اُلجھنوں میں رونقوں کے سجائے خواب۔۔خالد حسین مرزا

ابھی ابھی ایک کر دار  ذہن میں آیا ہے، وہ  کردار جو  لکھاری  بننے کے لیے اِتنا پاگل ہے کہ ایک دِن کیا ہوا،( جہانزیب ) ہوٹل سے ایسا نِکلا کہ کلچ بھی اب کی بار صحیح وقت پر دبایا اور جب ایک نیلے  اور  میرون مِکس  رنگوں سے امتزاج سے بنے  ہوئے رنگ،  جو کوئی جامنی سی رنگت میں نمایاں ہو رہا تھا اور سیدھا اپنے راستے کو نکلا جہاں وہ جانا چاہتا تھا پیچھے اُس نے مُڑ کے نہیں دیکھا ( یہ لاہوری لڑکا تھا) اِسی وجہ سے سپیڈ کچھ زیادہ تھی۔ 

پہلے جہانزیب کچھ یوں سوچ رہا تھا کہ  اپنے آپ کو ایک اچھا ایکٹر  کیسے ثابت کر سکتا ہے، جس دوران اُس نے بہت سی philosophies سوچیں۔ اب جہانزیب کی عادت دیکھیں، اُس کو آتا جاتا کچھ نہیں تھا، مگر سوچنے کی بہت عادت ہے اور پریشان بھی اکثر ہوتا ہے۔ 

آج یہ سوچ رہا تھا کہ اُس کے گِرد عوام اُسے گھور رہی ہے اوراُس کی تصویریں بنا رہی ہے۔ اُس کے بعد اُس نے حد ہی کر دی یہ سوچنے لگا کہ میں اپنے آپ کو دِکھا رہا ہوں اور مجھے اپنے آپ پر control کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اِس دوران اُس نے پورے Restaurant میں چھ لوگوں کے درمیان بیٹھ کے اِتنی زور سے چیخ ماری کہ  سارے Restaurant والے اُس کی طرف دیکھنے لگ گئے، جیسے اکثر فلموں میں نہیں دِکھاتے؟ ایک مہنگا سا ریسٹورنٹ، ویسا وہ بالکل نہیں تھا کہ سب نے پینٹ کوٹ پہنا ہو اور ایک کونے والی کُرسی میں ایک لڑکا اور لڑکی بیٹھے ہوں اور ایک دَم سے اچانک، مُڑ کے دیکھیں جیسے کوئی بم پھٹ گیا ہو۔

ہمارا مقصد کیا تھا؟ کُچھ ایسے سوالات بھی اُس کے ذہن میں آئے تھے مگر پھر بھی وہ مُسکراتا رہا۔ اب ایسی ساری سوچیں ذہن میں لے کر پھرتا رہتا تھا، اِس وجہ سے رائٹر بننا چاہتا تھا اور کوئی بڑی وجہ نہیں تھی بس اِتنا چاہتا تھا کہ سکون سے بیٹھ کر کچھ ایسا سوچ سکے جِس سے بہت سے لوگوں کا فائدہ ہو۔ 

ایک خیال تو اُس کے ذہن میں یہ بھی آیا تھا کہ پیسے کمانے بھی ضروری ہیں، اب کچھ اِس طرح کیا جائے، جِس سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کا فائدہ ہو، فائدہ زیادہ لوگوں کا ہو گا تو، سارے خوشحال رہیں گے۔ تو  زیادہ لوگوں کو مواقع فراہم کرنے کے لیے چند ایسے لوگوں کو اکھٹا کیا جائے جو کسی ہُنر کے ماہر ہوں جیسے شوارما لگانا بھی ایک ہُنر ہے۔ 

لیکن ہمارے مُلک میں بہت سے ایسے لوگ پائے جاتے ہیں، جو ہُنر کے ماہر تو ہیں مگر پڑھنا لکھنا نہیں جانتے اور اُن کو اَن پڑھ ہونے کا ڈر آگے بڑھنے نہیں دیتا۔ اِس وجہ سے اُن کو اکٹھا کیا جائے اور اُن کے لیے مقامات تلاش کرکے اُن کو ایک آمدن کا ذریعہ مہیا کیا  جائے تو زیادہ لوگ فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ سب کو اکٹھا کرنے کا طریقہ Technology کے ذریعے ڈھونڈا ( جو کہ اب آسان سے آسان کر دی گئی ہے)۔ 

Advertisements
julia rana solicitors

ابھی تک تو یہ سُنا ہے کہ وہ کسی راستے میں گُم ہو گیا ہے اور اِدھر اُدھر سڑکوں پر نشانیاں ڈھونڈ رہا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply