ہماری پولیس،ہمارا فخر۔۔قاضی شیراز احمد ایڈووکیٹ

جمہوریت پسند معاشروں میں پولیس کا کردار بڑی اہمیت کا حامل ہے۔پڑھے لکھے معاشروں اور ترقی یافتہ ممالک میں پولیس کے کردار اور پولیس کے اندر پروفیشنل اصلاحات کے لیے باقاعدہ کام کیا جاتا ہے۔پولیس کو پروفیشنل بنانے کے لیے ان کی تربیت پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔اور پولیس کو غیر سیاسی رکھا جاتا ہے تاکہ ضروت پڑنے پر پولیس افسران اور سپاہی معاشرتی امن و امان اور ملکی ترقی کے لیے ہر ممکن اقدامات کر سکیں۔ان کے راستے میں کوئی جماعت کوئی فرقہ اور سیاسی لیڈر یا سیاسی چمچہ نہ آئے۔بلکہ جب کوئی شہری خواہ وہ سیاسی ہو یا مذہبی جماعتوں کا اہلکار ہو خواہ لیڈر ہو یا عام شہری،صاحب حیثیت ہو یا غریب جب وہ قانون ہاتھ میں لے تو اس کے خلاف بلاامتیاز کارروائی عمل میں لائی جائے۔چونکہ ابھی وطن عزیز پاکستان کو بنے نصف صدی سے کچھ زائد عرصہ گزرا ہے اور ہم ابھی ترقی کی منازل کی جانب گامزن ہیں۔لہذا ہمیں ابھی ترقی پذیر ممالک کی صف میں داخلے کے لیے وقت درکار ہے۔اس طرح دیگر شعبوں کی طرح محکمہ پولیس بھی اصلاحات سے محروم ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں قانون توڑنے والے شہریوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی جاتی ہے مگر ہمارے ہاں ابھی تک اس طرح کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔مگر اب ہمارے پولیس افسران اور خصوصاً ٹریفک پولیس کے اندر یہ رحجان جنم لے رہا ہے کہ وہ بلا تفریق قانون توڑنے والے شہریوں کے خلاف کارروائی عمل میں لا رہے ہیں۔

جب سے ہماری پولیس میں پڑھے لکھے افسران اور سپاہی شامل ہو رہے ہیں ہماری پولیس بھی بہتری کی جانب جا رہی ہے۔خصوصاً  جب سے DPO صاحبان اور دیگر پڑھے لکھے افسران بھرتی ہورہے ہیں تب سے ہماری پولیس ایک ماڈل پولیس بنتی جارہی ہے۔DPO صاحبان اپنے اپنے اضلاع میں ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی بہترین اصلاحات اور کارکردگی دکھا رہے ہیں۔عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار اور درد دل رکھنے والے انسان دوست گھرانوں سے ہیں کیونکہ عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں۔
میں نہیں مانتا کاغذ پہ لکھے شجروں کو۔۔
بات کرنے سے قبیلے کا پتہ چلتا ہے۔

لوگوں کے مسائل کو سنتے ہیں اور مشاہدے میں بات آرہی ہے کہ SHO صاحبان کی نسبت مظلوم عوام DPO صاحبان کے سامنے پیش ہونے میں اور اپنے مسائل ان تک پہچانے میں زیادہ سہولت محسوس کرتے ہیں۔DPO صاحبان بھی سائلین کے مسائل اور ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کرنے میں اپنی پروفیشنل ذمہ داریاں بطریق احسن نبھا رہے ہیں۔جوکہ خوش آئند اور قابل تحسین ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

خصوصا ًکرونا وائرس کے دوران پولیس افسران اور سپاہیوں نے کمال جرات، بہادری اور انسانی ہمدردی کی مثال قائم کردی۔اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر شب و روز اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہیں۔عام عوام کے ساتھ اور خصوصاً بیواؤں،مسکینوں اور ضرورت مندوں کے ساتھ ان کا رویہ اور ان کی خدمات قابل تعریف ہیں۔غریبوں میں کھانا تقسیم کرنااور عوام کے اندر کرونا وائرس کے متعلق آگاہی مہم چلا کر پولیس نے عوام کے دل جیت لیے۔گوکہ یورپ ،برطانیہ اور ترک پولیس نے اس وبا کے دوران اپنے شہریوں کی حفاظت اور ان کی آگاہی میں کمال کر دکھایا۔مگر اس دوران ہماری پولیس نے بھی کمال کر دکھایا۔بوڑھی عورتوں اور بزرگ شہریوں کو کندھے پر اٹھا کر ان کی منازل تک پہچانا،غریبوں میں کھانا تقسیم کرنا یہ وہ انسان دوست عوامل تھے جن کی بدولت ہماری پولیس نے عوام کے دل جیت لیے۔یہ وہ آغاز ہے اور انسانی خدمت کا جذبہ ہے جو ایک مرتبہ پیدا ہو جائے تو خالق کائنات اس میں نکھار لاتا ہے۔اس طرح کی اصلاحات اور خدمات اگر ہماری پولیس اختیار کرتی رہے گی تو ایک وقت آئے گا ہماری فوج کی طرح ہماری پولیس کی بھی مثالیں دنیا میں دی جائیں گی۔میں سلام پیش کرتا ہوں ان تمام پولیس افسران اور سپاہیوں کو جنھوں نے اس مشکل وقت میں اپنی قیمتی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے عوام کی خدمت کو اپنا فرض عین سمجھا۔یہ قوم یہ عوام آپ کے احسان مند ہیں۔آپ کی بہادر ماؤں اور غیور گھرانوں کو ہمارا سلام۔۔۔آپ کے مقدس جذبوں اور عوامی خدمت کو ہر فرد کا سلام۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply