔

دانتے اور ورجل ایک بڑے دروازے کے سامنے پہنچے ۔دانتے نے اس دروازے پر لکھی ہوئی عبارت کو پڑھا ۔۔” مجھ سے گزر کر تم آہوں کے شہر میں داخل ہوگے۔ مجھ سے گزر کر تم ابدی دکھوں کے قریے میں پہنچو گے ۔مجھ سے گزر کر لوگ ہمیشہ کے لئے اپنا آپ کھو بیٹھتے ہیں ۔۔۔
” اے یہاں سے گزرنے والوں ! اپنی تمام امیدیں ترک کردو”
جہنم کا پہلا حصہ دریائے ایکرون کے نشیبی حصوں میں واقع تھا ۔اس حصے میں وہ فرشتے تھے جنہوں نے زمین پر جاکر اپنا اصلی مقام گنوا دیا تھا یا پھر وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی زندگیاں تشکیک کے عالم میں گزار دیں۔

انہوں نے خدا کا اقرار کیا نہ انکار ۔۔یہ ایک دوسرے سے مشابہت رکھنے والے بے رنگ لوگ تھے ۔گناہ اور ثواب کی رمق سے محروم ۔وہ ہاتھ باندھے ایک دوسرے کے قریب بیٹھے قابل فہم آوازیں نکال رہے تھے ۔۔ان کی آوازیں گہری ،دبیز تاریک ہوا کو داغدار کر رہی تھیں ۔اسی طرح دانتے ورجل کے ساتھ جہنم کے مختلف درجات تک سفر کرتا ہے اور لوگوں کو ان کے گناہوں کے عین مطابق دی جارہی سخت سزاؤں کا نظارہ کرتا ہے۔۔ اور ایک مرحلہ آتا ہے جب دانتے جہنم کے نظارے سے اوسان کھوچکا ہے ۔ ناامیدی مایوسی اور دکھ نے اس کے دل کو شکنجوں میں کس لیا تھا ۔۔مگر اس کا رہنما ورجل اسے دلاسہ دیتا ہوا اوپر لے جاتا ہے ۔اب وہ اس راستے پر گامزن ہیں جو اونچے آسمان اور ستاروں کی طرف جاتا ہے ۔ورجل اور دانتے جہنم سے باہر نکل آتے ہیں ۔جب دانتے اوپر پہنچ کر مہربان سورج کی کرنوں کو دیکھتا ہے تو اس کا دل امید سے جگمگا اٹھتا ہے ۔اب وہ اس راستے پر آگئے تھے جہاں ستارے چمک رہے تھے اور یہاں سے جنت کا علاقہ شروع ہوتا تھا۔ دانتے عیسائی تعلیمات سے عقیدت رکھتا تھا۔ اس کے عقیدے کے مطابق یہ وہ علاقہ ہے جہاں نیک عیسائی روحیں فرشتوں کے ساتھ مقدس گیت گنگناتی ہوئی آتی ہیں۔۔ اور پھر یہ راستہ طے کر کے جنت کی طرف چلی جاتی ہیں۔ بہشت کے دروازے پرجب ورجل اور دانتے پہنچتے ہیں تو دانتے دیکھتا ہے کہ دروازے پر بیاترچے کھڑی ہے۔ ورجل دانتے کو اس کے سپرد کرتا ہے اور اسے حکم دیتا ہے کہ وہ دانتے کو بہشت کی سیر کرائے۔ دانتے سارا سفر بیاترچے کے ساتھ کرتا ہے۔ اس سفر میں دانتے کا شعری معیار اپنے عروج پر ہے اور اس نے ہر لمحہ کو نہایت فخر سے بیان کیا ہے۔ جب اسے نورِخداوندی نظر آتا ہے اور وہ اسے دیکھتا ہے مگر۔۔دانتے اس مقام پر اپنی بے بسی کا اظہار کرتا ہے اور کہتا ہے باوجود بےحد کوشش کے وہ ان لمحات کو بیان کرنے سے بالکل قاصر ہے ۔۔

دانتے کی ڈیوائن کامیڈی کے حوالے سے جناب احمد عقیل روبی اپنی شہرہ آفاق کتاب” علم و دانش کے معمار” میں مزید لکھتے ہیں۔۔
ڈیوائن کامیڈی نے مغرب یورپ اور دنیا کی دیگر زبانوں کے ادب پر بہت گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ انگریزی شاعر چاسر اور خاص طور پر ملٹن اس کے بہت زیادہ زیر اثر رہے۔ ملٹن کی “پیراڈائز لاسٹ” پر ڈیوائن کامیڈی کے بہت گہرے اثرات نظر آتے ہیں ۔جہاں تک دانتے کی ڈیوائن کامیڈی کا تعلق ہے تو کچھ نقادوں کا خیال ہے کہ دانتے نے نظم کو لکھنے سے پہلے بھی خود بھی اثرات قبول کیے۔ ان کا خیال ہے کہ اس نظم کی تشکیل اور فکری گہرائی میں عربی اور اسلامی نظریات کا بہت دخل ہے۔1919میں سپین کے ایک سکالر نے جو کیھتولک پادری تھا۔ اس نے ڈیوائن کامیڈی میں اسلامی فلاسفی اور فکر کی نشاندہی کی اور کہا کہ دانتے نے جہنم کی تشکیل میں بہت سے واقعات اسرئی  اور معراج النبی کی روایتوں سے لیے ہیں ۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دانتے عربی زبان سے واقف تھا ۔اس کا جواب اس نے یہ دیا ہے کہ کتاب المعراج کا لاطینی ترجمہ ہوچکا ہے ممکن ہے اس کی کوئی کاپی دانتے کے ہاتھ لگ گئی ہو لیکن کچھ نقاد اس بات سے متفق نہیں ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

https://www.rekhta.org/ebooks/tarbiya-e-khuda-wandi-part-001-dante-ebooks/?lang=ur

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply