شماں۔۔ محمد اسلم خان کھچی

جاگدے رہنا بھائیو۔۔۔۔ جاگدے رہنا بھائیو
پرانے وقتوں میں گاؤں میں یہ صدا ہمیشہ سننے کو ملتی تھی۔اس زمانے میں گاؤں کا اپنا ایک پہرہ داری نظام ہوتا تھا جس میں دو دو کی ٹولیوں کی شکل میں لوگ ساری رات گاؤں کے لوگوں کو تحفظ کا احساس دلاتے تھے ۔اس حفاظتی نظام میں لوگوں کی عزت, جان و مال کی حفاظت جوانوں کی ذمہ داری تھی۔”جاگدے رہنا بھائیو” کی صدا میلوں دور تک سنائی دیتی ۔گونج دار آواز گاؤں کی ماؤں ,بہنوں , بیٹیوں کو تحفظ کا احساس دیتی اور وہ چوری چکاری کے ڈر سے بے خوف ہو کے سکون  سے آنکھوں میں مستقبل کے سنہرے خواب سجائے نیند کے مزے لیتیں ۔ایسا ہی نظام ہمارے گاؤں میں بھی رائج تھا۔ گاؤں کا سردار ہر مہینے کی ابتداء  ہوتے ہی بیٹھک لگاتا اور تمام گھروں سے ایک ایک جوان کو منتخب کیا جاتا اور اسکی پہرہ داری کا دن مقرر کیا جاتا۔ چونکہ اس وقت تاریخ وغیرہ کا کوئی رواج نہیں تھا اس لئے دن مقرر کیے جاتے ،جمعرات, جمعہ, ہفتہ وغیرہ۔

گاؤں کو حفاظتی نظام کے تحت دو حصوں میں تقسیم کر دیا جاتا۔ اور چار لوگ پوری رات ہاتھوں میں ڈانگیں پکڑ کے پہرہ داری کا فریضہ سر انجام دیتے۔عجب دور تھا کہ لوگ بےچینی سے اس پُرمشقت رات کا انتظار کرتے اور گاؤں کی حفاظت کے لیے پوری رات جاگنے میں فخر محسوس کرتے ۔
اتفاق سےگاؤں کے سردار اباجی تھے۔چھوٹا ہونے کی وجہ سے اس فرض کا قرعہ فال میرے نام نکلتا ۔میں جب اس حفاظتی سسٹم کا حصہ بنتا تو ایک انجانی سی خوشی کے احساس سے سرشار ہوجاتا ۔یوں لگتا کہ میں بڑا ہو گیا ہوں، دوسرے لفظوں  میں یوں کہیے کہ مجھے اپنے ہونے کا احساس ہوتا۔

اس رات کا بے چینی سے انتظار ہوتا ۔خدا خدا کر کے وہ رات آتی اور ہم ڈانگیں پکڑ کے پوری رات گاؤں کی گلیوں میں گلا پھاڑ پھاڑ کے آوازیں لگاتے۔” جاگدے رہنا بھائیو” کبھی کبھی تو کان پھاڑنے والی آواز کی وجہ سے ماسی رحمتے سے گندی گندی گالیاں بھی سننے کو مل جاتیں، جو ہماری آواز کو اور پُرجوش کر دیتیں۔

دن کو اکٹھے کیے گئے سگریٹوں کے ٹوٹے (ٹکڑے) پیے جاتے۔مستعدی کے ساتھ کھلی آنکھوں پوری رات دیانتداری کے ساتھ پہرہ دیا جاتا۔بچپن کی خواہشیں بھی کچھ بچپنے جیسی ہوتی ہیں۔ کبھی کبھی دل میں انہونی سی خواہش ضرور مچلتی کہ کاش کچھ ایسا ہو ,کاش کوئی چور آجائے, کاش ہم اسے پکڑ کے گاؤں والوں کے سامنے پیش کر کے داد وصول کر سکیں اور ثابت کر سکیں کہ ہم بڑے تیس مار خان ہیں ،لیکن شومئی  قسمت , کبھی ایسا نہیں ہوا ۔

ہر زمانے کی اپنی سچائی اور اپنا خلوص ہوتا ہے۔ دل سے نکلی پہرہ داروں کی صداؤں میں اتنا خلوص ہوتا کہ لفظوں میں ان جذبات کو  قید کرنا مشکل لگتا ہے ۔اب تو بھولی بسری سی اک کہانی لگتی ہے ،خیر انہی آوازوں میں رات گزر جاتی اور فجر کی نماز پڑھ کے گھروں کو جا کے سو جاتے۔

زمانہ خوبصورت تھا ۔ وقت خوبصورت گزر رہا تھا۔۔۔۔

گاؤں کا سلوگن” عزت سب کی سانجھی “پہ پوری ایمانداری و دیانتداری کے ساتھ عمل درآمد ہو رہا تھا  کہ اچانک “شماں”  نام کی ایک آکاس بیل گاؤں میں آگئی۔ گاؤں میں حسین سے حسین تر مٹیاریں تھیں لیکن وہ بیچاری کسی کے من میں نہ بس سکیں، شاید بس بھی نہیں سکتی تھیں کیونکہ بچپن سے ہی سب کے دل و دماغ میں سمو دیا گیا تھا کہ یہ سب بہنیں ہیں اور سب بھائی ہیں ۔ بہن بھائی کا فطری حجاب سب کے خون میں رچ بس گیا تھا، اس لئے ان بیچاریوں کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کے نہیں دیکھتا تھا۔ پتہ نہیں من ہی من میں وہ کتنے خواب سجائے پھرتی ہوں ،لیکن فطری تقدس اور مذہبی تربیت نے سب کو بہن بھائی کے رشتے میں باندھ دیا تھا۔

لیکن ۔۔۔شماں۔۔۔ نام کی آکاس بیل آتے ہی چھا گئی۔ سانولی سلونی سی رنگت , دل آویز نقوش ,بھرا بھرا چھریرا بدن ,سرو قد, نشیلی دلنشیں غزالی آنکھیں ,کالی گھٹا جیسی زلفیں ,لبوں پہ ایک  دلفریب مسکراہٹ” بس آئی اور چھا گئی “۔
جہاں سے بھی گزرتی ،کچھ یادیں چھوڑ جاتی۔ پہلے پہل تو گاؤں کے جوان راستہ بدل لیتے،لیکن کن اَکھیوں سے ضرور دیکھتے ۔آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو اشارہ کرتے۔ خود ہی خود شرما جاتے یا مسکرا دیتے۔

آہستہ آہستہ اسکے لبوں کی دل آویز مسکان اور آنکھوں کے اشاروں نے اثر دکھانا شروع کر دیا۔باقیوں کا تو مجھے پتہ نہیں لیکن اگر کبھی مجھے دیکھ کے مسکرا دیتی تو میرے گال اور کان لال ہو جاتے اور مجھے اپنے ہی بدن سے دھیمی دھیمی سی خوشبو محسوس ہونے لگتی۔ جس دن وہ مجھے مسکرا کے دیکھتی۔ پوری رات تارے گننے میں گزر جاتی۔ اس کے کئی روپ آنکھوں کے سامنے رقص کرتے رہتے۔ ایک سرور انگیز لہر بدن میں انگڑائیاں لیتی رہتی اور پوری رات    عجیب سی کیفیت  میں گزر جاتی۔ یوں لگتا کہ اس کے لبوں کی دلفریب مسکراہٹ میرے لبوں پہ سج گئی ہے۔اسکا دل نشیں روپ کئی کئی دن آنکھوں میں بسا رہتا۔ راتوں کو نئے نئے سرکش جذبات میرے بدن میں مدوجزر کی کیفیت پیدا کرنے لگے۔ پہلے تو کچھ پریشان ہوا لیکن سرکش جذبات کی شدت سے مغلوب آندھیاں میرے نوخیز بدن کو   مستی کی حسین وادیوں کی سیر پہ لے جاتی۔بے رحم فطرت کے ہاتھوں مجبور میں سرکش جذبات کا مقابلہ نہیں کر پایا اور لذت ِ وجود میں کھوتا چلا گیا۔ نیند کیا تھی کہ بس وجود کی گرمی کو ایک پرکیف حسیں لذت سے روشناس کرا گئی۔ آنکھ کھل گئی لیکن میں آنکھیں بند کیے اس لذت کا لمس کئی گھنٹے اپنے بدن میں محسوس کرتا رہا۔جب سرور کی کیفیت سے نکلا تو اٹھنے کی کوشش کی لیکن بدن سے جاں نچڑ چکی تھی۔ میں بے سدھ ہو کے سو گیا۔صبح نماز کیلئے بھی نہیں آٹھ سکا۔

شاید ایسی ہی حالت دوسرے نوخیز جوانوں کی بھی ہو گی کیونکہ سب اس سے مانوس ہونے لگے۔ دیکھ کے راستہ نہیں بدلتے تھے بلکہ  بہانے بہانے اس کے گھر کے سامنے سے گزرتے۔تھوڑا رکتے,تھوڑا کھانستے اور آگے نگل جاتے ۔میں بھی ان لوگوں میں شامل ہو گیا۔ لال رومال جیب میں رکھنے کی پتہ نہیں کیا Logic تھی۔ میں نے بھی جیب میں لال رومال رکھنا شروع کر دیا اور عطر کی شیشی بھی خرید لی۔ روئی کو عطر میں بھگو کے کان کی لو میں رکھتا اور دن میں گلی کے کئی چکر لگاتا۔

لیکن گاؤں کے زیرک جہاندیدہ بزرگوں سے یہ باتیں بھلا کہاں چھپی رہ سکتی ہیں۔ جلد ہی ان کو اندازہ ہو گیا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ نوخیز جوان آپے سے باہر ہوتے جارہے ہیں۔ ہر وقت ان کی ہنسی نہیں رکتی۔ کھلکھلا کے, قہقہے لگا کے ہنستے ہیں۔ بس اسی بات پہ تحقیق شروع ہو گئی اور جلد ہی جوانوں کی خوشیوں کا کْھرا ۔۔۔ شماں ۔۔۔کی گلی تک پہنچ گیا۔

زیرک بوڑھوں کو اندازہ ہو گیا کہ ۔۔ شماں ۔۔ نام کی یہ آکاس بیل پورے گاؤں کو لپیٹ میں لے لے گی اور جوانوں کے ساتھ ساتھ گاؤں کی معصوم دوشیزاؤں کی معصومیت پہ بھی کاری ضرب لگائے گی۔ بیٹھک سجی اور اس فتنے کے تدارک کا فیصلہ ہوا اور حکم جاری ہوا کہ اب پورے گاؤں کی بجائے صرف اس گھر پہ سخت سے سخت پہرہ دیا جائے۔جوان جذبہ حفاظت کے ساتھ حرکت میں آئے بلکہ میری نظر میں جذبہ حفاظت کی بجائے جذبہ حسد کے ساتھ ایک دوسرے پہ اتنی سخت نظر رکھنے لگے کہ بیچاری”شماں “اپنے ہی گھر میں نظر بند ہو گئی۔ جوانوں نے ایک دوسرے کا اتنا سخت بلیک آؤٹ کیا وہ بیچاری غلط فہمی میں ہم سب کے ارمانوں کا خون کر کے کسی دوسرے گاؤں منتقل ہو گئی۔ اس بیچاری کو تو اندازہ ہی نہیں ہو پایا کہ ہم نوجوان تو بس ایک دوسرے پہ نظر رکھے ہوئے تھے ۔خیر بزرگوں کی نظر میں یہ ایک بدترین فتنہ تھا جو جلد ہی اپنے انجام کو پہنچ گیا۔۔۔

پاکستان میں ایسی ہی ایک “ماروی سرمد” نامی آکاس بیل پچھلی دو دہائیوں سے اس ملک میں فحاشی کا پرچار کر کے” عزتیں سب کی سانجھی”کے باوقار اور شرعی احکام کو ریاست مدینہ کے دعویداروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے ملک کی صدیوں پرانی اقدار کو پامال کر رہی ہے۔ مانا کہ یہ فتنہ بہت جلد اپنے انجام کو پہنچے گا لیکن اس فتنے کے اس بدبودار اور غلیظ نعرے۔۔۔ میرا جسم میری مرضی،سے متاثر ہو کے اگر صرف ایک ہی معصوم بچی نے ایک ناجائز بچے کو جنم دے دیا تو بروز محشر وہ بچہ ریاست مدینہ کے حکمرانوں اور ہم سب کے گریبان میں ہاتھ ڈال کے ضرور پوچھے گا کہ۔۔۔ میرا باپ کون ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

بار بار ریاست مدینہ کا دعویٰ کرنے والے شاید ریاست مدینہ کی تاریخ سے واقف نہیں۔۔۔ ہم یاد دلا دیتے ہیں۔
ریاست مدینہ وہ تھی کہ عورت یہ کہتی تھی
جسم بھی اللہ کا،مرضی بھی اللہ کی
مجھے یہ جسم میری مرضی کے بغیر میرے اللہ نے دیا اس جسم کے لیے مرضی بھی میرے اللہ کے احکام دین اسلام کے مطابق چلے گی۔
مدینہ کی گلیوں میں منادی کرنے والے کی صدا گونجتی ہے کہ پردے کا حکم نازل ہو گیا ہے۔
بازار میں موجود بیبیاں، دیواروں کی طرف رخ پھیر لیتی ہیں، کچھ بالوں سے خود کو چھپاتی ہیں کہ اب تو چادر کے بغیر گھر نہیں جائیں گی۔ بچوں کو دوڑاتی ہیں کہ گھر سے چادر لے آؤ۔
مرد حضرات منادی سنتے ہیں۔ گھروں کو لپک کر گھر کی خواتین کو یہ حکم سناتے ہیں۔ ان کو تاکید سے خود کو ڈھانپنے کا کہتے ہیں۔ مگر کوئی بی بی سوال نہیں کرتی کہ پردہ کس چیز سے کرنا ہے، چادر موٹی ہو یا باریک، آنکھیں کھلی ہوں یا چھپی اور بس خود کو ایسے چھپا لیتی ہیں جیسے کہ حق تھا۔
اگلے دن فجر کی نماز میں کوئی بھی خاتون بغیر پردے کے نظر نہیں آتی۔
تاریخ کچھ اوراق الٹاتی ہے اور منظر تبدیل ہوتا ہے۔
دو قومی نظریہ کی بنیاد پر بننے والے ایک ایسے ملک کے دارالحکومت میں جس کے وجود میں آنے کا سب سے بڑا نعرہ ’’پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ‘‘ تھا وہاں بے وقوف عورتوں کو ان کی نام نہاد آزادی کا سبز باغ دکھا کر ان کے ہاتھوں میں ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ جیسے نازیبا کلمات پر مبنی کتبے دے کر عورتوں کا مذاق بنایا جاتا ہے۔
مسلمانوں کے زوال کی تاریخ پہ طائرانہ نظر ڈالی جائے تو نتیجہ نکلتا ہے کہ مسلمان جب بھی تباہ ہوا،جنسی بے راہ وری سے تباہ ہوا۔ ہندوستان پہ مسلمانوں نے آٹھ سو سال حکومت کی لیکن ان کی تباہی کی وجہ عیش و عشرت   بنی۔ ایسا ہی اس وقت پاکستان میں ہو رہا ہے۔ پوری کوشش کے باوجود اس وقت بلیو فلمز پہ پابندی نہیں لگا سکے۔بلیو فلمز دیکھنے میں ہم پہلے نمبر پہ آتے ہیں۔ دیکھی گئی بلیو فلمز پہ اب فزیکلی پریکٹیکل سسٹم کی طرف راغب کیا جا رہا ہے” میرا جسم، میری مرضی” دراصل عورت کی آزادی نہیں,غلامی کی طرف پہلا قدم ہے۔ اس نعرے والی عورت کے جسم کی بے توقیری دیکھنی ہو تو بازار حسن میں جائیے۔ حسین سے حسین تر عورتیں شام کو باقاعدہ تھڑے پہ دوکان سجاتی ہیں۔ بھاؤ تاؤ ہوتا ہے اور پھر کہیں جا کے دال روٹی چلتی ہے۔۔۔۔میراجسم ،میری مرضی ،والیوں سے گزارش ہے کہ مارچ میں جانے سے پہلے کبھی سر شام بازار حسن کا ایک چکر ضرور لگائیے اور کسی بزرگ خاتون سے ضرور ملیئے جس نے کبھی۔۔۔ میرا جسم۔۔۔ میری مرضی کا نعرہ لگایا تھا ۔اس نعرے کا مطلب وہ بہترین انداز میں سمجھا دے گی ۔
اللہ آپ سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔۔ آمین

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply