• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • لاک ڈاؤن میں نرمی کے مضمرات اور چند ضروری وضاحتیں ۔۔نصرت جاوید

لاک ڈاؤن میں نرمی کے مضمرات اور چند ضروری وضاحتیں ۔۔نصرت جاوید

کالم لکھنے کی عجلت میں اکثرغلطیاں بھی سرزد ہوجاتی ہیں۔ یہ غلطیاں زبان وبیان سے متعلق ہوں تورپورٹر سے کالم نگار ہوئے صحافی کو معاف کیا جاسکتا ہے۔حقائق کے ضمن میں سرزد ہوئی غلطی مگر سرزنش کی حقدار ہوتی ہے۔ اس حوالے سے چند خطائیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو آپ کو تاحیات شرمسار رکھتی ہیں۔

بدھ کے روز جو کالم چھپا اسے لکھتے ہوئے مجھ سے بھی ایسی ہی ایک فاش غلطی سرزد ہوگئی۔ پیر کے روز سپریم کورٹ میں کرونا کے حوالے سے ازخود لئے نوٹس کی کارروائی کا ذکر چلا تو اٹارنی جنرل خالد جاوید خان صاحب کا حوالہ بھی دینا پڑا۔ تحریر کی روانی میں ان کے والد پروفیسر این ڈی خان صاحب یاد آگئے۔ان کا ذکر کرتے ہوئے میں نے یہ تاثر دیا کہ جیسے خدانخواستہ وہ اس دُنیا میں نہیں رہے۔

بدھ کی صبح آنکھ کھلی تو میرے فون پر کئی قابلِ اعتماد دوستوں کے پیغامات آئے ہوئے تھے۔ بجائے ڈانٹ ڈپٹ کے کمال شفقت سے انہوں نے اصرار کیا کہ پروفیسر این ڈی خان صاحب اگرچہ بڑھاپے کے باعث عملی سیاست سے تقریباََ کنارہ کش ہوچکے ہیں مگر اللہ کے فضل وکرم سے ابھی تک دُنیائے فانی میں موجود ہیں۔یہ پیغامات دیکھ کر قطعاََ گھبرا گیا۔ گھبراہٹ پرقابو پانے کی بھرپور کوشش کے بعد دوستوں سے رابطے شروع کردئیے۔ میرے چھوٹے بھائی جیسے عزیز ازجان اور ہمہ وقت حقائق کی کھوج میں مبتلا رپورٹر اور اینکر پرسن اویس توحید نے تصدیق کی مشقت اپنے سر لے لی۔کراچی میں کئی لوگوں سے رابطے کے بعد انہوں نے مجھے آگاہ کیا کہ پروفیسر این ڈی خان صاحب کے حوالے سے میں یقینا خطاوار تھا۔ مجھ سے سرزد ہوئی خطا پر میں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شرمندہ ہوں۔ربّ کریم سے فریاد ہے کہ میری بقیہ عمر کے کئی برس پروفیسر صاحب کو عطا فرمادے۔خان صاحب کے گھر والوں اور دوستوں کو میرے کالم سے جو دُکھ پہنچا ہوگا اس کے لئے دست بستہ معافی کا طلب گار ہوں۔مجھے کامل اعتماد ہے کہ وہ اس ضمن میںکشادہ دلی برتیں گے۔میں اگرچہ تاحیات شرمسار رہوں گا۔ مجھ سے ہوئی خطا کی تلافی ممکن ہی نہیں۔

بدھ کے روز چھپے کالم میں خالد جاوید خان صاحب سے منسوب ایک بیان کا ذکر بھی ہوا تھا۔ سپریم کورٹ میں ہوئی کارروائی کو رپورٹ کرنے والے چند صحافیوں نے ’’خبر‘‘ دی تھی کہ اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں یہ بیان دیا ہے کہ پاکستان کو عمران خان صاحب کی صورت پہلا ایمان دار وزیر اعظم نصیب ہوا ہے۔ بدھ کی صبح ٹویٹر پر اٹارنی جنرل کے دفتر سے جاری ہوئی وضاحت کی تصویر لگی ہوئی تھی۔اس وضاحت میں اصرار ہے کہ خالد جاوید خان نے عمران خان صاحب کو ایماندار یقینا کہا۔ یہ دعویٰ مگر ہرگز نہیں کیا کہ وہ ہماری تاریخ کے پہلے ایمان دار وزیر اعظم ہیں۔ اس وضاحت میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان صاحب کا ذکر بھی ہوا ہے۔

راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جب وہ سازشی گولی کا شکار ہوئے تھے تو غسل دینے والوں نے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کے لباس میں کامل سادگی اور تقریباََعسرت دریافت کی تھی۔ لیاقت علی خان خاندانی نواب تھے۔ان کا دلی میں جو ذاتی گھر تھا اس کا نام انہوں نے اپنی بیگم کی محبت میں ’’گلِ رعنا‘‘ رکھا تھا۔یہ ایک وسیع وشاندار کوٹھی ہے۔ ان دنوں پاکستان کے بھارت میں متعین سفیر کی رہائش کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ میں 1992میں پہلی بار اس گھر میں ایک سرکاری دعوت میں شریک ہوا تھا۔اس کوٹھی کی شان میں محو ہوا لیاقت علی خان کے آخری ایام یاد کرتا رہا۔یہ حقیقت بھی ذہن میں گونجتی رہی کہ بھارت میں چھوڑی نہایت قیمتی رہائشی اور زرعی اراضی کے عوض انہوں نے پاکستان میں کلیم دائر کرکے کوئی جائیداد حاصل نہیں کی تھی۔ متروکہ املاک کی وجہ سے اگرچہ بے تحاشہ لوگ قیام پاکستان کے ابتدائی سالوں میں راتوں رات ’’خاندانی امیر‘‘ کہلانے لگے تھے۔خالد جاوید خان کا شکریہ ۔انہوں نے سرکاری وضاحت کے ذریعے پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کی ایمان داری کوبھی اجاگر کردیا۔

صبح اُٹھتے ہی این ڈی خان صاحب کے حوالے سے سرزد ہوئی ناقابلِ تلافی غلطی نے میرے ذہن کو بوکھلا نہ دیا ہوتا تو آج کا کالم لکھتے ہوئے میں نے محض لاک ڈائون میں اس نرمی پر توجہ دیناتھی جس کا فیصلہ منگل کے روز ہوا ہے۔کرونا کے حوالے سے اٹلی اور امریکہ جیسے ممالک میں جو Patternنمودار ہوا ہے اسے ذہن میں رکھتے ہوئے لاک ڈائون کی مجوزہ نرمی ایک بہت ہی پُر خطر فیصلہ نظر آرہی ہے۔کرونا کا علاج دُنیا بھر میں کہیں دستیاب نہیں۔اس کے تدارک کو یقینی بنانے والی ویکسین تیار کرنے میں کم از کم ایک برس درکار ہے۔مناسب علاج کی دریافت تک پاکستان جیسے ممالک مجبور ہورہے ہیں کہ بجائے اپنی معیشت کو کامل لاک ڈائون کے ذریعے جمود کی زد میں لانے کے کسی نہ کسی طرح وہ راستہ اختیار کریں جسے Herd Immunityکہا جارہا ہے۔اس کی وجہ سے کرونا کی وباء رو کی تو نہیں جاسکتی مگر توقع یہ باندھی جاتی ہے کہ اس کی زد میں آئے لوگوں کی اکثریت چودہ دنوں میں فطری مدافعتی نظام کی بدولت ازخود شفایاب ہوجائے گی۔ 60برس سے زائد عمر والے افراد البتہ تشویش ناک مراحل سے دوچار ہوسکتے ہیں۔کوشش یہ ہونا چاہیے کہ بوڑھے خود کو روزمرہّ زندگی سے الگ تھلگ رکھیں۔ عزیزوں اور پیاروں سے دوری اختیار کریں۔ پاکستان یہ راستہ اختیار کرنے کو اس لئے بھی مجبور ہوا کیونکہ ہماری آبادی کی بے پناہ اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ہمارے غریب اور نچلے متوسط طبقے کا شہروں میں لیکن جو طرز رہائش ہے وہ Population Densityکی انتہائوں کو چھوتا بھی نظرآتا ہے۔زندگی کو رواں کرنے کی فکر میں اٹھائے اقدامات کی روشنی میں ربّ کریم سے محض فریاد ہی کی جاسکتی ہے وہ ہمارے طبی نظام کی محدودات کو نگاہ میں رکھے۔ وباء تندہوا کی مانند آئے اور اپنا اثر کچھ روز دکھانے کے بعد دل دہلادینے والے واقعات مسلط کئے بغیر گزرجائے۔

جو فیصلہ لیا گیا ہے وہ یقینا پُرخطر ہے۔ بہتر ہوتا ہے اگر یہ فیصلہ کامل نظر آتے قومی اتفاق رائے سے لیا جاتا۔تاثر مگر یہ پھیل رہا ہے کہ جیسے وفاقی حکومت خاص طورپر وزیر اعظم صاحب نے یہ فیصلہ قوم پر ’’مسلط‘‘ کیا ہے۔سندھ حکومت نے اسے بددلی سے قبول کیا۔ اس تناظر میں سیاسی حوالوں سے مزید پریشان کن یہ تاثر بھی ہے کہ جیسے کراچی کے صنعت کاروں اور کاروباری افراد نے صوبائی حکومت کو لاک ڈائون میں نرمی لانے کو مجبور کیا ہے۔تحریک انصاف کے فیصل واوڈا اور علی زیدی جیسے وزراء نے غیر ذمہ دارانہ بیانات کے ذریعے یہ بھی اصرار کیا کہ 2018کے انتخاب کے دوران ’’کراچی‘‘ نے تحریک انصاف کو ووٹ دیا تھا۔سندھ حکومت لہذا ’’کراچی‘‘ کی نمائندہ نہیں۔ وفاقی حکومت کو ’’کراچی والوں‘‘ کا ساتھ دینا چاہیے۔

1980کی دہائی سے سندھ ’’دیہی‘‘ اور ’’شہری‘‘ کے نام پر کئی دہائیوں تک تعصبات کی آگ میں جلتا رہا ہے۔2016سے بالآخر حالات بہتری کی جانب بڑھتے نظر آئے۔ کرونا کے حوالے سے جو قضیہ وفاقی اور سندھ حکومت کے درمیان نمودار ہوا ہے وہ ماضی کی وحشیانہ غلطیوں کو دہرانے کا موجب ہوسکتا ہے۔ہمیں کامل یکسوئی اور دیانتداری سے اس کا تدار ک کرنا ہوگا۔ کرونا کے ضمن میں قومی اتحاد اور یکسوئی کو یقینی بنانے کے لئے میری عاجزانہ رائے میں عمران خان صاحب اور بلاول بھٹو زرداری کے مابین براہِ راست رابطہ ضروری ہے۔ میڈیا کی نگاہوں سے اوجھل یہ دونوں رہ نما اپنے مشیروں سمیت ایک طویل ویڈیو کانفرنس کے ذریعے تفصیلی مذاکرات کرسکتے ہیں۔ ان کے اختتام پر اگر ایک مشترکہ بیان جاری ہوجائے تو بدگمانیاں پیدا کرنے والوں کے لئے حالات بگاڑنے کی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔

پسِ نوشت:بھائی سعید غنی کی مہربانی سے مجھے پروفیسر این ڈی خان صاحب کا فون نمبر مل گیا۔ یہ کالم لکھنے کے بعد ان سے فون پر گفتگو ہوگئی۔ کمال شفقت سے انہوں نے میری خطا کو کھلے دل سے مسکراتے ہوئے نظرانداز کردیا۔ ’’سزا‘‘ کے طورپریہ وعدہ لیا کہ جب بھی کراچی جائوں تو ان کے ہاں حاضری دوں۔ربّ کریم ان کی شفقت کا سایہ ہمارے سرپر سلامت رکھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوائے وقت

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply