حب الوطنی کیوں ؟۔۔ ماسٹر محمد فہیم امتیاز

وطن سے محبت کے تین بڑے پہلو اسلامی، فطری، نظریاتی سامنے رکھوں گا۔

اسلامی حوالے سے ایک حدیثِ مشہور کوٹ کی جاتی ہے “حب الوطن من الایمان” اس کی سند مشہور(جس کے راوی ہر طبقے میں کم از کم تین ہوں اور متواتر کی تمام شرائط جمع ہوں) ہے۔

لیکن چونکہ مجھے اپنی بات کو زبردستی حوالہ جات لگا کر نہیں منوانا بلکہ قارئین کے سامنے حق بات رکھنا ہے تو میں اس حدیث کا حوالہ یہاں نہیں دوں گا صرف اس بنا پر کہ بعض محدثین کے نزدیک یہ روایت ضعیف ہے۔

ہمارے پاس وطن کی محبت پر دلالت کرتی اور بہت سی روایات موجود ہیں جن میں سے دو کا حوالہ دے رہا ہوں۔

ہجرت کے موقع  پر حضور رحمت للعالمین ﷺ  نے مکہ کو مخاطب کر کے فرمایا، اے مکہ! تو کتنا پاکیزہ اور میرا محبوب شہر ہے ،اگر میری قوم مجھے نہ نکالتی تو میں کہیں اور نہ رہتا۔حوالہ : سنن الترمذی 3926

مزید براں ہجرت کے بعد آپ ﷺ  نے دعا فرمائی کہ “اے اللہ! مدینہ کی محبت ہمارے دل میں مکہ کی محبت سے زیادہ کر دے”۔حوالہ: صحیح البخاری 5654

دوسرا پہلو فطری ہے۔ انسان جہاں پیدا ہوتا ہے، رہتا ہے جس مٹی سے انسان کا خمیر اٹھتا ہے، اس سے محبت ہونا فطری امر ہے اور یہ صرف انسان نہیں ہر چرند پرند کا ہے کہ ہر ہر ذی روح اپنے مسکن سے قدرتی محبت رکھتی ہے اور رکھنی بھی چاہیے۔

تیسرا پہلو نظریاتی ہے کہ آپکی محبت کے پیچھے کون سا نظریہ کارفرما ہے۔

جو کہ الحمدللہ پاکستانیوں کے پاس اتنا مضبوط لوجیکل اور خوبصورت نظریہ ہے ،جو وطن سے محبت پر ابھارتا کہ ہمیں حب الوطنی کے لیے اس کے بعد کسی دلیل کی ضرورت نہیں رہتی اور وہ نظریہ ہے پاکستان کی بنیاد “لا الہ الاللہ” ہم پاکستان سے محبت اس کی بنیاد لا الہ الااللہ کی نسبت سے بھی کرتے ہیں۔ دو قومی نظریہ پاکستان کے وجود کی سب سے بڑی وجہ ہے۔وطن عزیز پاکستان کلمہ طیبہ کی بنیاد پر بننے والا ایک نظریاتی ملک ہے، اس سے محبت حق پرستی کی علامت ہے۔۔

اچھا یہاں پر ایک اعتراض کیا جاتا ہے ،ایک مخصوص مذہبی طبقے کی طرف سے، کہ پاکستان سے محبت کو دین حق کی محبت کی نسبت  کیسے ہو گئی، کہ جی پاکستان میں کون سا کام اسلامی جمہوریہ والا ہو رہا ہے ۔۔یا یہاں اسلامی نظام، یا شریعت کا نفاذ، یہاں تو عوام ایسی ویسی، حکمران ایسے کرپٹ اور عیاش، یہ کسی بھی طرح سے اسلام پر گامزن نہیں، تو پھر آپ کیسے کہہ سکتے کہ اس سے محبت حق پرستی کی علامت، لا الہ الااللہ کی بنیاد، دو قومی نظریے سے ماخوذ  ہے ،وغیرہ وغیرہ۔

تو سنیے میرے بھائی۔۔

بہت بڑی مثال دے رہا ہوں، صرف سمجھانے کے لیے کسی قسم کی مماثلت ظاہر کرنا مقصود نہیں، نعوذباللہ کیونکہ کتاب اللہ کی مثل ممکن ہی نہیں۔۔۔۔کہ پاکستان جس بنیاد پر اور جس مقصد کے لیے بنا، اس میں وہ کام ہو رہا یا نہیں ، دونوں صورتوں میں پاکستان کی نظریاتی اہمیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

مثال سے سمجھیے۔۔

قرآن پاک کے نزول کا مقصد اس کے احکامات پر عمل کرنا تھا اور ہے،کہ اس کی تعلیمات کو مدنظر رکھ کر اس کے مطابق زندگی گزاری جا سکے۔

تو کیا آج سبھی مسلمان قرآن پاک کے مقصدِ  نزول کو سمجھ کر اسے پورا کر رہے ہیں ؟؟ کیا قرآن پاک جس کام (عمل) کے لیے نازل ہوا تھا وہ ہو رہا ہے ؟؟

یقیناًآپ کا جواب ہوگا نہیں!!

تو کیا اس چیز سے اس بے عملی سے نعوذباللہ ثم نعوذ باللہ کتاب اللہ کی شان نزول میں کوئی کمی آئی؟۔مسلمانوں کی طرف سے قرآن پاک کے نزول کا مقصد پورا نہ کیے جانے سے نعوذباللہ ثم نعوذ باللہ کیا قرآن پاک کی فضیلت میں رتی بھر بھی فرق پڑا؟ یا پڑ سکتا ہے؟۔

نہیں! بالکل بھی نہیں، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

اب سمجھنے کی  نیت سے  تقابلی انداز میں  دیکھیے۔

پاکستان کے قیام کا مقصد کھل کر اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنا تھا،اس مملکت خداداد پر اسلامی تعلیمات کا عملی نفاذ کر کے شریعت محمدی کے مطابق انفرادی و ریاستی معاملات چلانا تھا۔

جو اگر تو کیا جا رہا پھر تو بات ہی ختم۔۔ لیکن اگر نہیں بھی کیا جا رہا،تو کیا اس چیز سے پاکستان کے قیام کا مقصد ختم ہو گیا؟۔ پاکستان کی اہمیت ختم ہو گئی؟۔ کیا اس کی محبت سے دستبردار ہو لیا جائے کہ یہاں اسلام کا عملی نفاذ تو ہے ہی نہیں جس کے لیے بنا تھا۔

بالکل بھی نہیں۔

اس حوالے سے قرآن پاک کی مثال سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ جیسے مقصد پورا ہونے نہ ہونے سے شان نزول پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایسے ہی مقصد پورا ہونے یا نہ ہونے سے قیام پاکستان کی اہمیت میں کوئی کمی اور پاکستان کی محبت میں کوئی کمی واقع نہیں ہو سکتی۔

قرآن پاک کا نزول اس پر عمل کرنے کے لیے ہوا تھا اس کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے ہوا تھا، لیکن اگر مسلمان اس پر عمل پیرا نہیں تو اس کا فرق مسلمانوں پر ہے نعوذ باللہ قرآن پر نہیں،قرآن پاک کی فضیلت شان اسی طرح سے برقرار ہے اور تاقیامت برقرار رہے گی۔

تمام مسلمان قرآن مجید سے محبت کرتے ہیں، اس کا احترام کرتے ہیں، اور کرتے رہیں گے، کوئی بھی مسلمان قرآن پاک کی محبت سے نعوذباللہ اس لیے دستبردار نہیں ہو سکتا کہ اس پر عمل تو کیا نہیں جا رہا۔۔بلکہ ہر ہر مسلمان کے لیے فرض ہے کہ وہ اس کے احکامات پر عمل پیرا ہونے اور اس کی تعلیمات کے عملی نفاذ کی کوشش کرے۔

اسی طرح پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے اور رہے گا، چاہے آج کے دور کے مسلمان یہاں دین حق کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزار رہے ہوں یا نہیں، یہ افراد کی بشری کوتاہی ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کی محبت سے دستبرداری ممکن نہیں۔ بلکہ اس بشری کوتاہی کا حل یہ ہے کہ قیام پاکستان کے مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلامی قوانین کے مطابق اس کا نظام چلوانے کے لیے بساط بھر کوشش کی جائے،ناکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی عطاء کردہ اس نعمت کی ناشکری کی جائے جس میں آج آزادی سے سانس لے رہے ہیں۔

تین پہلو سامنے رکھے ہیں جو بڑے واضح انداز میں پاکستان سے محبت کو عین اسلامی،فطری اور نظریاتی ثابت کرتے ہیں،قارئین سے گزارش ہے کہ ایسے پاک وطن جس سے محبت سنت بھی، بقاء بھی، فطرت بھی  ہے ،اس سے محبت کیجیے اور ایسے کیجیے جیسے اس وطن عزیز کا ہم پر حق ہے،ہر ہر جگہ ہر ہر صورت میں اس پاک سر زمین کی عظمت و سربلندی اور استحکام کے لیے بساط بھر کوشش کرتے رہیے، ان شاءاللہ یہ پاکستان آج نہیں تو کل اسلام کا قلعہ ثابت ہوگا ہی ہوگا،اور اس وقت اس کو سپورٹ کرنے والے اس سے محبت کرنے والے فخر سے اس سبز پرچم کو لہلہاتے ہوئے دیکھ رہے ہوں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

پاکستان زندہ باد!

Facebook Comments

ماسٹر محمد فہیم امتیاز
پورا نام ماسٹر محمد فہیم امتیاز،،ماسٹر مارشل آرٹ کے جنون کا دیا ہوا ہے۔معروف سوشل میڈیا ایکٹوسٹ،سائبر ٹرینر،بلاگر اور ایک سائبر ٹیم سی ڈی سی کے کمانڈر ہیں،مطالعہ کا شوق بچپن سے،پرو اسلام،پرو پاکستان ہیں،مکالمہ سمیت بہت سی ویب سائٹس اور بلاگز کے مستقل لکھاری ہیں،اسلام و پاکستان کے لیے مسلسل علمی و قلمی اور ہر ممکن حد تک عملی جدوجہد بھی جاری رکھے ہوئے ہیں،

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply